تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     25-12-2023

فراریوں کی قومی دھارے میں شمولیت ایک بڑی کامیابی

گزشتہ دنوں کالعدم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے ایک کمانڈر سمیت 70 فراریوں نے قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان کیا۔ بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کالعدم بی این اے کے سابق کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی نے کہا کہ میں بلوچستان میں محکمۂ خوراک میں ملازم رہا، میرے پاس گھر، گاڑی سمیت سب کچھ تھا لیکن 2009ء میں چند لوگوں کے بہکاوے میں آگیا۔ سابق بی این اے کمانڈر نے بتایا کہ میں نے قومیت کے نام پر بہت سی کارروائیاں کیں لیکن جب میں نے نام نہاد لیڈروں کو عیش کرتے دیکھا تو مجھے پتا چل گیا کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں۔ سرفراز بنگلزئی نے کہا کہ میں بلوچوں سے اپیل کروں گا کہ خود کو اس تحریک سے الگ کریں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ غلط فہمیاں اور دوریاں ختم ہونی چاہئیں، ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم اور آرمی چیف نے اس معاملے پر دن رات کام کیا ہے، گلزار امام شنبے نے ان مذاکرات کا راستہ ہموار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کا سب سے بڑا ہدف بلوچستان ہے۔
چند ماہ قبل بلوچستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے سربراہ گلزار امام شنبے کی گرفتاری ہماری خفیہ ایجنسیوں کا تاریخ ساز کارنامہ اور ادارہ جاتی پروفیشنل ازم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کا تمام تر سہرا آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل‘ جنرل ندیم انجم کے سر جاتا ہے۔ انتہائی مطلوب دہشت گرد گلزار امام شنبے کو ٹھوس منصوبہ بندی اور مربوط آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے گرفتار ی کے بعد سکیورٹی اداروں سے تعاون کا یقین دلایا تھا اور علیحدگی پسند تنظیموں کو ملکی امن و سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہر محب وطن پاکستانی کا فخر ہے۔ یہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں امن و سلامتی اور استحکام پاکستان کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ پاک افواج کے جانباز ملکی سرحدوں کے ساتھ ملک کے اندر بھی نگہبانی کے فرائض نبھانے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کی لازوال قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں انسدادِ تخریب کاری سے لے کر دہشت گرد وں کے گرد شکنجہ کسنے تک میں آئی ایس آئی کا اہم کردار رہا ہے۔ رواں سال مئی میں گلزار امام شنبے کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ شنبے بلوچستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھا اور اس کے کئی غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے بھی روابط تھے۔ ا س ہائی پروفائل گرفتاری سے ملک دشمن خفیہ ایجنسیوں بالخصوص بھارت کے مذموم عزائم خاک میں مل گئے۔ گلزار کی گرفتاری سے دوسرے عسکریت پسندوں کو بھی یہ پیغام ملا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز ان کے تعاقب میں ہیں اور وہ زیادہ عرصہ تک ان کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ اس گرفتاری سے یہ بھی پیغام ملا کہ مسلح جدو جہد کہیں بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی سرپرستی میں اپنے ہی ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو ہر جگہ ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑا۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز ماضی کاقصہ بن چکے ہیں، آئرش ریپبلکن آرمی کا انجام بھی ایسا ہوا۔ یقینا دہشت گرد جان چکے ہیں کہ محض بندوق اٹھانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ بلوچوں کی محرومی کا نعرہ غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بلوچستان کے معاملے میں ہماری قو می و سیاسی قیادت اور ریاست سے کچھ کمیاں‘ کوتاہیاں ضرور ہوئیں مگر متعلقہ ادارے ان کا ازالہ کرنے میں مسلسل کوشاں ہیں۔70 فراریوں کا ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان اس ضمن میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ان میں بیشتر افراد کا تعلق کالعدم بی این اے کے ساتھ تھا اور گلزار امام شنبے نے ان مذاکرات کا راستہ ہموار کیا۔ کالعدم بی این اے بلوچستان میں غیر مقامی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ، زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی سمیت سرکاری اور نجی عمارات کی توڑ پھوڑ جیسی کارروئیوں میں ملوث تھی۔ ان مذموم سر گرمیوں کے لیے بی این اے، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بھارتی سرپرستی کے علاوہ بھاری فنڈنگ بھی میسر ہے۔ بلوچستان میں نہ صرف تعمیر و ترقی کے منصوبوں بالخصوص سی پیک کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے بلکہ آرمی کے خلاف پروپیگنڈا بھی مہم چلائی جا رہی ہے۔ حا لانکہ حقیقت یہ ہے کہ عساکرِ پاکستان بلوچستان سمیت مادرِ وطن کی سالمیت کے لیے اپنی جانیں تک نچھاور کر رہی ہیں۔
عالمی دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں بی ایل اے پانچویں اور بی ایل ایف سترہویں نمبر پر ہے۔ بھارت اور ان تنظیموں کا پاکستانی سالمیت کے خلاف گٹھ جوڑ ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے ڈوئیزر بھی پیش کر چکا ہے کہ کس طرح ہمارا دشمن لاہور، کراچی و بلوچستان میں اپنی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی 'را‘ کے ذریعے تخریب کاری کا ارتکاب کر رہا ہے۔ بالخصوص بلوچستان کو اس نے اپنی ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری بھارتی مداخلت کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ ہماری فوج اور قابلِ فخر ایجنسیوں کی کامیاب کارروائیوں کے سبب اب غیر ملکی ایجنٹوں کا قلع قمع ہوتا جا رہا ہے۔ گلزار امام شنبے کے بعد سرفراز بنگلزئی بھی ہتھیار ڈال چکا ہے۔ شنبے پنجگور ضلع کا رہائشی ہے، دہشت گردوں کے ساتھ ملنے سے قبل وہ ایک مقامی اخبار میں کام کرتا رہا۔ 2018ء تک یہ بی آر اے میں براہمدغ بگٹی کا نائب رہا اور گزشتہ سال اپنی الگ تنظیم بنانے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ 20جنوری 2022ء کو انارکلی‘ لاہور میں ہونے والے دھماکے میں یہی گروپ ملوث تھا۔ علاوہ ازیں تربت میں ایف سی کے قافلے پر بھی اس نے حملہ کیااور متعدد بار سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ شنبے نے 2002ء میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی اور زمانۂ طالب علمی میں BLF کا سربراہ بھی رہا۔ اس کا بلوچ راجی آ جوئی سنگر (براس) کی تشکیل میں بھی اہم کردار رہا۔ 2017ء میں گل نوید کے نام سے اس نے افغان پاسپورٹ پر بھارت کا دورہ بھی کیا۔ شنبے کی گرفتاری کے بعد سرفراز بنگلزئی BNA کا سربراہ بنا۔ یہ مستونگ، کوئٹہ اور تربت میں دہشت گردی کرتا رہا۔ بنگلزئی میٹرک کے بعد محکمۂ خوراک میں گارڈ بھرتی ہوا تھا۔ 1994ء میں اسی محکمے میں جونیئر کلرک بن گیا اور 2007ء میں بلوچستان کلرک ایسوسی ایشن کا صدر بنا۔ 2009ء میں وہ سرکاری نوکری چھوڑ کر شدت پسندوں کے ساتھ جا ملا اور بھارتی ایجنسیوں کی فنڈنگ اور شہہ پر بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں کرنے لگا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے مسنگ پرسنز کے نام پر ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے۔ اگرچہ گمشدہ افراد کا مسئلہ ایک حقیقی مسئلہ ہے اور یکم مارچ 2011ء کو اس حوالے سے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا تھا جو اب بھی اپنا کام کر رہا ہے۔ اس کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 10014 ہے جبکہ فیصلہ شدہ کیسز کی تعداد 7749 ہے۔ 2265 ایسے کیس ہیں جو اس وقت حل طلب ہیں۔ دوسری جانب اس حقیقت کو بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ مسنگ پرسنز میں شامل بہت سے افراد پہاڑوں پر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ بالاچ مولابخش جس سے 500 گرام دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا‘ سکیورٹی فورسز پرہوئے 11 حملوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے تربت میں مزدوروں کے قتل کا بھی اعتراف کیاتھا۔ اس کی ہلاکت کی آڑ میں ایک نئی پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے۔ محکمہ داخلہ بلوچستان نے اس واقعے کی تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن قائم کر دیا ہے اور 26 دسمبر کو اسکا اجلاس بلایا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جو دھرنا دیا گیا‘ اس کو ماہ رنگ بلوچ نے لیڈ کیا جو ڈسٹرکٹ چاغی میں میڈیکل افسر ہے یعنی وہ خود سرکاری مراعات لے رہی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ یہ حقائق کبھی نہیں بتائے گی کہ اس کے والد عبدالغفار لانگو بلوچ کا بی ایل اے، بی ایس ایف اور بی ایس او جیسی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رہا جن کو اقوام متحدہ نے بھی دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی ''یکجہتی کمیٹی‘‘ کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں ہلاکت کے بعد بنائی گئی تھی۔ کریمہ خود بھی بی ایس او کی فعال رکن تھی اور انڈین پے رول پر کام کر رہی تھی۔ اسی طرح سمی دین ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہے‘ وہی ڈاکٹر دین محمد جو ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جیسے مسلمہ دہشت گرد کا ساتھی تھا اور جسے اقوام متحدہ نے بھی دہشت گرد ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ بلوچ روایات کے برعکس خواتین کو سامنے رکھنااور دہشت گردی میں استعمال کرنا اس سارے معاملے کا دوسرا پہلو ہے۔ کراچی میں چینی سفارتخانے کے حملے میں ایک خاتون ہی کو استعمال کیا گیا تھا۔ حیرت ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر بلوچ افراد کو بلوچستان سے نکالا گیا، ہزار وں قتل ہوئے، ہر روز غریب مزدوروں سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مارا جا رہا ہے مگر ان کی کوئی بات نہیں کی جاتی جن کوتعصب کی بنیاد پر بسوں سے اتار کر ہلاک کیا جاتا ہے۔ غیر بلوچوں کی نسل کشی پر کوئی کمیشن کیوں نہیں بنتا؟
بلوچوں کے نام پر ہوئے مارچ کے پس پردہ مقاصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ ریاست کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ ریاست نے مسلسل ان لوگوں کو معاف کیا جو ہر دس سال بعد پہاڑ پہ چڑھ جاتے اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ حال ہی میں شنبے اور سرفراز بنگلزئی کو دیگر 70 ساتھیوں سمیت عام معافی ملی ہے۔ ریاست واقعی ماں ہوتی ہے‘ جس نے ان کومعاف کر تے ہوئے اپنی اصلاح کا موقع فراہم کیا۔ ان کیلئے دہشت گرد نہیں بلکہ ناراض بلوچ کی اصطلاح استعمال کی۔ بلاشبہ بلوچ بہت محب وطن ہیں۔ یہ بلوچ ہی تھے جنہوں نے بانیٔ پاکستان کو سونے میں تول دیا تھا۔ اس وقت بلوچستان سی پیک کے منصوبوں سے مستفید ہو رہا ہے۔ آرمی اور بحریہ نے بلوچ نوجوانوں کے علم و ہنر کے لیے متعدد سٹیٹ آف دی آرٹ ادارے قائم کیے ہیں جہاں نوجوانوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔
کرنل Ralph Peters نے 2006ء میں امریکی ڈیفنس جرنل‘ جو دنیا کا سب سے بڑا دفاعی میگزین ہے‘ میں Borders Blood کے عنوان سے خطے کا ایک نیا نقشہ پیش کیا تھا۔ یہی استعماری قوتوں کا اصل ایجنڈا ہے۔ کیا کرنل پیٹر کا مذموم منصوبہ ختم ہو گیا ہے؟ عسکری و حکومتی قیادت کی کوششوں کے نتیجے میں بلوچستان دوبارہ ترقی کے سفر کی جانب گامزن ہو چکا ہے اور سی پیک کا منصوبہ اس میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے؛ تاہم اس منصوبے کو پوری طرح آپریشنل کرنے کیلئے بلوچستان سمیت پورے خطے میں امن و سلامتی کی ساز گار فضا کا پیدا ہونا بہت ضروری ہے۔ علیحدگی پسند تنظیم کے بانی اور کمانڈر کا اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور قومی دھارے میں شامل ہونے کی یقین دہانی کرانا ملکی امن واستحکام کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved