آج 2023ء کا آخری ہفتہ شروع ہو گیا ہے اور اگلے سوموار کا سورج نئے برس یعنی 2024ء میں طلوع ہو گا۔ 2024ء کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں انتخابات کا سال قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس نئے سال میں 30 سے زائد ممالک اپنے نئے سربراہان کا انتخاب کریں گے۔ آج ہم وطن عزیز سمیت چند اہم ملکوں کے انتخابات کا ذکر کریں گے۔ پاکستان میں عام انتخابات 8 فروری 2024ء کو ہوں گے جن کے لیے ملک بھر میں امیدواروں نے قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔ امیدواروں کی عبوری فہرست آج جاری ہو گی جبکہ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال 30 دسمبر 2023ء تک ہو گی اور اعتراضات 3 جنوری 2024ء تک دائر کیے جا سکیں گے جبکہ کاغذاتِ نامزدگی کے خلاف اپیلیں 10 جنوری تک سنی جائیں گی۔ امیدواروں کی نظر ثانی شدہ فہرست 11 جنوری کو جاری کی جائے گی اور 13 جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے جبکہ جنرل الیکشن کی پولنگ 8 فروری کو ہو گی۔
جنوبی ایشیا کے تینوں اہم ممالک‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت نئے سال میں قومی انتخابات کے میدان میں اتر رہے ہیں۔ پاکستان میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان، بھارت میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کے لیے امیدوار ہیں۔ دنیا کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک بھارت میں تقریباً ایک ارب افراد آئندہ برس اپریل‘ مئی میں اپنے ووٹوں کے ذریعے نئی حکومت کا انتخاب کریں گے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی قوم پرست بی جے پی مسلسل تیسری مدت کے لیے حکومت کی خواہاں ہے۔ مودی کے سیاسی کیریئر کے لیے یہ انتخابات بہت اہم سمجھے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ پانچ ریاستی انتخابات میں فتح سے مودی کی مقبولیت کا احساس ہوتا ہے؛ البتہ ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں یہ حمایت ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو ہوا دینے کی وجہ سے میسر آئی ہے۔ بنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود مودی کو واضح طور پر عوام میں مقبولیت حاصل ہے کیونکہ اکثر بھارتیوں کا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر ان کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا سہرا مودی کے سر جاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں عام انتخابات 7 جنوری کو ہوں گے مگر اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں کی جانب سے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے کی ہائیکورٹ کی پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا اور کہا جماعت اسلامی ایک کالعدم جماعت ہے۔ لاکھوں حامیوں کے ساتھ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی ایک بڑی اپوزیشن جماعت ہے مگر 2013ء میں اس پر ملک کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی کے الزام پر پابندی لگائی گئی تھی اور 2014ء اور 2018ء کے انتخابات میں اسے حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا اور اب 2024ء کے انتخابات سے بھی باہر کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم خالدہ ضیا‘ جو وزیراعظم حسینہ واجد کی سب سے بڑی حریف ہیں‘ ایک کیس میں 17 برس قید کی سزا کے بعد 2020ء سے اپنے گھر میں نظربند ہیں۔ خالدہ ضیا کی غیرموجودگی میں ان کی پارٹی کے امور چلانے والے مرزا فخر السلام عالمگیر‘ بیس ہزار سے زائد کارکنوں کے ہمراہ اس وقت جیل میں ہیں لہٰذا سیاسی میدان حسینہ واجد کے لیے بالکل صاف ہے۔
2024ء ہی میں 5 نومبر کو کروڑوں امریکی ملک کے نئے صدر کا انتخاب کریں گے۔ یہ طے ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ موجودہ صدر جو بائیڈن کے سخت حریف ثابت ہوں گے۔ اس حوالے سے ہونے والے مختلف سروے رپورٹس کے مطابق رائے دہندگان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ 81 سالہ ڈیمو کریٹک جو بائیڈن امریکی کمانڈر انچیف بننے کے لیے بہت ضعیف ہو چکے ہیں حالانکہ ان کے ممکنہ حریف ڈونلڈ ٹرمپ بھی عمر میں ان سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔ 77 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ غلط معلومات تیزی سے پھیلانے کے ماہر ہیں۔ اس کی ایک مثال ٹرمپ کے حامیوں کا کیپٹل ہل پر دھاوا بول کر بائیڈن کی فتح کی تصدیق کو روکنے کی کوشش کرنا ہے۔ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی کے واضح انتخاب میں شامل ہیں، اس کے باوجود کہ ان پر متعدد مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں اور وہ گزشتہ ہفتے ایک ریاست سے انتخابات کیلئے نااہل بھی ہو چکے ہیں۔ جو بائیڈن کی بات کریں تو ان کی مہم کو ایک دھچکا اس وقت لگ چکا ہے جب امریکی ایوانِ نمائندگان نے بائیڈن کے خلاف اوباما دور میں ان کے بیٹے کے متنازع بین الاقوامی کاروباری معاملات کی بنیاد پر مواخذے کی تحقیقات شروع کرنے کی منظوری دی ۔
روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پوتن‘ جو گزشتہ دو سال سے یوکرین جنگ میں الجھے ہوئے ہیں‘ مارچ 2024ء کے انتخابات میں اپنی چوبیس سالہ حکمرانی کو مزید چھ سال تک بڑھانے کی امید کر رہے ہیں۔ 8 دسمبر 2023ء کو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ پانچویں مدت کے لیے الیکشن لڑیں گے جو انہیں 2030ء تک اقتدار میں رکھے گی۔ واضح رہے کہ 2020ء میں روسی صدر نے آئین میں ایک ترمیم کی تھی تاکہ انہیں 2036ء تک اقتدار میں رہنے کی اجازت مل سکے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ جوزف سٹالن سے بھی زیادہ عرصے تک برسر اقتدار رہیں گے۔ اگرچہ یوکرین جنگ کی وجہ سے انہیں تنقید کا بھی سامنا ہے مگر تختِ روس پر ان کی گرفت کافی مضبوط ہے اور فی الحال آگے کا راستہ بھی آسان نظر آتا ہے کیونکہ ان کا دیرینہ حریف الیکسی ناوالنی 19 سال سے قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
جون 2024ء میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی پول میں 40 کروڑ سے زیادہ لوگ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔ یہ ووٹ دائیں بازو کے پاپولسٹوں کی حمایت کا امتحان ہو گا، جن کے پاس امیدواروں کے طور پر اسلام مخالف متعصب لیڈر گیرٹ وائلڈرز ہیں۔ نومبر کے ڈچ انتخابات میں یورپی یونین مخالف فریڈم پارٹی کی فتح اور گزشتہ سال اٹلی میں جارجیا میلونی کی جیت کے بعد یورپ دائیں بازو کے سیاستدانوں کی زد میں ہے؛ تاہم برسلز پولینڈ سے امید رکھ سکتا ہے جہاں یورپی کونسل کے سابق صدر ڈونلڈ ٹسک یورپی یونین کے ایک حامی کے طور پر اقتدار میں واپس آئے ہیں۔
2024ء میں پہلی بار کوئی خاتون میکسیکو کی صدر منتخب ہو گی۔ دارالحکومت کی ایک بائیں بازو کی سابق میئر اور ایک مقامی کاروباری خاتون اس وقت صدارتی الیکشن میں مدمقابل ہیں۔ دونوں خواتین جون میں میکسیکو جیسے روایت پسند ملک کی پہلی خاتون صدر بن کر تاریخ رقم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میکسیکو سٹی کی سابق میئر کلاڈیا شین بام سبکدوش ہونے والے صدر اینڈریس مینوئل لوپیز اوبراڈور کی مورینا پارٹی کی جانب سے انتخاب لڑ رہی ہیں جبکہ ان کی مخالف Xochitl Galvez حزبِ اختلاف کے اتحاد ''براڈ فرنٹ فار میکسیکو‘‘ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
اگر پاکستان کی بات کریں تو یہاں اس وقت سیاسی جوڑ توڑ عروج پر نطر آتی ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں ہیں۔ انتخابی عمل کے آغاز سے قبل جو صورتِ حال نظر آ رہی تھی وہ اب آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ فی الوقت پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو چکی ہے جبکہ اس کی مرکزی قیادت سنگین مقدمات کی زد میں ہے۔ دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی اگرچہ دعوے تو بہت کر رہی ہے مگر زمینی حقائق کے مطابق وہ صرف سندھ تک ہی بااثر دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کو ہاٹ فیورٹ سمجھا جا رہا ہے جس کے جے یو آئی (ایف)، پی آئی پی، ایم کیو ایم، جمعیت اہلِ حدیث، مسلم لیگ (ق) اور بی اے پی سمیت مختلف پارٹیوں سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ دیکھیے پولنگ ڈے پر کیا منظر نامہ سامنے آتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved