تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-10-2013

خیالی پلائو

جنر ل ہی کو بات کیوں کرنا پڑتی ہے ؟ کیا اللہ کے آخری رسولؐ کا وہ فرمان ہمارے سیاسی لیڈروں نے سنا نہیں کہ جان بوجھ کر سچ چھپانے والا گونگا شیطان ہوتاہے ؟ بعض لوگوں کی عقل ، ان کے علم سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایسے ہی کچھ امریکی پاکستانیوںنے ایک امریکی تھنک ٹینک سے مل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قیامِ امن کا منصوبہ بنایا ہے ۔ دو نکات پر بنیادہے ۔ اوّل یہ کہ ہر وہ مالی ترغیب دے دی جائے، جو دی جا سکتی ہے۔ ثانیاً علاقے کا اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے۔ تجویز کردہ مراعات حیران کن ہیں ۔ مثلاً تمام قبائلی ایجنسیوں میں بجلی اورگیس کی مفت فراہمی ، مفت حج اور عمرہ ، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں 30سے 50فیصد رعایت، تمام کے تمام 70لاکھ قبائلیوں کے لیے۔ بے روزگاروں کو 15ہزار روپے ماہوار وظیفہ۔ فوج واپس بلا لی جائے اور قبائل کو عمائدین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ صدیوں سے چلے آتے قبائلی ملکوں میں سے اکثر قتل کیے جا چکے یا ہجرت کر گئے ۔ عمائدین سے مراد اب طالبان لیڈر ہیں ۔ اپنے فیصلے وہ قبائلی روایات ، رواج اور شریعت کے مطابق کریں گے ۔ حدود اربعہ کا تعین وہ خود کریں گے ۔ مثال کے طور پر بینک ہرگز نہ ہوں گے کہ قدیم قبائلی دور میں نہیں تھے۔ حیرت ہے کہ سامنے کی ایک شرط کیوں نہ سُوجھی، جو شریعتِ مطہرہ کے عین مطابق ہے۔ ان میں سے ہر بالغ مرد کی چار چار شادیاں کرادی جائیں گی ۔ خواتین اگر کم پڑیں تو ریاست ان کی درآمدکا بندوبست کرے ۔ وقائع نگار نے لکھا ہے کہ ایسا معاہدہ اگر ہو سکا تو اس پر اربوں روپے خرچ ہوں گے ۔ امن مگر بحال ہو جائے گا ۔ آخر میں خود حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کیا یہ نری خوش فہمی نہیں؟ جی ہاں مگر خیالی پلائو پکانا ہو تو گھی اور گوشت زیادہ ڈالنا چاہیے۔ موضوعات دوسرے تھے مسائل اور تھے‘ پر دل کا جانا عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے اخبار اور ٹی وی کمال کی چیز ہے ۔ ایسا ایسا شوشا کہ زخموں کا خیال تک نہ رہے ، آدمی تماشے میں لگ جائے۔ اصل موضوع بجلی کے نرخ ہیں۔ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کو ، مبینہ طور پر جن کی ساری دولت دبئی میں پڑی ہے ، آئی ایم ایف سے وعدے نبھانے ہیں ۔ رہے پاکستانی عوام تو ان کا کام ووٹ ڈالنا ہے ، پالیسیوں کی تشکیل سے ان کا کیا تعلق؟ پیپلز پارٹی تو خیراب پارٹی ہی نہیں ، زرداری اینڈ کمپنی ہے۔ تحریکِ انصاف اغوا ہو چکی ۔ ٹکٹیں بیچنے والے دندنا رہے ہیں ۔ خان صاحب ایک ایک مجرم کو جانتے ہیں مگر وہ میچ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ شخص، جس نے کہا تھا کہ میچ فکس کرنے پر پوری پاکستانی ٹیم نکال کر نئی بنا لینی چاہیے، خود کو اب فریب دیتا ہے کہ صوبہ سرحد میں پٹوار اور پولیس کی اصلاح سے نیک نامی کما لی جائے گی ۔ اگر وہ مستعفی ہو جاتا تو سبھی کو استعفے دینا پڑتے ۔ صاف ستھرے نئے الیکشن ہو سکتے۔ ظاہر ہے کہ چیئرمین پھر بھی خان صاحب ہی چنے جاتے۔ برصغیر میں پارٹیاں نہیں ، لیڈر ہوا کرتے ہیں ۔ آخری ملاقات میں سیف اللہ نیازی کو میں نے مشورہ دیا تھا کہ تحریکِ انصاف کے صدر دفتر میں غیبت اور خوشامد کا وقت مقرر کر دیا جائے۔ غیبت : صبح 9سے ساڑھے 9بجے تک ۔ خوشامد: صبح ساڑھے نو سے دس بجے تک۔ شب آٹھ بجے غیبت کی مجلس پھر سے آراستہ کی جائے اور پھر آدھ گھنٹہ خوشامد۔ اس طرح دس گھنٹے روزانہ کام کے لیے بچ رہیں گے ۔ میری بات کو مذاق سمجھ کر ٹال دیا گیا۔ عمل کیا جاتا تو ضمنی الیکشن میں پارٹی گل بادشاہ قسم کی مخلوق سے بچ جاتی۔ موضوع ملالہ ہے۔ اب اس کے چہرے پر معصومیت سے زیادہ چالاکی ہے ۔ دعویٰ یہ ہے کہ عالمی امن کے لیے اس نے تاریخ ساز قربانی دی۔ کون سی قربانی؟ درندوں نے اس پر حملہ کیا ۔ معصوم بچی سے پوری قوم کو ہمدردی تھی اور اب بھی ہے مگر وہ کیا کوئی مفکر اور فلسفی ہے ؟ کوئی لیڈر کہ قوم کی رہنمائی کرے ؟ عالمی اسٹیبلشمنٹ اسے اچک لے گئی کہ بیچاری غیر محفوظ تھی ۔ اب اس نے ایک کتاب لکھی ہے اور تین ملین ڈالر معاوضہ پایا ۔ کیا یہ کتاب اس نے خود لکھی ؟ جی نہیں۔ شاطر کرسٹینا لیمب نے۔ پاکستان کے روز مرہ اور محاورے سے وہ واقف ہے اور اس مکھی جیسی جو ہمیشہ زخم یا گندگی پر ہی بیٹھتی ہے۔ شہد کی مکھی وہ نہیں ہے۔ تین ملین ڈالر تو صرف دو پاکستانیوں کو مل سکتے تھے ۔ ایک عمران خاں اور دوسرے جنرل کیانی۔ کپتان اپنے کارناموں سے ممتاز ہوا۔ اپنی کہانی وہ لکھ چکا ۔ ایک کتاب ناکام ہونے کے بعد بھی لکھ سکتا ہے ، جو اظہر من الشمس ہے ۔ ہار یا جیت ، میچ کے بعد اپنی غلطیاں وہ ایک رجسٹر پر لکھ لیا کرتا تھا ۔ اب تین ماہ بعد اعتراف کرتا ہے اور فوراًایک نئی حماقت کی منصوبہ بندی ۔اتنی سی بات کوئی اسے بتانے والا نہیں کہ ایک ہفتہ اسے کراچی میں گزارنا چاہیے کہ ایم کیو ایم کی عمر پوری ہو گئی۔ ایک ہفتہ آزادکشمیر کے تین چار بڑے شہروں میں کہ کشمیری عوام پیپلز پارٹی اور نون لیگ، دونوں سے بیزار ہیں ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی تین سے دس ملین ڈالر مل سکتے ہیں۔ اتنی معلومات ان کے پاس ہیں کہ مشکل سے سات آٹھ سو صفحات میں سمٹیں گی۔ مجھ سے کہا: تمہاری یادداشت بہت اچھی ہے ۔ خاک اچھی ہے ۔ جنرل کا حافظہ مجھ سے تین گنا بہتر ہے ۔ ایک دن بتایا کہ دو گھنٹے کا لیکچر دینا ہو تو دس منٹ میں نوٹس بنا لیتا ہوں ، فقط ذہن میں ترتیب دے کر ۔ کہا : لکھنے کی مشق نہیں ہے ۔ عرض کیا: صدر اوباما کو چودہ صفحے کا وہ خط کس نے لکھا تھا، اندازہ ہے کہ جو تاریخ کا حصہ بنے گا۔ عام تاثر کے برعکس جنرل کی حسّ مزاح بہت اچھی ہے۔ قہقہہ وہ نہیں لگاتے کہ عہدِ قدیم کے بعض شرفا کا سا مزاج رکھتے ہیں ۔اس سے زیادہ یہ کہ زندگی نے انہیں ہنسنے کا کبھی موقعہ ہی نہ دیا۔ ہوش سنبھالا تو زمانہ ایک بھوکے بھیڑیے کی طرح ان پہ پل پڑا۔ جوانی میں والد وفات پا گئے اور بھائیوں کو باپ بن کر پالنا پڑا۔ کسی کی دعا تھی کہ بچ نکلے ۔ ممکن ہے کہ والدہ محترمہ کا اثر ہو ۔ ممکن ہے کہ خاندان ، بزرگوں یا اساتذہ کرام کا۔ قبولیتِ دعا کا در کھلتا ہے تو کچھ بھی رونما ہو سکتاہے ۔ خاندان کا مزاج بھی ایک چیز ہوتاہے اور ماحول بھی ۔ ایک بھائی کے سوا ،کبھی کسی کو کھل کر ہنستے نہ دیکھا؛حتیٰ کہ جنرل کا تیس سالہ فرزند سروش کیانی باپ سے بھی زیادہ سنجیدہ ہے۔ اتفاق سے ملاقات ہو گئی تو میں نے کہا : اللہ کے بندے ، ایسی بھی کیا متانت مگر ہنستا کیا، مسکرایا تک نہیں۔ بس یہ کہا: فلاں موضوع پر آپ کی رائے کیا یہ ہے؟ ’’ہاں‘‘ میں نے کہا: فلاں آدمی خانہ خراب ہے ، اس کے سائے سے بھی بچنا چاہیے۔ کیسی کہانی ہے ؟ تاریخ کے دوام میں زندہ رہ سکتی ہے ، اگر انگلستان کے کسی قصبے میں ، آتشدان کے سامنے بیٹھ کر کسی ہنر مند کو نوٹس لکھوائیں ۔لکھ لی جائے تو اس کڑی نظر سے دیکھیں ، جو ان کا شعار ہے ۔ جنرل بڑا ہی ذمہ دار ، بے حد حساس اور ضرورت سے بھی بہت زیاہ محتاط ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس کی فکر میں جو ارتقا ہوا، میں بھی اس کا ایک چھوٹا سا گواہ ہوں ۔ جس دن سبکدوش ہوئے، ’’دنیا‘‘ کے قارئین کے لیے انشاء اللہ ایک پورا صفحہ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ (میجر عامر اب ہنسیں گے : تمہارے وعدے اگر پورے ہوتے تو پونے دو سو کتب لکھ چکے ہوتے )۔ اب ایک سوال ہے ، دفترِ خارجہ سے ، میاں محمد نواز شریف، جناب آصف علی زرداری اور خان ِ اعظم عمران خان ، سبھی سے۔ بھارتی جنرل، سیاستدان اور میڈیا جب گالی دیتے اور اذیت پہنچاتے ہیں تو وہ بولتے کیوں نہیں ؟ جنر ل ہی کو بات کیوں کرنا پڑتی ہے ؟ کیا اللہ کے آخری رسولؐ کا وہ فرمان ہمارے سیاسی لیڈروں نے سنا ہے کہ جان بوجھ کر سچ چھپانے والا گونگا شیطان ہوتاہے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved