پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے ہم سب توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کرتے ہوں گے؛تاہم جب ان فیصلوں کے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں تو حکمرانوں کے ردعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تو پہلے کچھ سوچا تھا نہ سمجھا تھا ،دیکھا تھا نہ بھالا تھا۔ اب دیکھیں تمام سیاسی جماعتیں اے پی سی کے نام سے جمع ہوئیں۔سب نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حکومت کی خواہش کی تائیدکی۔ فیصلہ ہو گیا کہ مذاکرات ہوں گے۔ پوری قوم یہ باور کرنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ہوم ورک کیا ہوگا اور جب اے پی سی میں حکومت کی مذاکرات کی پالیسی کی سب نے حمایت بھی کردی تو کچھ پیش رفت ہونی چاہیے تھی۔ ذراپیش رفت ملاحظہ کیجیے ۔ طالبان کے لیڈر کہتے ہیں کہ حکومت نے مذاکرات کو میڈیا کے حوالے کردیا ہے اور یہ کہ طالبان میڈیا کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ گویا طالبان کی طرف سے اس امر کی تصدیق کردی گئی ہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ضمن میں ابھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس کو مذاکرات کی جانب پہلا قدم قرار دیا جا سکے۔ وزیراعظم نے طالبان کے حوالے سے حال ہی میں اپنے دورۂ امریکہ میں جو بیانات دیے ان کو مذاکرات کی طرف پہلا قدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان بیانات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات کا فیصلہ پوری طرح سوچ سمجھ کر نہیں کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے روز ہی کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آ رہی ہے اور بدقسمتی سے یہ تاثر اور بھی پختہ ہو رہا ہے کہ حکومت کے پاس اس ضمن میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے۔ اب آیئے معیشت کی طرف۔ جب محترم اسحق ڈار صاحب بجٹ بنا رہے تھے تو قوم کیسے کیسے سہانے خواب دیکھ رہی تھی، اگرچہ حکام یہ کہہ کر ڈرا بھی رہے تھے کہ حالات بہت خراب ہیں اور گزشتہ حکومت نے ملک کی معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے لیکن ساتھ ہی امید بھی دلائی جا رہی تھی کہ ہم صحیح سمت میں آگے بڑھیں گے۔ بجٹ کا اعلان ہوا اور ساتھ ہی اس کے منفی اثرات قوم تک پہنچنا شروع ہو گئے‘ جو آج تک جاری ہیں۔ مسلم لیگ ن کے حامی تک حیرت زدہ ہیں اور انہوں نے فیصل آباد کے ایک ضمنی انتخاب میں کھل کر اپنی حیرت کا اظہار بھی کیا ہے۔ شروع شروع میں تو اسحق ڈار صاحب میڈیا پر آ کر اپنی ’’مثبت‘‘ پالیسیوں کا دفاع بھی کرتے تھے مگر آج کل وہ میڈیا پر آنے سے گریز کرتے ہیں۔ محترم وزیر خزانہ نے ملکی معیشت کے حوالے سے جو بڑے بڑے فیصلے اپنی جماعت کی قیادت کے ساتھ مل کر کیے ہیں کیا آپ کو ان کے پیچھے کوئی سوچ بچار دکھائی دیتی ہے؟ آپ جتنا بھی غور کر لیں آپ کو دکھائی دے گا کہ نہ کرپشن ختم کرنے کا کوئی اقدام ہوا ہے اور نہ ہی امیر ٹیکس چوروں سے ٹیکس حاصل کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ جو اقدام بھی ہوئے ہیں ان کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی ہی اجیرن ہوئی ہے اور مزید ہو رہی ہے۔ اب ایسے اقدامات کسی سوچ بچار کا نتیجہ تو نہیں ہوتے۔ اگر آپ بھولے نہ ہوں تو جب محترم نوازشریف نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو اس وقت ہر طرف سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ اس بات کو چھوڑیں کہ انتخابات کی مہم کے دوران چھ مہینے سے لے کر دو تین سال تک میں لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کی باتیں ہوئی تھیں‘ یہ یاد کریں کہ نئی حکومت نے اپنے قیام کے بعد لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے ضمن میں انرجی کانفرنسیں وغیرہ کر کے ایک بڑی جامع پالیسی بنائے جانے کی نوید سنائی تھی۔ اس جامع پالیسی کے بہت سے نکات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں؛ تاہم ایک بات جو حکومت بڑے یقین سے کہہ رہی تھی کہ گردشی قرضے کے پانچ سو ارب روپے ادا کرنے کے بعد لوڈشیڈنگ میں اچھی خاصی کمی آ جائے گی۔ انرجی پالیسی کے مثبت نتائج کب ظاہر ہوں گے؟ یہ تو معلوم نہیں لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ لوڈشیڈنگ میں اچھی خاصی کمی تو کجا بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ جوں کی توں ہے۔ پہلے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی امیدیں وزیراعظم نوازشریف اپنی بات چیت میں دلاتے رہے‘ ساتھ ہی شہباز شریف صاحب اس ضمن میں بڑی حوصلہ افزا گفتگو کیا کرتے تھے۔ پھر وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف صاحب کچھ عرصہ قوم کو امیدیں دلانے پر مامور رہے۔ اب وزیر مملکت عابد شیر علی رہ گئے ہیں۔ روز کوئی نہ کوئی بیان دیتے ہیں۔ جہاں وصولی کم ہوگی وہاں لوڈشیڈنگ زیادہ ہوگی۔ جہاں وصولی زیادہ ہوگی لوڈشیڈنگ کم ہوگی۔ پتہ نہیں اس پالیسی کو کیسے عملی جامہ پہنائیں گے۔ اسی طرح اگر ہم خارجہ حکمت عملی کی بات کریں تو وزیراعظم صاحب شروع ہی سے جس تواتر سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے اپنے مینڈیٹ کا ذکر کرتے رہے‘ اس پر کافی لوگ حیرت میں ہیں۔ موصوف کا استدلال جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں عوام سے پوچھے گئے سوال سے ملتا جلتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ مجھے یعنی ضیاء الحق کو پانچ برسوں کے لیے صدر منتخب کر رہے ہیں۔ یعنی آپ سوچیں جب لوگ گیارہ مئی کو ووٹ ڈال رہے تھے تو کسی کے ذہن میں تھا کہ ہم نوازشریف کو ووٹ دے کر بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دے رہے ہیں۔ بہرحال اب حالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی سرد مہری نے ہمارے رہنمائوں کے اس مینڈیٹ کو بے فائدہ کر دیا ہے۔ لیکن آپ غور کریں کہ اس طرح بھارت کی طرف اندھا دھند دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے پیچھے کوئی سوچ بچار تھی یا محض یہ خواہش تھی کہ 1999ء میں برصغیر کا جو سیاسی منظر تھا اس کو دوبارہ پیدا کردیا جائے۔ کتنا غور کر لیں آپ کو سوچ بچار کا فقدان ہی دکھائی دے گا۔ لہٰذا ابھی تک نئی حکومت اپنے اقدامات سے عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے میں ناکام ہی دکھائی دے گی کہ وہ اٹھارہ کروڑ عوام کے مقدر کے فیصلے انتہائی سوچ بچار کے بعد کر رہی ہے۔ نئی حکومت کو آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ وہ چاہے تو سنبھل سکتی ہے مگر جس طور سے ابتدائی چند دنوں میں حکمرانی ہوئی ہے اگر یہی انداز قائم رہا تو ہو سکتا ہے کہ نئی حکومت ہمیں گزشتہ حکومت سے بھی زیادہ مہنگی پڑے اور یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ آج ملک اگر بحرانوں کا شکار ہے تو یہ ماضی کی حکومتوں میں سوچ بچار کے فقدان کا نتیجہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved