تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     25-12-2023

شبِ یلدا

شبِ یلدا آئی اور گزر گئی!!
سال کی سب سے لمبی رات جو اکیس دسمبر کو پڑتی ہے‘ فارسی بولنے والی دنیا میں شب یلدا کہلاتی ہے۔ صرف فارسی بولنے والی دنیا ہی میں نہیں‘ اُن ملکوں میں بھی جوایران‘ تاجکستان اور افغانستان کے ارد گرد ہیں اور جہاں فارسی بولنے والے بڑے بڑے علاقے ( پاکٹس ) ہیں جیسے ترکی‘ آزربائیجان اور باقی وسط ایشیائی ریاستیں!
شب یلدا ایک دلچسپ‘ بھرپور اور دلآویز تہوار ہے۔ اس میں ثقافت بھی ہے‘ تاریخ بھی‘ روایت بھی‘ ادب بھی‘ رومان اور فخر بھی! فخر اس لیے کہ یہ صدیوں پرانا تہوار ہے اور تہوار منانے والے اپنے آبا ؤ اجداد کی اس روایت کو ایک شان کے ساتھ‘ ایک سٹائل کے ساتھ‘ برقرار رکھے ہوئے ہیں! انہیں احساس ہے کہ ان کا کلچر ثروت مند ہے‘ تہی دامن نہیں!! پرانے اور نئے فارسی شعرا نے شبِ یلدا پر شعر کہے ہیں! طویل رات کو معشوق کی جدائی سے تشبیہ دی ہے۔ اس طویل رات کے بعد جو دن چڑھتا ہے وہ لمبے دنوں کا آغاز ہوتا ہے! تاریکی بتدریج کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایرانی اسے زمستان کا یعنی سرما کا آغاز قرار دیتے ہیں! سال کی اس طویل ترین رات کو کنبے اور خاندان اکٹھے بیٹھتے ہیں! باتیں کرتے ہیں‘ جب تک کہ صبح کاذب کے آثار ہویدا نہ ہو جائیں! دو سرخ رنگ کے پھل اس رات خاص طور پر اہتمام کے ساتھ کھائے جاتے ہیں! تربوز اور انار! ان کے علاوہ بھی اس رات دسترخوان ماکولات اور مشروبات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں! ہر قسم کے میوے‘ خشک بھی اور تازہ بھی! شربت بھی! متعدد پکوان بھی! شبِ یلدا صرف کھانے پینے کی رات نہیں‘ اس رات دیوانِ حافظ پڑھا اور سنایا جاتا ہے! شاہنامۂ فردوسی اور گلستانِ سعدی کی حکایات سُنی اور سنائی جاتی ہیں! نو بیاہتا جوڑے بھی خوشی مناتے ہیں! سب اپنے اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔ یہ ایک یادگار رات ہوتی ہے!!محبت سے بھری ہوئی! روایت سے جُڑی ہوئی!
اس میں کیا شک ہے کہ ایران اور فارسی بولنے والے دیگر علاقوں کی ثقافت غالب‘ مُحکم اور مُرَتّب ہے! جن لوگوں کی زبان میں مثنویٔ رومی اور دیوانِ شمس تبریز ہو‘ سعدی کے شاہکار ہوں‘ فردوسی کا شہرہ آفاق شاہنامہ ہو‘ اور امیر خسرو‘ نظامی‘ جامی‘ سنائی‘ قا آنی اور صائب جیسے نابغوں اور عبقریوں نے ادب تخلیق کیا ہو‘ ان لوگوں کو اپنی ثقافت اور ادب پر فخر کرنے کا حق بھی پہنچتا ہے! انہوں نے کسی غیر زبان کا سہارا نہیں لیا! ان کا جو کچھ بھی ہے‘ ان کی اپنی زبان میں ہے! کوئی پیوند کاری نہیں کی! کسی احساسِ کہتری میں مبتلا نہیں ہوئے! ہم فیضی‘ بیدل اور اقبال کو سمجھیں یا نہ سمجھیں‘ وہ حافظ‘ فردوسی اور رومی کو سمجھتے ہیں!
شبِ یلدا آئی اور گزر گئی! ایرانی دوسرے دن بیدار ہوئے تو امید اُن کے دروازے پر پھول لیے کھڑی تھی! دن لمبے ہونے شروع ہو گئے! ایک ہم ہیں کہ پون صدی سے شبِ یلدا میں بیٹھے ہیں! گھُپ اندھیرے میں! میوے نہیں! یہاں بھوک رقص کُناں ہے! ہماری تو ساری تاریخ ہی اکیس دسمبر کی رات ہے! کبھی نہ ختم ہونے والی رات! معیشت ہم سے سنبھلتی نہیں! سیاست ہماری در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے! ہمارے ایک ہاتھ میں ایٹم بم ہے‘ دوسرے میں کشکول! تاریخ میں ہم سے بڑا شعبدہ باز کوئی نہیں گزرا! ہزاروں لاکھوں مدارس! مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی ہوئیں! اور فحش مواد دیکھنے میں ہماری پوزیشن امتیازی! بلکہ کچھ روایتوں کی رُو سے پہلی پوزیشن!! دروغ گوئی اور عہد شکنی میں ہمارا ثانی کوئی نہیں! لائبریریوں کا رواج ہی نہیں! پچیس کروڑ کی آبادی میں کتاب ہزار یا پانچ سو کی تعداد میں چھپتی ہے!اس کی فروخت بھی کارے دارد ہے!
کون سا کلچر اور کہاں کی ثقافت ؟ بر صغیر کو ہم نے اپنایا نہیں اور مشرق ِوسطیٰ‘ ایران اور وسط ایشیا سے ہم نکل آئے! ادھر کے رہے نہ اُدھر کے! ہماری تو بنیاد ہی کوئی نہیں! ہم میں اتنا شدید احساسِ کمتری ہے کہ بیساکھی اور بسنت ہی کے دشمن ہیں! اسلام ہمارا اسقدر کمزور ہے کہ پتنگ اڑانے سے‘ فصل کاٹنے کی خوشی میں گیت گانے سے‘ یہاں تک کہ خدا حافظ کہنے سے بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے!! دنیا کہاں جا پہنچی ہے اور ہمارا واعظ ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ خدا کا لفظ استعمال نہ کیا کرو! یعنی پندرہ سو سال کا اسلامی لٹریچر دریا برد کردو!
ہماری شبِ یلدا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی! ہم سے تو یہی طے نہیں ہو رہا کہ زنداں میں کسے ڈالنا ہے اور پنجرے سے باہر کسے نکالنا ہے! چور سپاہی کے کھیل میں کبھی ہم چور کو سپاہی بناتے ہیں کبھی سپاہی کو چور! الیکشن کی آمد آمد ہے! کسی سیاستدان‘ کسی سیاسی پارٹی کی زبان سے معیشت‘ صنعت‘ زراعت‘ تعلیم‘ صحت کے الفاظ نہیں نکل رہے! صرف پارٹیوں کے سربراہوں کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہے ہیں! اور کوالیفیکیشن کیا ہے‘ جس پر فخر کیا جا رہا ہے؟ جیل میں رہنے کی مدت!! جو جتنا زیادہ جیل میں رہا‘ وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہے! کچھ یہ ٹرافی‘ یعنی قید‘ حاصل کر چکے‘ کچھ حاصل کر رہے ہیں! اور سوچ کی پرواز دیکھیے! اپنی بیٹی اور اپنے بیٹے کے علاوہ وزارتِ عظمیٰ کا اہل کوئی نہیں!
انتخابات ہو جائیں گے۔ کسی نہ کسی کی حکومت بھی بن جائے گی۔مگر رات اسی طرح طاری رہے گی! الیکشن کے انتخابات کو تسلیم کرنے کی روایت ہی نہیں! کبھی چار حلقے کھولنے کا مطالبہ! کبھی پینتیس پنکچر کا الزام! کبھی دھاندلی کا رونا! یہ سارے الزامات غلط بھی نہیں ہوتے! ایک دستِ غیب ظاہر ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتا ہے!! پھر احتجاج کی لمبی رات! شاہراہیں جلوسوں سے بھر جاتی ہیں! ماردھاڑ‘ پکڑ دھکڑ!حوالات! جیل! عدالتیں! ضمانتیں! پریس کانفرنسیں! ایک لامتناہی سلسلہ! یہ جو نسل اس وقت بڑی ہو رہی ہے‘ اس نے کیا دیکھا ہے! کیا دیکھ رہی ہے! اسے جمہوریت کا جو تصور دیا جا رہا ہے‘ جمہوریت کی جو تصویر دکھائی جا رہی ہے‘ وہ یہ کیسے بھول سکتی ہے! جنگ و جدل کے درمیان بڑی ہوتی یہ نسل ملک سے بھاگنے کا نہ سوچے تو کیا کرے!! اگر سیاسی رہنما کبھی بھاگ کر دبئی جا بیٹھتے ہیں اور کبھی لندن! تو عوام یہاں کیوں رہیں! سو‘ جس کا بس چلتا ہے‘ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے! ایون فیلڈ نہ سہی‘ سرے محل نہ سہی‘ دبئی کے محلات نہ سہی‘ روزگار تو مل جائے گا! معاشرتی تحفظ تو میسر ہو گا! بیروزگاری بھی ہوئی تو ریاست تو سر پر ہاتھ رکھے گی! سوشل سیکورٹی تو ہو گی! پولیس کا خوف تو نہ ہو گا! کسی مصیبت میں پھنسے تو تھانے تو نہیں جانا پڑے گا! پولیس خود دروازے پر آئے گی! چائے پانی مانگنے کے بجائے آنسو پونچھے گی! سر پر ہاتھ رکھے گی!
جو بھی حکومت آئے گی‘ تھانوں اور کچہریوں پر رات ہی طاری رہے گی! اس ملک پر اصل بادشاہت تھانیدار کی ہے! پٹواری کی ہے! تحصیلدار کی ہے! اے سی کی ہے اور ڈی سی کی ہے! ایس پی کی ہے!! یہ ملازم نہیں‘ یہ پبلک سرونٹ نہیں! یہ حکمران ہیں! اصل حکمران! جن لوگوں کی خدمت کے عوض انہیں بھاری تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں‘ وہ لوگ تو ان سے بات ہی نہیں کر سکتے! ذرا کوئی ڈی سی سے‘ اے سی سے‘ ایس پی سے بات کر کے تو دکھائے! ملاقات کر کے تو دکھائے! ایس پی اور ڈی سی تو آسمان پر ہیں‘ کوئی مائی کا لال پٹواری یا تھانیدار ہی سے مل کر دکھا دے! یہ ملک کئی ریاستوں میں بٹا ہوا ہے۔ کوئی ریاست نادیدہ ہے۔ کوئی بنی گالہ میں ہے۔ کسی کا صدر مقام رائیونڈ ہے کسی کا نواب شاہ! ایک ریاست ڈی آئی خان میں ہے! نسل در نسل بادشاہی!! ہر ایس پی‘ ہر ڈی سی‘ ہر پٹواری‘ ہر تھانیدار کی اپنی ریاست ہے!! رات لمبی ہے! اس میں انار اور تربوز نہیں! دھکے اور مُکّے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved