ہماری ملکی سیاست یوں تو فطرتاً نہایت تیزی کے ساتھ غیر متوقع طور پر کام کرتی ہے اسی لیے ہر عام انتخابات سے پہلے کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے‘لیکن تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود پاور پالیٹکس کا پنڈولم عالمی طاقتوں کی پالیسیوں کے ساتھ حرکت کرتا رہتا ہے۔ اگرچہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد داخلی و خارجی سیاست کے کچھ عوامل نظر نہ آنے والے اُس آسیب کے اثر سے نکل چکے ہیں جو پون صدی سے ہماری تقدیر پہ سایہ فگن رہا تاہم اب بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ایسے ٹولز موجود ہیں جو ہمیں وقفِ اضطراب رکھ سکتے ہیں‘ بالخصوص داعش سمیت علاقائی دہشت گرد تنظیموں کا عسکری کلچر ہمارے لیے سوہانِ روح ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی عوامل بھی اس قدر منظم و مربوط نہیں کہ ہم داخلی خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کے فطری استحقاق کو انجوائے کر سکیں بلکہ ہماری روایتی سنگدلی اور ذہنی لچک کا فقدان سیاسی افراتفری کو ریگولیٹ کرنے کی راہ میں ہمیشہ حائل رہے گا یعنی خود کردہ را علاج نیست کے مصداق ابھی ہم اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔
2013ء میں جن انتشار انگیز رجحانات نے ایک سیاستدان کے ذریعے تشدد کی آبیاری کرکے ہمارے سماج کی روح میں ہنگامے برپا کیے وہی اب بھی سماج کو معمول کے وظائف اپنانے سے روکتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ انتخابات کے دوران لمحہ لمحہ بدلتی فضا کبھی نہ تھمنے والی اس کشمکش کو نئے سلسلہ ہائے عِلل کا محرک بنا دے۔ سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اور فیصل واوڈا کی آصف علی زرداری سے علامتی ملاقات جیسے موہوم عوامل کچھ زیادہ اہم تو نہیں ہیں مگر نظر نہ آنے والے عالمی تانے بانے کسی غیرمعمولی تغیر کا پتہ ضرور دے رہے ہیں۔ نیا سیاسی بندوست کیسا ہو گا؟ اس کا علم تو فی الحال کسی کو نہیں لیکن یہ اہتمام بہرحال جنوبی ایشیا میں عالمی طاقتوں کے اقتصادی مفادات اور تزویری حکمت عملی سے جدا نہیں ہو گا کیونکہ فی الحال ہماری قومی قیادت انہی وظائفِ ذہنی کی تکرار میں مصروف ہے جن کی جگالی 1971ء میں کرتی رہی تھی۔ زمان و مکاں کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ موجودہ سیاسی کشمکش بھی ریاست کے داخلی و سیاسی توازن کو اُسی طرح تہہ و بالا رکھے گی جس طرح نامطلوب کشیدگی نے 70ء کی دہائی میں عوامی احساسات کو اپنی گرفت میں لے کر ہمیں مائل بہ جنگ کیا تھا لیکن کیا کیجئے کہ یہی پیچیدہ سیاسی عوامل پچھلے 50برسوں سے ایک غیرمستحکم قوم کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ہمیں ان ناتراشیدہ اور کمزور سیاستدانوں کا ممنون ہونا چاہیے جنہوں نے اپنی بے اعتدالیوں سے عالمی اور مقامی مقتدرہ کو وقفِ اضطراب رکھا اور ہمیں اپنے منجمد سیاسی اعتقادات پہ شک کرنا سکھایا۔ لاریب یہ بانی پی ٹی آئی کی جارحانہ مزاحمت ہی تھی جس نے طاقت کے داخلی ڈھانچے کو توڑنے کے علاوہ عالمی تعلقات کی نزاکتوں کو متاثر کرکے ایک بار پھر مقتدرہ کو واشنگٹن کی راہ دکھائی جس نے کابل سے انخلا کے بعد امریکیوں کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ خان کے بے سمت زبانی حملوں کے پہلو بہ پہلو دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ بعض مرکز گریز گروہوں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی۔ ہر چند کہ وہ اس صورتحال سے کچھ حاصل نہیں کر پائے لیکن وہ ایک ایسے سیاسی خلفشار کا محرک ضرور بن گئے جس نے مقتدرہ کے علاوہ مخالف سیاسی جماعتوں کو بھی متاثر ضرور کیا ہے؛ چنانچہ اب پھر ریاست کے دونوں گہرے سیاسی ڈھانچوں کے اندر غیرمعمولی تغیرات اس جمود کی ایک نئی آزمائش کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس نے 75برسوں سے ہماری تقدیرکو مٹھی میں لے رکھا تھا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہمیں بھی بھارت کی طرح مشرق و مغرب کے ساتھ متوازن سفارتی تعلقات قائم رکھنے کا حق ملنا چاہیے لیکن ہماری قیادت اس ذہنی لچک سے عاری ہے جو متضاد مفادات کی حامل عالمی طاقتوں کے درمیان اپنے لیے جگہ بنانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو؛ چنانچہ اب امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے ہنگامہ خیز سیاق و سباق میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج ہماری حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ نتیجہ خیز الیکشن میں سے ایک ثابت ہو سکتے ہیں۔ حالات کی انہی نزاکتوں نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے دورۂ امریکہ کی اہمیت کو دوچند کر دیا ہے۔ بظاہر یہ دورہ معمول کے دفاعی امور اور کچھ سٹریٹجک عوامل پہ محمول تھا لیکن ان حالات میں اعلیٰ سطح کی ان سرگرمیوں کو ملک کی داخلی سیاسی صورتحال اور قومی پالیسی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ میسر معلومات کے مطابق گزشتہ ہفتے واشنگٹن کے سینئر حکام کے ساتھ آرمی چیف کی ملاقاتوں کا تسلسل پیچیدہ سفارتی تعلقات کی تشکیلِ نو اور جنوبی ایشیا میں انسدادِ دہشت گردی جیسے اُن دیرینہ مسائل کے گرد محوِ خرام دکھائی دیا جس کا محور افغان طالبان ہیں ‘تاہم پون صدی کی گہرائی رکھنے والے پاک امریکہ تعلقات کی وسعت کو پوری طرح دائرۂ ادراک میں لانا آسان نہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں انسدادِ دہشت گردی اور دفاعی تعاون کو باہمی دلچسپی کے مرکزی شعبوں کے طور پر اجاگر کیا گیا۔ فریقین نے بات چیت جاری رکھنے اور باہمی مفادات کے دائرہ کار کو بڑھانے پہ اتفاق کیا۔
اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو 1971ء میں بنگلہ دیش کی پُرتشدد علیحدگی کے بعد پاکستان میں مطلق العنان آمریتیں اور بے اختیار سویلین حکومتیں جگمگاتی نظر آتی ہیں۔ عام طور پہ ان ادوار کو بھٹو اور شریف خاندانوں کی باہم جڑی ہوئی سوقیانہ حکومتوں کی خصوصیت دے کر مسلسل مطعون رکھا گیا۔ انہی دو سیاسی جماعتوں‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بالترتیب ادوار کے ذریعے ملک میں سویلین گورننس کا علامتی تصور پیدا کیا گیا‘ تاہم سویلین کنٹرول کے ان درمیانی ادوار کے دوران بھی مقتدرہ نے ملکی سیاست اور قومی پالیسی پر مضبوط اثر و رسوخ قائم رکھا۔ مقبول سیاسی جماعتوں کو دانستہ ان علاقائی شگافوں کے اندر مقید رکھا گیا جنہیں نسلی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ علاقائی سیاسی جماعتوں سے قطع نظر ملک گیر جماعتیں بھی اُنہی دائروں میں محوِ خرام نظر آئیں۔ مثال کے طور پر سندھی عصبیت کے ساتھ سندھ پی پی پی کی حمایت کا تاریخی مرکز رہا جبکہ پنجاب میں عام طور پر (ن) لیگ کی حمایت بڑھی۔ پنجاب ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہونے کی وجہ سے اقتدار کی سیاست کا مرکز رہا کیونکہ یہاں سے اکثریتی ووٹ حاصل کرکے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں‘ تاہم اب پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ جیسی ملک گیر جماعتوں کے دائرہ عمل کو پورے ملک پہ محیط رکھنے کی خاطر بلوچستان سمیت تمام صوبوں کے ان الیکٹیبلز کو ان جماعتوں سے منسلک کرنے کی راہیں ہموار بنائی جا رہی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں ملک گیرسیاسی جماعتوں کو ری آرگنائز کرنے کی پالیسی اُن علاقائی اور مذہبی گروہوں کو مستقبل میں سیاسی عمل سے آؤٹ کر سکتی ہے جنہیں وقت کی سرکش لہریں بتدریج کمزور کر رہی ہیں۔ حالانکہ کے ماضی میں پرویز مشرف کے دور میں ستم اٹھانے کے بعد متذکرہ بالا دونوں جماعتوں کی قیادت نے ادنیٰ سیاسی عداوتوں سے اوپر اُٹھ کر وسیع قومی تناظر میں کردار ادا کرنے کی خاطر 2005ء میں میثاقِ جمہوریت پہ دستخط کرکے سویلین بالادستی کے خواب کی تعبیر تلاش کرنے کی ٹھانی تو عمران خان کی تحریک انصاف کے ذریعے سیاسی جمود قائم رکھنے کی حکمت عملی تیار کرکے نئے میلینیم کی ابتدائی دو دہائیوں میں پی ٹی آئی کو قابلِ ذکر سیاسی قوت کے طور پہ کھڑا کردیا گیا اور افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے محرکِ اول صدر اوباما نے 2012ء میں طالبان سے بات چیت کیلئے جب دوحہ میں اماراتِ اسلامی کا دفتر قائم کرایا تو اس وقت انہیں پاکستان میں دائیں بازو کی ایک ایسی نیم سیکولر جماعت کی حمایت درکار تھی جو قوم کی اینٹی امریکہ نفسیات کو ایکسپلائٹ کر سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved