جمعہ کا دن عمران خان اور شاہ محمود قریشی کیلئے یہ اچھی خبر لے کر آیا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے سائفر کیس میں نہ صرف ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی بلکہ اس مقدمے کے دانت بھی یہ کہہ کر نکال دیئے کہ اس میں سیکرٹ ایکٹ کی جو دفعات لگائی گئی ہیں‘ ان کا جواز نظر نہیں آتا۔ یاد رہے کہ ان کے تحت ہی ملزمان کو عمر قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی تھی اور انہی نے اس مقدمے کی نوعیت کو انتہائی سنگین بنا دیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان ہی کی وجہ سے ضمانت کی درخواستیں نامنظور کی تھیں کہ جس جرم میں عمر قید یا موت کی سزا سنائی جا سکے‘ اس کے ملزم کو (بآسانی) آزاد چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اب یہ مقدمہ دو سال کی سزا تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ گویا یہ جتنی بھی تیزی سے چلا لیا جائے نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملزموں کو (زیادہ سے زیادہ ) دو سال کی قید دی جا سکے گی۔ سپریم کورٹ نے اس میں مزید شواہد لانے کو ضروری قرار دیا ہے۔گویا موجودہ حالت میں یہ مقدمہ خان صاحب اور ان کے وائس چیئرمین کا ایک آدھ بال ہی بیکا کر سکتا ہے۔ سر بھی سلامت رہے گا اور بال بھی جوں کے توں رہیں گے۔ مقدمہ درج کرنے والے مگر لرزتے اور کپکپاتے پائے جائیں گے۔ یہ مقدمہ جو ایف آئی اے کی تفتیش کے نتیجے میں بڑی دھوم دھام سے قائم کیا گیا تھا‘ اس کی روح (بلکہ بد روح) اس کے قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ہے۔ خان صاحب پر کئی اور مقدمات بھی درج ہیں اور کئی میں ان کی گرفتاری بھی عمل میں آ چکی ہے‘ اس لئے ضمانت حاصل کرنے کے باوجود (فوری) رہائی ان کے حصے میں نہیں آسکے گی ۔شاہ محمود قریشی کی دختر نیک اختر نے البتہ اعلان کیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی اور مقدمہ نہیں ہے‘ اس لئے وہ رہا ہو کر تحریک انصاف (غیر رجسٹرڈ) کے معاملات سنبھال لیں گے۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ اور قادر ٹرسٹ کیس کا بھی بڑا چرچا ہے‘ مقدمات درج کرنے والوں یا ریفرنس پیش کرنے والوں نے ان کے حوالے سے بھی بڑی توقعات باندھ رکھی ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں تو وہ نااہل بھی قرار پا چکے ہیں‘ یہ معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچے گا تو وہاں لینے کے دینے تو نہیں پڑ جائیں گے‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سپریم کورٹ کے تیور بتا رہے ہیں کہ بات 2018ء سے آگے نکل چکی ہے جس طرح نوازشریف کے خلاف عدالتی کندھا فراہم کیاگیا تھا اس طرح کا اہتمام شاید اب نہ ہو سکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے جو اضافی نوٹ لکھا ہے اور جسے کسی بھی بڑے (اور آزاد) اخبار کے اداریے کے طور پر بھی شائع کیا جا سکتا ہے‘ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ ماضی کا بوجھ اتار پھینکنا چاہتی ہے‘ اس میں اضافہ مطلوب نہیں ہے۔ یہ نوٹ اگرچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قرار نہیں پاتا کہ اس پر دوسرے دو جج صاحبان کے دستخط نہیں ہیں‘ لیکن جو کچھ لکھ دیا گیا‘ اسے بآسانی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایک حاضر سروس جج کا لکھا ہوا ہے‘ کسی ریٹائرڈ کی لن ترانی نہیں۔
تحریک انصاف نے اپنے مخالفوں کے ساتھ جو کچھ کیا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن اب اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے بھی تاریخ سے نکالا نہیں جا سکے گا اور اس کے ہوتے ہوئے اسے اجلایا بھی نہیں جا سکے گا۔ انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے‘ کاغذات نامزدگی داخل ہو رہے ہیں لیکن جگہ جگہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو مشکلات درپیش ہیں ‘کہیں انہیں کاغذات نامزدگی نہیں دیئے جا رہے تو کہیں ان کی وصولی نہیں کی جا رہی۔ جو جیل میں ہیں انہیں قانونی طور پر الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ بھاری تعداد مجرموں کی نہیں ملزموں کی ہے‘ ان پر الزامات ہیں جنہیں ابھی عدالت میں ثابت کیا جانا ہے ‘ ان میں سے جو انتخاب میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں‘ ان کے راستے میں مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فُل بنچ کی توجہ جب اس طرف مبذول کرائی گئی تو وہاں سے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کر دی گئی‘ الیکشن کمیشن نے اپنے ریٹرننگ افسروں کو مراسلہ لکھ دیا‘ لیکن پولیس باز آ رہی ہے نہ قانون نافذ کرنے کے نام پر لاقانونیت پھیلانے والے۔ الیکشن کمیشن پر لازم ہے کہ انتخاب میں حصہ لینے کے خواہش مند ہر فرد کے گردحفاظتی حصارکھینچ دے جو بھی راستے میں آئے اس کا سر اپنے اختیار کے ڈنڈے سے کچل ڈالے۔
سپریم کورٹ سے ضمانتوں کی منظوری کے چند گھنٹوں بعد الیکشن کمیشن کے پانچوں ارکان نے چیف الیکشن کمشنر کے زیر صدارت جمع ہو کر تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کہا گیا کہ یہ تحریک کے اپنے آئین کے مطابق منعقد نہیں کرائے گئے‘ اس لئے بلے کا انتخابی نشان الاٹ نہیں کیاجا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی بیرسٹر گوہر علی خان کی چیئرمینی کو بھی ناقابلِ قبول قرار دے دیا گیا۔ گویا‘ اب تحریک انصاف کسی ایک انتخابی نشان پر انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے گی۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر وہ الیکشن کمیشن کی فہرست سے خارج ہو چکی۔ اس کے ارکان انفرادی طور ہی پر انتخاب لڑ سکیں گے اور ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ نشان حاصل کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف کے متعلقین و متاثرین کیلئے یہ فیصلہ بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ اس کے خلاف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جس طرح کے انتخاب دوسری سیاسی جماعتوں نے کرائے ہیں‘ اسی طرح کی کارروائی تحریک نے ڈالی ہے‘ اس لئے اس کے ساتھ معاندانہ سلوک کیوں؟ اس کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے انتخابات کو کسی شخص نے چیلنج نہیں کیا اس لئے انہیں ''بلا مقابلہ‘‘ سہولت مل گئی ‘جبکہ تحریک انصاف کے انتخابات پر اکبر ایس بابر اور ا ن کے رفقا نے نہ صرف انگلیاں اٹھائیں بلکہ وہ انگشتِ شہادت لے کر کمیشن کے پاس جا پہنچے‘ نتیجتاً کمیشن کو چھان پھٹک کرنا پڑی‘ تحریک کے آئین کی روشنی میں اس کے انتخابات کا جائزہ لے کر نتیجہ نکالنا پڑا۔ اس بات میں وزن ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن نے جب پہلی بار تحریک کے جماعتی انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ سنایا اور اسے بیس روز میں یہ مشق مکمل کرنے کیلئے کہا‘ تو مذکورہ فیصلہ دوماہ سے زائد عرصہ تک محفوظ رکھا گیا تھا‘ اگر یہ فوراً سنا دیا جاتا تو تحریک انصاف کو اپنے انتخابات کے انعقاد کیلئے مناسب وقت دستیاب ہوتا۔ وہ جملہ قانونی موشگافیوں کا مداوا کر سکتی۔ کمیشن کا یہ فیصلہ بھی عدالت میں چیلنج ہوگا‘ گویا گیند پھر سپریم کورٹ میں پہنچے گی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ اس حوالے سے بھی ''صدائے احتجاج‘‘بلند کر چکا ہے‘ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی شنوائی وہاں ہو سکے گی لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر تحریک کو کسی دوسری رجسٹرڈ سیاسی جماعت سے معاملہ کرناہوگا۔ ایسی کسی بھی جماعت کے نشان پر انتخاب لڑا جا سکے گا‘ جس طرح جنرل مشرف کے دور میں پیپلزپارٹی نے پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی چھتری میں پناہ لی تھی ‘اسی طرح تحریک انصاف کو جماعت اسلامی یا کوئی اور جماعت اپنی چھتری فراہم کر سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا نشان تلوار تھا‘ لیکن اسے پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے نشان تیر پرانتخاب میں حصہ لینا پڑا اور پھر یہی اس کی شناخت بن گیا۔تلوار کو اس کے اپنے بھی بھول بھال گئے؎
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved