’’کیا ہوا؟‘‘ ’’کچھ نہیں ہوا۔‘‘ ’’چار مہینے ہو گئے۔ پھر بھی کچھ نہیں ہوا؟‘‘ ’’کہتے ہیں کہ ہو رہا ہے۔‘‘ ’’کہاں ہو رہا ہے؟‘‘ ’’ہر طرف ہو رہا ہے۔‘‘ ’’بجلی کی سپلائی میں؟‘‘ ’’وہاں تو صرف لوڈشیڈنگ ہے۔ باقی بہت کچھ ہو رہا ہے۔‘‘ ’’مثلاً کہاں؟‘‘ ’’وزیروں کے درمیان۔‘‘ ’’وزیرکیا کر رہے ہیں؟‘‘ ’’وزیراعظم کے آس پاس رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘ ’’وزارتیں نہیں کر رہے؟‘‘ ’’ابھی تک تو ڈیوڑھی والے وزیروں کووزارتوں میں بیٹھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔‘‘ ’’ایسا بھی نہیں۔ کئی ایک تو اپنی وزارت میں مستقل کام کرتے ہیں۔‘‘ ’’مثلاً؟‘‘ ’’مثلاًاحسن اقبال۔ وہ پڑھا لکھا وزیر ہے اور بڑی محنت کر رہا ہے۔‘‘ ’’اس کے ساتھ کیا گزر رہی ہے؟‘‘ ’’جو پڑھے لکھوں کے ساتھ گزرتی ہے۔‘‘ ’’پڑھے لکھوں کے ساتھ کیا گزرتی ہے؟‘‘ ’’جو سید مشاہد حسین کے ساتھ گزر رہی ہے۔‘‘ ’’ان کے ساتھ کیا گزر رہی ہے؟‘‘ ’’لیگولیگی۔‘‘ ’’یہ لیگو لیگی کیا ہے؟‘‘ ’’ایک لیگ سے دوسری لیگ۔‘‘ ’’لیگیں تو بے شمار ہیں۔‘‘ ’’شاہ جی کے عزائم بھی بے شمار ہیں۔‘‘ ’’کیا اتنی لیگیں پائی جاتی ہیں؟ جو شاہ جی کے عزائم پورے کر سکیں۔‘‘ ’’مارکیٹ میں ہر طرف لیگیں ہی لیگیں پڑی ہیں۔میاں صاحبان‘ کبیر واسطی‘ چوہدری صاحبان‘ پیرصاحب پگاڑا‘ غرض ہر لیڈر کے لئے ایک لیگ موجود ہے۔ حتیٰ کہ جن جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ انہیں بھی اپنی ضرورت کی لیگ مل گئی۔ نہیں ملی‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے تیار کر کے انہیںمہیا کر دی گئی۔‘‘ ’’بات کسی اور طرف نکل گئی۔ میں نے تو پوچھا تھا ہوا کیا ہے؟‘‘ ’’اسحق ڈار۔‘‘ ’’یہ بھی کوئی ہونا ہے؟‘‘ ’’آپ کو شاید پتہ ہی نہیں۔ لوگوں کے کاروبار تباہ ہو گئے۔ چولہے ٹھنڈے پڑ گئے۔ گھروں میں پنکھے اور بلب بند ہو گئے۔ آپ کو پھر بھی سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا؟ بھائی جان! پاکستان میں ہر چیز کو اسحق ڈار ہو گئے ہیں۔ جہاں بھی کوئی فرد یا ادارہ تکلیف میں نظر آئے‘ سمجھو اسے اسحق ڈار ہو رہے ہیں۔‘‘ ’’یہ تو زیادتی ہے۔‘‘ ’’اسحق ڈار کوئی بخار ہے جو ہو گئے۔‘‘ ’’بخار کیا چیز ہے؟وہ جس کو ہوتے ہیں‘ بہت تیز ہوتے ہیں۔‘‘ ’’مثلاً وہ کس کو ہوئے؟‘‘ ’’پٹرول کا پتہ ہے‘ اسے کیا ہوا؟‘‘ ’’آپ ہی بتائو؟‘‘ ’’اسحق ڈار۔‘‘ ’’گیس کو کیا ہوا؟‘‘ ’’اسحق ڈار۔‘‘ ’’روپے کو کیا ہوا؟‘‘ ’’اسحق ڈار۔‘‘ ’’چولہے ٹھنڈے کرنے والی مصیبت کا نام کیا ہے؟‘‘ ’’اسحق ڈار۔‘‘ ’’مہنگائی کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ ’’اسحق ڈار۔‘‘ ’’آپ کی باتوں سے تو لگتا ہے کہ موجودہ حکومت میں صرف ایک ہی شخصیت کام کر رہی ہے۔‘‘ ’’کون؟‘‘ ’’اسحق ڈار۔‘‘ ’’آپ ہر کام ان کے ذمے کیوں ڈال رہے ہیں؟‘‘ ’’وہ بھی تو ہر کام دوسروں کے ذمے ڈال رہے ہیں۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ ’’کیا انہوں نے نرگس سیٹھی سے یہ نہیں کہا کہ عالمی مارکیٹ سے کھاد خریدو اور ڈالروں کا بندوبست بھی خود کرو؟‘‘ ’’ڈار صاحب آپ کیوں نہیں خریدتے؟‘‘ ’’ڈار صاحب ‘ اربوں ڈالر کے سودے کرتے ہیں۔ کھاد تو چند ملین ڈالر کی مار ہے۔‘‘ ’’نرگس سیٹھی بھی کھاد خرید لیں گی۔ ڈار صاحب بھی ڈالر لے آئیں گے۔ بلکہ وہ اتنے ڈالر لا رہے ہیں کہ لوگوں نے ان کا نام ہی اسحق ڈالر رکھ دیا ہے۔‘‘ ’’یہ تو ٹھیک ہے۔ مگر ڈالروں کے آنے سے فرق کیا پڑا؟‘‘ ’’فرق کیوں نہیں پڑا؟ کونسی چیز ہے‘ جس کے نرخ نہیں بڑھے؟ کونسی چیز ہے‘ جس کی قلت نہیں ہوئی؟ کونسا خاندان ہے‘ جس میں کوئی نہ کوئی بیروزگار نہیں ہوا؟‘‘ ’’آپ ڈار صاحب کی خوبیاں گنواتے جا رہے ہیں۔ اس حکومت میں اور کوئی نہیں‘ جو کام کر رہا ہو؟‘‘ ’’کیا آپ کو ڈار صاحب کے کام سے تسلی نہیں ہوئی؟‘‘ ’’تسلی کیا؟ تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘ ’’پھر بھی کہتے ہو کوئی دوسرا وزیرکام کرے۔‘‘ ’’کیا کام نہیں کرنا چاہیے؟‘‘ ’’خدا کا شکر کرو صرف ڈار صاحب کام کر رہے ہیں۔ ایک دو وزیر اور شروع ہو گئے‘ تو تمہارا کیا بنے گا کالیا؟ یہ حکومت کچھ نہ ہی کرے تو اچھا ہے۔ اسی میں عوام کی بھلائی ہے۔ ورنہ جو وزیربھی کام کرے گا‘ و ہ عوام کو ‘ ڈار صاحب سے بھی زیادہ اچھے تحفے دے گا۔کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت کام کرے؟‘‘ ’’توبہ توبہ! میری شامت آئی ہے؟ جو میں اس حکومت کو کچھ کرنے کے لئے کہوں۔ یہ خالی ہاتھ بیٹھی رہے تو اچھا ہے۔‘‘ ’’پھر پوچھتے کیوں پھر رہے ہو کہ کیا ہوا؟‘‘ ’’صرف تسلی کی خاطر ۔ تاکہ میں پوچھوں کیا ہوا؟ اور لوگ جواب دیں کچھ نہیںہوا اور جب میں یہ سنتا ہوں کہ کچھ نہیں ہوا‘ تو دل میں ٹھنڈک پڑ جاتی ہے۔‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved