مذہب اگر قدیم ہے تو الحاد نیا کیسے ہو سکتا ہے؟
ان دنوں سوشل میڈیا پر 'جدید الحاد‘ کا چرچا ہے۔ اہلِ مذہب اس کے جواب میں اپنا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔ مذہبی حلقے اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ نئی نسل کو جدید الحاد اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ میں جتنا غور کر سکا ہوں‘ مجھے اس الحاد میں کچھ نیا پن دکھائی نہیں دیا۔ وہی پرانے سوال کہ خدا کو کس نے پیدا کیا‘ زمان و مکان کو خدا نے پیدا کیا تو اس سے پہلے خدا کہاں تھا اور وہی علت و معلول کی بحث۔ نہ الحاد کے سوال نئے ہیں اور نہ مذہب کے جواب۔ سائنس کی چند نئی کامیابیوں نے الحاد کو جدید دلائل فراہم کر دیے ہیں۔ جوہری طور پر اس میں کچھ نیا نہیں۔ دعویٰ اور جوابِ دعویٰ‘ دونوں قدیم ہیں۔
میرا احساس ہے کہ یہ بحث کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ زندگی کے باب میں دو نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ہے جسے فلسفہ اور سماجی علوم نے اپنے اپنے زاویے سے بیان کیا ہے۔ فلسفے نے اسے وجود و عدم اور علت و معلول جیسی اصطلاحوں میں بیان کیا ہے اور سماجی علوم نے سیکولر ازم‘ لبرل ازم‘ اسلام ازم اور جمہوریت جیسی تراکیب اختیار کی ہیں۔ کہانی بس اتنی ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو زندگی کو خدا مرکز سمجھتے ہیں اور دوسرے اسے خدا کے بغیر دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔
علم جب کسی مضمون (Discipline) میں ڈھلتا ہے تو اس کی ضروریات کے تحت چند لغوی اور بیانی حدود کا پابند ہو جاتا ہے۔ جیسے طب کے علم کی اپنی اصطلاحیں ہیں اور انجینئرنگ کی اپنی۔ یہی معاملہ فلسفے اور سماجی علوم کا ہے۔ اگر ہم علوم کی تحدیدات سے بلند ہو کر اس قضیے کو جانیں تو اس کا حاصل یہی ہے کہ زندگی کو آپ کس نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
مذہب‘ ظاہر ہے کہ ایک خدا مرکز تصورِ حیات ہے۔ اُس کے مطابق یہ عالم کے پروردگار کی ہدایت ہے۔ انسان خدا کا بندہ اور اس کی مخلوق ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر‘ اسے زندگی گزارنے کے لیے جس راہنمائی کی ضرورت ہے‘ لازم ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہو۔ یہ ہدایت اس کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے اور یاد دہانی کے لیے‘ اس پیغام میں بھی موجود ہے جو ضروری تفصیلات کے ساتھ‘ خدا کے پیغمبروں کی وساطت سے اس تک پہنچا ہے۔ یہ ایک سادہ مقدمہ ہے جس میں کوئی ابہام نہیں۔
دوسرا مقدمہ بھی اپنی حقیقت میں زیادہ پیچیدہ نہیں۔ اس کے مطابق یہ کائنات اتفاق سے وجود میں آئی ہے۔ اس کی حقیقت مادہ ہے۔ مادہ ارتقا سے گزرتا ہے اور اس دوران میں‘ وہ کئی صورتیں اختیار کرتا ہے۔ اس کی ایک ارتقائی صورت انسان ہے۔ اس ارتقا کا سبق یہ ہے کہ بقا کے لیے اس مادے کو خود ہی زندگی کے مطالبات پورے کرنے ہیں۔ یہ کیسے ہو گا‘ اس کا ایک شعور اس مادے میں موجود ہے جس تک رسائی کا ذریعہ عقل ہے۔ یہ اسے بقا کے راستے سجھاتا ہے۔ اس سارے عمل میں خدا کا کوئی کردار نہیں۔
فلسفہ اس دوسرے مقدمے کی دین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عقل کو شعور کا دروازہ مانا گیا تو شعور میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب دینا بھی عقل کی ذمہ داری قرار پایا۔ عقل نے جو جواب دیے اور شعورِ انسانی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی‘ اس سے فلسفیانہ افکار وجود میں آئے۔ ان افکار نے مذہب کے مقدمے کو فی الجملہ غلط قرار دے دیا۔ یا فلسفے کے پیرا ڈائم میں رہتے ہوئے ایک تصورِ خدا دیا۔ گویا انسان نے خود ہی خدا کی صورت گری کی۔ اہلِ مذہب کو مجبوراً اس میدان میں اترنا پڑا کہ انسان عقلی وجود ہونے کے ناتے‘ متقاضی تھا کہ مذہب بھی اپنا مقدمہ عقلی انداز میں پیش کرے۔ مذہب جب فلسفے کے میدان میں اترا تو گویا اس نے حریف کے گھر میں جا کر اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اسے یہاں وہاں سازگار فضا نہیں مل سکتی تھی جو فلسفے کو میسر تھی۔ یہ فلسفے کے 'ہوم گراؤنڈ‘ میں اسے ہرانے کی ایک کوشش تھی۔ اس کا انجام وہی ہوا جو متوقع تھا۔ اسی انجام نے اہلِ مذہب کو اس تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جسے آج الحادِ جدید کا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔
اس مرحلے پر اہلِ مذہب دو گروہوں مں منقسم ہو گئے۔ ایک تو وہ ہیں جنہیں اس بحث سے زیادہ سروکار نہیں۔ ان کا مخاطب عام آدمی ہے اور وہ اس کے حلقے میں آسودہ ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کا سامنا اس انسان سے ہے جو اُن علوم کا طالب علم ہے جنہیں غیرمذہبی تصورِ حیات نے جنم دیا ہے۔ اس کے سامنے زندگی کی ایک توجیہہ ہے جو مادی ہے اور اس کی بقا میں خدا کا کوئی کردار نہیں۔ اہلِ مذہب کے دوسرے گروہ کا مخاطب یہی انسان ہے اور اسے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ اسے مطمئن کرنے کے قابل نہیں۔ اس صورتحال نے اس طبقے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ جس نے زندگی کی غیرمادی تعبیر کو حق مان کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ مذہب بھی یہی کہہ رہا ہے۔ اس لیے مذہب کو قبول کرنے میں کسی عاقل کو تامُّل نہیں ہونا چاہیے۔ علامہ اقبال کا پہلا خطبہ اس کا ایک مظہر ہے۔ برصغیر میں سر سید اس کا نقشِ اوّل ہیں۔
اس طبقے کا دوسرا حصہ‘ دین کی اُسی تعبیر کو مانتا ہے جو روایتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ آج کے اہلِ مذہب 'الحاد‘ کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ سرسید اور اقبال کو اپنا ترجمان ماننے کے لیے تیار نہیں لیکن اس کے پاس متبادل بھی موجود نہیں۔ یہ طبقہ کبھی تصوف میں پناہ لیتا ہے۔ کبھی روایت اور اسلاف کا قصیدہ پڑھتا ہے‘ کبھی فلسفے کی مروجہ اصطلاحوں میں مذہب کا مقدمہ پیش کرتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا حجرۂ علم‘ الحاد کے خلاف نئی نسل کی پناہ گاہ ہے۔ میرا احساس ہے‘ یہ طبقہ جانتا ہے کہ یہ سیلاب کو تنکوں سے روکنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
میرا طالب علمانہ خیال ہے کہ اس باب میں اہلِ مذہب سے ایک بنیادی غلطی ہوئی۔ انہوں نے فلسفے کے پیراڈائم کو قبول کرکے‘ اپنا مقدمہ ثابت کرنے کوشش کی۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ مذہب کے مقدمے کو خود مذہب کے پیراڈائم میں بیان کرتے۔ مذہب کا پیراڈائم فلسفیانہ نہیں‘ اخلاقی ہے۔ یہ کیا ہے‘ اس کو اصل ماخذ سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی جسے خدا سے براہِ راست نسبت ہے۔ یہ قرآن مجید ہے۔ اہلِ مذہب نے جو مشقت تہافت الفلاسفہ کو ثابت کرنے کیلئے اٹھائی‘ وہ قرآن مجید میں اُتر کر متبادل پیراڈائم کو دریافت کرنے کیلئے اٹھانی چاہیے تھی۔ وہ پیراڈائم جسے انبیا نے عملًا اپنایا اور جس کا محفوظ ترین نمونہ ‘اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سنت اور اسوۂ حسنہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
کہتے ہیں سو سال پہلے سرائے میر کے مدرسہ الاصلاح میں بیٹھے ایک مردِ درویش امام حمید الدین فراہی نے اس کام کی پہلی اینٹ رکھی تھی اور آج بھی کوئی ہے جو اس کی بنیاد پر ایک پوری عمارت کھڑی کر رہا ہے۔ اس میں کسی فلسفے کی آمیزش ہے نہ کسی کے علم اور تہذیب سے مرعوبیت۔ یہی وہ پیرا ڈائم ہے جس نے صدیوں پہلے عرب کے صحرا نشینوں کو‘ جو سلیم الفطرت تھے‘ اس طرح متاثر کیا کہ پھر کوئی شعر اور کوئی فلسفہ انہیں مرعوب نہ کر سکا۔ الحاد کا جواب کل بھی یہی تھا‘ آج بھی یہی ہو گا۔ زمانہ اسی کا منتظر ہے:
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved