فرعون کہنے لگا: ''یہ تو بڑا زبردست جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ تمہیں تمہاری زمین سے نکال باہر کرے۔ تو پھر تمہارا کیا مشورہ ہے‘‘(الشعراء) فرعون کی یہ پریشانی یا درست معنوں میں مکاری قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر کی گئی ہے۔ وہ خوب جانتا تھا اور اس کے سردار بھی جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کامطالبہ صرف یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے جانے دیا جائے‘ جہاں وہ سختیاں جھیل رہے تھے۔ وہ مصر میں رہنا ہی نہیں چاہتے تھے تو مصریوں کی زمینوں پر قبضہ کیسا؟ لیکن فرعون نے اپنے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے کہا کہ یہ لوگ تمہاری زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘ اس لیے ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ غیر مسلح‘ نہتے‘ بے وسائل بنی اسرائیل مسلح‘ با وسائل‘ سفاک مصریوں کی زمینوں پر قبضہ کیسے کر سکتے تھے جبکہ خود فرعون کا کہنا یہ تھا کہ ''ہم ان سے برتر اور ان کے سروں پر ہیں‘‘۔ یہاں فرعون کی مکاری تو ظاہر ہوتی ہی ہے لیکن اس کے اندر کا خوف بھی اس میں جھلک رہا ہے کہ بالآخر فتح بنی اسرائیل کی ہو گی اور ہم بالآخر ان کے ہاتھوں اقتدار کھو بیٹھیں گے۔
ہزاروں سالوں کے بعد فلسطین میں معاملہ بالکل برعکس صورت میں سامنے آرہا ہے۔ بنی اسرائیل کا ایک بڑا اور بااقتدار گروہ فرعون کی مکاری اور چالوں پر عمل کر رہا ہے۔ جبکہ فلسطین ہزاروں سال سے نسل در نسل اپنے آباء کی زمینوں پر رہنے کی جد و جہد کر رہے ہیں اور یہاں سے نکالے جانے کی کوششوں میں مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے ان پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر 1948ء سے عمل پیرا ہے۔ یہ اس کی مکاری اور اس کی پریشانی دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ وہی خوف جو ظالم اور سفاک گروہ یا فرد کو مسلسل تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے‘ اسرائیل اور اس کے حامیوں کے اندر بھی ہے۔ کسی بھی ظالم کو جو ہر قانونی‘ اخلاقی‘ انسانی قدر کو ملیا میٹ کرکے کسی زمین پر قابض ہوا ہو اور زمین کے مالکوں کے سروں پر جبری طور پر تسلط برقرار رکھے ہوئے ہو‘ اس خوف سے خالی نہیں ہوتا۔
الجزیرہ نے حال ہی میں ایک رپورٹ مضمون کی شکل میں شائع کی ہے۔ یہ غزہ کی پٹی کیلئے اسرائیل کا پلان بی ہے۔ اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی کو اس طرح تہس نہس کر دیا جائے کہ یہ علاقہ فلسطینیوں کیلئے ناقابلِ رہائش ہو کر رہ جائے۔ اٹلی کی یونیورسٹی آف ٹورین (University of Turin) کے بین الاقوامی معاملات کے ایک پروفیسر لورینزو کامیل نے یہ رپورٹ تحریر کی ہے۔ مصنف نہ فلسطینی ہے اور نہ عرب لیکن یہ رپورٹ اس منصوبے کو ظاہر کرتی ہے جس پر اسرائیل مسلسل عمل کر رہا ہے۔ دو ماہ کے مسلسل زمینی اور فضائی حملوں میں 20ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دینے کے بعد‘ تقریباً 50ہزار سے زائد انسانوں کو شدید زخمی کر دینے کے بعد‘ ہسپتالوں‘ گھروں‘ سکولوں‘ مساجد‘ معبدوں کو زمین کی سطح تک ہموار کر دینے کے بعد بھی اسرائیل کی پیاس ابھی بجھی نہیں ہے۔ آڑ تو حماس کو مکمل تباہ اور نیست و نابود کردینے کی ہے لیکن غیرمسلح شہریوں اور شہری آبادیوں پر حملوں کے مقاصد اس بیان کردہ مقصد سے بالکل الگ ہیں۔ غیرملکی عہدے دار اور تجزیہ کار جو مجموعی طور پر بہرحال انصاف سے بالکل خالی نہیں ہیں‘ واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ غزہ کی مکمل تباہی اور اندرونی ذرائع مواصلات اور آمد و رفت کو تہس نہس کرنے کا اصل مقصد کچھ اور ہے۔ مضمون میں پروفیسر لورینزو لکھتے ہیں کہ اسرائیلی منسٹری آف انٹیلی جنس کی ایک دستاویز اکتوبر کے اواخر میں افشا ہوئی تھی جس میں خاکہ یہ بتایا گیا ہے کہ غزہ کو بالکل ناقابلِ رہائش بنا کر 23لاکھ فلسطینیوں کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ مصر کے صحرائے سینا کی طرف چلے جائیں۔ یہ دستاویز ایک آرگنائزیشن ''Unity of Settlement-Gaza‘‘ کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ اور اس میں غزہ خالی کرانے کے بعد نئی آباد کاری کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ 18سال قبل اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیے جانے کے بعد یہ نئی آباد کاری مہم دوبارہ شروع کی گئی ہے۔ اس میں مسئلہ غزہ کی آبادی کا تھا تو اس کیلئے غزہ کو جب تک مکمل طور پر برباداور بالکل خالی نہیں کرا لیا جاتا‘ یہ مقصد حاصل ہونا مشکل ہے۔ اس کیلئے شہری آبادی اور اس کیلئے ضروری سہولتوں کو نشانہ بنانا لازمی ہے۔ سکول‘ یونیورسٹیز‘ ہسپتال‘ بیکریاں‘ دکانیں‘ کھیت‘ زرعی زمینیں‘ پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک‘ سیوریج سسٹم‘ بجلی گھر‘ توانائی کے ذرائع‘ سولر پینلز اور جنریٹرز وغیرہ وہ لازمی سہولیات ہیں جن کے بغیر کسی علاقے میں انسان زندہ نہیں رہ سکتے۔ اسی کیساتھ ساتھ غزہ کا اس طرح مکمل محاصرہ جس میں خوراک‘ بجلی اور ادویہ اہلِ غزہ تک کسی بھی صورت میں نہ پہنچ سکیں‘ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسرائیلی فوج محض چند ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دیتی ہے جنہیں تمام انسانی تنظیمیں چند دانوں کے برابر سمجھتی ہیں۔ 18لاکھ بے گھر انسانوں کیلئے یہ کیسے کافی ہو سکتی ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس نے غزہ کو ایک بڑے برباد شدہ علاقے اور قبرستان میں بدل رکھا ہے۔ حکمت عملی کا ایک نکتہ ایسے وبائی امراض پھوٹنے کی صورتحال بنا دینا ہے جس میں لوگ ان امراض کے ہاتھوں ہلاک ہو جائیں۔ خود اسرائیلی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ایک سابق سربراہ گیورا آئی لینڈ نے بھی کہا ہے کہ مہلک وبائی امراض کا غزہ میں پھوٹ پڑنا ہماری فتح کو قریب تر کرے گا۔ ایک بار جب غزہ کی آبادی کے پاس غزہ ترک کر دینے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ بچے تو قریبی ممالک جیسے مصر اور اردن کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس آبادی کو اپنے اندر جگہ دیں۔ یہ بات بھی اسرائیل کے اہم لوگوں نے کئی بار کہی ہے۔ جن میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا سابق سربراہ رام بن باریک بھی شامل ہے۔ عبرانی زبان کی ایک ٹویٹ میں بن باریک نے کہا تھا کہ ''بہت ضروری ہے کہ ہمسایہ ملکوں کی ایک مشترکہ یونین بنائی جائے جسے بین الاقوامی مدد دی جائے جو ان فلسطینیوں کو ان ملکوں کی شہریت مہیا کرے جو غزہ چھوڑیں گے۔ بن باریک کے مطابق یہ غزہ کے ان شہریوں کیلئے بہت اچھا راستہ ہو گا جو حماس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حماس جو ان شہریوں کو انسانی ڈھال کیلئے استعمال کر رہا ہے‘‘۔ مضمون نگارکے مطابق یہ خود اسرائیل ہے جو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ ایک اور کام یہ کیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فلسطینی چونکہ عرب نسل کے لوگ ہیں‘ اس لیے باآسانی ملحقہ ممالک میں جذب ہو سکتے ہیں ۔ بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے بارے میں کہا بھی تھا کہ 22 عرب ممالک پہلے ہی موجود ہیں‘ ان کے بعد ایک اور عرب ملک کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری طرف مصری اور اردنی سربراہ فلسطینیوں کو قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔ وہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن وہ امریکی اور اسرائیلی دباؤ کے سامنے کتنا ٹھہر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ابھی وقت کرے گا۔ جبکہ خود فلسطینی عرب شناخت کیساتھ ساتھ فلسطینی شناخت پر بھی مُصر اور قائم ہیں۔ ایک ہزار سال پہلے بھی یہ شناخت قائم تھی۔ یروشلم کے جغرافیہ دان المقدسی (946-1000ء) نے خود کو مصری نہیں‘ فلسطینی کہا تھا اور وہ اس پر فخر کرتا تھا۔
اسرائیل کا یہ پلان بی کس حد تک ممکن ہو سکے گا‘ یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔ حماس کی مسلسل مزاحمت‘ عالمی دنیا کی مخالفت اور ہمسایہ ممالک کا انکار اس پلان کو مکمل ہونے دے سکے گا؟ اسرائیل کا جو مسلسل جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے‘ وہ کتنی دیر برداشت کر سکے گا؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ کا ارادہ کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں نا کہ ''انہوں نے اپنی تدبیر کی اور اللہ نے اپنی تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved