فروری 1965ء کو لاہور میں ایفرو ایشیائی مجلس مذاکرہ کے مندوبینوں کے لیے ایک ڈنر اور ثقافتی شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس شو کے منتظمین مشہور فلمی اداکارہ نیلو کے پاس پہنچے اور ثقافتی شو میں رقص کرنے کی دعوت دی۔ جب اداکارہ نے اس تقریب میں شرکت سے انکار کرنا چاہا تو کچھ حکومتی اہلکاروں کی جانب سے اداکارہ کو سنگین دھمکیاں دی گئیں اور خوب بے عزت کیا گیا۔ اس بے عزتی کا الٹا اثر ہوا اور اداکارہ نے کافی مقدار میں خواب آور گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ بے ہوشی کے عالم میں اداکارہ کو ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے کئی دن کی محنت کے بعد اس کی جان بچا لی۔ البتہ اس واقعے پر فلمی دنیا میں بڑا شدید ردعمل سامنے آیا۔ فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن اور فلم سٹار ایسوسی ایشن نے ہڑتال کی جبکہ عوامی شاعر حبیب جالب نے اسی واقعے سے متاثر ہو کر معرکہ آرا نظم ''نیلو‘‘ لکھی۔ اس نظم کو بعد ازاں فلم ''زرقا‘‘ میں نیلو ہی پر فلمایا گیا۔ اس نظم کا پہلا بند تھا:
تُو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی تو کیونکر
سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے؟
ریاض شاہد مرحوم کی یہ فلم‘ جسے نجانے سنسر کے کتنے مراحل طے کرنا پڑے کتنی جگہ کانٹ چھانٹ کے بعد سینما گھروں کی زینت بننے کی اجازت دی گئی تھی‘ جب ریلیز ہوئی تو ایک ہجوم تھا جو چاروں جانب سے سینما گھروں کی جانب امڈ آتا تھا۔ ہر طبقے کے لوگ سینما گھروں کے باہر کئی کئی گھنٹے تک قطاریں بنا کر ٹکٹ کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے۔ یہ فلم اور اس کے لیے کھڑکی توڑ رش کے مناظر آج بھی یادوں کی سکرین پر تازہ ہیں؛ البتہ کم عمری کی وجہ سے اس فلم کا کلائمیکس اختیار کر جانے والا زنجیر پہن کر کیا جانے والا رقص دیکھ کر مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ رقص ہی کیا جس میں ہاتھ پیر کھلے نہ ہوں، جس میں رقاصہ کو اپنی ادائیں دکھانے کی آزادی اور ماحول میسر نہ ہو۔ تب سمجھ نہیں آتی تھی کہ آزادی کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ پابجولاں ہو کر ہی رقص کیا جائے؟
سوشل میڈیا پر الیکشن کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کے دوران پیش آئے مختلف واقعات کی وڈیوز دیکھنے کے بعد پابہ زنجیر رقص کی یہ کہانی یاد آ گئی۔ ایک وڈیو میں دیکھا‘ ایک امیدوار کی آنکھوں پر زخم تھے، پہلی نظر دیکھنے پر ایسے لگا شاید دھینگا مشتی یا آر او آفس کے باہر سیاسی پارٹیوں کے آمنے سامنے آ جانے پر یہ حال ہوا مگر تفصیلات جان کر سخت حیرانی بلکہ پشیمانی ہوئی۔ ابھی اس پر افسوس کر ہی رہا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کی اہلیہ اور چودھری شجاعت حسین کی ہمشیرہ کی میڈیا سے کی گئی گفتگو سننے کو مل گئی جس نے ہلا کر رکھ دیا۔ وہ بتا رہی تھیں کس طرح ان پر تشدد کیا گیا اور ان کا لباس کھینچا گیا۔ ایک دوسری وڈیو میں ایک شخص سب کے سامنے ان سے کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کی کوشش کرتا اور انہیں دھکے دیتا نظر آ رہا تھا۔ شیخ امتیاز کی اہلیہ کا بیان سن کر تو سکتے میں آ گیا۔ سسکیاں لے کر روتے ہوئے انہوں نے جو داستان سنائی‘ اسے سن کر سر شرم سے جھک گیا۔ مشہور قانون دان سلمان اکرم راجا نے انہیں دلاسا دیا اور آخری روز ان کے ساتھ جا کر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے۔ ایک عجیب تماشا لاہور میں یہ دیکھنے میں آیا کہ ہائیکورٹ کے احکامات کے باوجود سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے کاغذات جمع کرانے والے ان کے وکلا کے آر او آفس جانے میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ اس پر آر او صاحب خود اٹھ کر آفس سے باہر آ گئے اور وکلا کو اپنے ساتھ لے کر اندر گئے۔ اس دوران وکلا کو روکنے کی بھرپور کوشش جاری رہی۔
کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کے یہ تمام الزامات اور واقعات شاید سیاسی الزام بن کر رہ جاتے مگر الیکشن کمشنر پنجاب نے ان الزامات کو تسلیم کرتے ہوئے آئی جی پنجاب سے فون پر رابطہ کیا اور انہیں باور کرایا کہ ریٹرننگ افسران کے کام میں مداخلت قبول نہیں ہے‘ شفاف الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنا الیکشن کے انعقاد کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر نے واضح کیا کہ اگر پولیس یا انتظامیہ نے کسی امیدوار کو روکا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی، شفاف انتخابات میں کسی رکاوٹ کو برادشت نہیں کریں گے۔ آئی جی پنجاب نے صوبائی الیکشن کمشنر کو تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے تمام آر پی آوز کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اس ساری مشق کا نتیجہ اگلے چند روز میں سامنے آ جائے گا جبکہ اس حوالے سے ہائیکورٹس میں جو متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں اور منگل سے جن پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو گا‘ اس دوران بھی بہت سے حقائق سامنے آ جائیں گے۔
ممکن ہے کہ کسی ملک یا ریاست میں عام انتخابات کے دوران کسی کو اس قسم کے مناظر یا حالات دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو لیکن ہماری نظروں سے اس قسم کا انتخابی عمل آج تک نہیں گزرا۔ ملک کے پہلے عام انتخابات سے لے کر اگلے عام انتخابات کے مراحل تک‘ ملک کی ساری سیاسی تاریخ نظروں کے سامنے ہے مگر اس بار کچھ الگ ہی حالات کا سامنا ہے۔ مفتی محمود، عبدالولی خان اور نوابزادہ نصر اللہ خاں اگر آج زندہ ہوتے تو یہ مناظر دیکھ کر وہ بھی ''رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ کہنے پر مجبور ہو چکے ہوتے۔ ممکن ہے کہ جیسے بہت سی ایسی ایجادات اور معاشرے کے نت نئے راہ و رسم‘ جو ہم سے پہلے والوں کے نصیب میں نہیں تھے اور ہمارا مقدر بنے‘ اسی طرح یہ مناظر جو آج ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں اور خاصے عجیب لگ رہے ہیں‘ تاریخ میں رقم ہو کر ''نیو نارمل‘‘ بن جائیں۔
عام انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو چکا۔ کسی بھی انتخابی عمل کا پہلا مرحلہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانا ہوتا ہے اور یہ کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنے نام کا اندراج کرائے۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانا دراصل خود کو انتخابی سیاست میں اتارنے کا بنیادی عمل ہوتا ہے اور آئین پاکستان کے تحت قومی شناختی کارڈ کے حامل‘ کم از کم پچیس سال عمر کے تمام باہوش افراد صوبائی و قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے اہل ہیں۔ گوگا دانشور کا کہنا ہے کہ پچیس سال عمر کی شرط تو ٹھیک ہے کہ اس عمر یا زائد کے حامل لوگ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن جو دوسری بنیادی شرط بتائی گئی ہے کہ اس کے لیے امیدوار کا باہوش ہونا ضروری ہے تو ممکن ہے کہ امیدوار اس شرط پر پورے نہ اترتے ہوں اور شاید یہی وجہ ہو کہ ان سے کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کی کوشش کی گئی یا کاغذات چھینے گئے۔ ویسے یہ بات قدرے حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک ایسی جماعت‘ جس کا نہ تو کوئی انتخابی نشان ہے اور نہ ہی اس کا کوئی لیڈر دکھائی دے رہا ہے‘ تازہ نوٹیفکیشن میں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے جس کو ہٹا دیا گیا ہے اور جس کی مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی لسٹ بھی روک لی گئی ہے‘ بھلا کوئی ذی ہوش شخص ایسی جماعت کے امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرا سکتا ہے؟ وہ بھی ان حالات میں جب ناقدین کی جانب سے ہر روز نت نئے محاذ کھولے جا رہے ہیں اور ایک سابق حکمران جماعت کے پالیسی ساز دانشور صاحب اب کھل کر یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ مذکورہ سیاسی جماعت پر پابندی لگا کر اس کو انتخابی سیاست ہی سے باہر کر دینا چاہیے، یہ انتخابات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہے۔ ان حالات میں یقینا مذکورہ پارٹی کے ٹکٹ کے حصول کے خواہشمند ہوش مند نہیں نظر آتے۔ یہ الگ بات کہ دانشور صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی جو کوششیں کی گئیں ان کوششوں کا کیا بنا۔
بہرکیف‘ بات شروع ہوئی تھی زنجیر پہن کر رقص کرنے سے‘ کسی اور کی بات کیوں کریں کیونکہ زنجیر پہن کر رقص کے مناظر ہم آئے روز ملک کے بڑے درباروں کے اندر اور باہر دیکھتے رہتے ہیں۔ کالے اور سبز چولے پہنے زنجیروں میں خود کو جکڑ کچھ درویش سب سے بے خبر دھمال کی صورت میں محو رقص ہوتے ہیں مگر دیکھا جائے تو وہ بھی آدابِ غلامی سے واقف نہیں ہوتے ورنہ ان کے رقص کا انداز شاید کچھ اور طرح کا ہوتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved