بیت اللحم خاموش بھی ہے اوراُداس بھی۔امسال کرسمس کی سب تقریبات منسوخ کر دی گئیں‘اُن مظلوم فلسطینیوں کے احترام میں جواسرائیلی وحشت کی نذر ہوگئے۔
بیت اللحم سیدنا مسیح علیہ السلام کی جائے پیدا ئش ہے۔بنی اسرائیل کے آخری جلیل القدر پیغمبر۔قرآن مجید نے خبر دی کہ جب اُن کی معجزانہ پیدائش ہو ئی توانہوں نے خدا کے اذن سے گہوارے میں کلام کیا اوراپنی پاک دامن ماں کے حسنِ کردارکی گواہی دی۔انہوں نے فرمایا: 'مجھ پر سلامتی(کی بشارت) ہے۔جس دن میں پیدا ہوا اورجس دن مروں گا اورجس دن زندہ کرکے اٹھایا جا ؤں گا‘(المریم:33) اس دن کی سب سے بڑی تقریب بیت اللحم میں ہوتی ہے۔دنیا بھر سے مسیحی یہاں جمع ہوتے ہیں۔یہ جگہ یروشلم سے چھ میل دور ہے۔ یہاں ایک کلیسا ہے جوپندرہ سو برس پہلے تعمیر کیا گیا۔اس سال یروشلم میں بھی کسی تقریب کا انعقاد نہیں ہوا۔
خیال ہوتا ہے تاریخ نے ایک بڑی کروٹ لی ہے۔سیدنا مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے ‘اسرائیل کے مقابلے میں‘ اہلِ فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔یوں کہیے کہ ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔یہ اس اخلاقی حس کا اظہار ہے ‘مذہب جسے بیدار کرنا چاہتا ہے اورجوپیغمبروں کی تعلیمات کا حاصل ہے۔ ان کی حکومتیں اسرائیل کی پشت بان ہیں اور اس ظلم میں اس کے ساتھ برابر کی شریک ہیں‘مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عام مسیحی نے اس ظلم کو قبول نہیں کیا۔وہ اسرائیل میں مرنے والے عام شہریوں کے لیے ہمدردی رکھتا ہے اور ان فلسطینیوں کے لیے بھی اتنا ہی غم ناک ہے جو اسرائیلی تشدد اور بربریت کا ہدف ہیں۔
اسرائیل کے لیے یہ سب سے بڑا نقصان ہے جس کے اثرات دوررَس ہوسکتے ہیں۔مغرب میں حکومتیں عوامی تائید سے بنتی ہیں۔اگر عوام نے ‘جن کی اکثریت مسیحی ہے‘ اسرائیل کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کر لی تو آنے والے دنوں میں ان حکومتوں کے لیے یہ آسان نہیں ہو گا کہ وہ اسرائیل کی غیر مشروط امداد جا ری رکھیں۔یہ تبدیلی تاریخ کے سفر کو ایک نیا رُخ دے سکتی ہے۔اس کا بڑاانحصار مسلمانوں کی فکری اور سیاسی قیادت کی بصیرت پر بھی ہے۔کیا انہیں اس تبدیلی کا ادراک ہے؟
مسیحیت کاسوادِ اعظم کیتھولک مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ویٹی کن نے ایک عرصے سے اپنا غیر سیاسی تشخص برقرار رکھتے ہوئے‘عالمی امور میں صرف اخلاقی مداخلت کی ہے۔مثال کے طور پر جنگ کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔پھر صلح کی بات کی ہے‘جیسے امریکہ اور کیوبا میں مکالمے کی بنیاد رکھی۔مشرقِ وسطیٰ میں فساد کے باعث جب لوگ بڑی تعداد میں ہجرت پر مجبور ہوئے تو ویٹی کن سے یہ اپیل کی گئی کہ کلیساؤں کے دروازے پناہ گزینوں کے لیے کھول دیے جا ئیں۔مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کی گئی تو اس کے خلاف آواز اٹھائی۔اس بارجب اسرائیل نے وحشت کا نیا باب کھولا تو ویٹی کن نے اس میں بھی ظلم اور جنگ کے خلاف‘مظلوموں کا ساتھ دیا۔
مغرب کا عمومی تشخص لبرل ہے۔اہلِ علم لیکن اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں اگر اخلاقی حس موجود ہے تو یہ مذہب کی وجہ سے ہے۔ مذہب سے مراد مسیحیت ہے۔ انسانوں میں تبدیلی کا ماخذ ان کی عقل نہیں‘ان کی اخلاقی حس ہے۔اسی لیے مذہب کا مقدمہ بھی یہی ہے کہ انسان کو اخلاقی طور پر پاکیزہ بنایا جا ئے۔عقل عیار ہے ۔یہ انسان کو وہ راستے بھی دکھاتی ہے جوغیر اخلاقی ہیں اور ان کے لیے اسے دلیلیں فراہم کرتی ہے۔کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو کسی عدالت میں جاکروکیلوں کی بحث کو سُن لے۔اس ملک میں آئین شکنی کے لیے سارا استدلال عقل کا فراہم کر دہ ہے۔اخلاقی حس کبھی یہ کام نہیں کر سکتی۔
فلسطین کے مسئلے نے ایک بارپھر اس مقدمے کو زندہ کر دیا ہے۔اس ظلم پر احتجاج کرنے والوں کی اکثریت کو اس مسئلے کی سیاسی جہت سے کوئی دلچسپی نہیں۔شاید وہ یہ بھی نہ جانتی ہو کہ دو ریاستی حل کیا ہے اور اسرائیل کے وجود سے کون سے امریکی اور برطانوی مفادات وابستہ ہیں۔یا حماس اور پی ایل او میں کیا فرق ہے؟جس چیز نے اسے سراپا احتجاج بنایا‘وہ ظلم ہے۔وہ معصوم بچوں کے لاشے ہیں۔وہ بربادہوئی بستیاں ہیں۔وہ بے گھر عورتیں ہیں۔وہ بموں سے ویرانوں میں بدلتے ہسپتال ہیں۔ظلم کے خلاف نفرت اخلاق کا تقاضا ہے جس نے عام آدمی کو احتجاج پر ابھارا ہے۔
مظلومیت کو ایک بڑی قوت سمجھا گیا ہے جو تاریخ کا دھارا بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ بڑی بڑی سلطنتوں کو الٹ سکتی ہے۔مسلم تاریخ میں کربلا مظلومیت کاا ستعارہ بنا تو اس نے تفہیمِ تاریخ کا رُخ بدل دیا۔بڑی بڑی ذہانتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ تاریخ کی اس تعبیر کے خلاف‘لوگ بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ دراصل مظلومیت کی قوت ہے جس کا انتساب سیدنا حسین ؓ اور ان کے خانوادے کے نام ہے۔مظلومیت انسان کی جس حس کو اپنا مخاطب بناتی ہے‘وہ اخلاقی ہے۔
بحیثیت مذہب‘مسیحیت نے خود کو سیاست سے دور رکھتے ہوئے‘اگر اپنا وجود باقی رکھا ہے اور لبرل ازم کے فکری طوفان کا کامیابی کے ساتھ سامنا کیا ہے تو اس کی بڑی وجہ انسان کے اخلاق پر ارتکازہے۔مسیحیت نے تاریخ میں جب سیاسی کردار ادا کیا تو اس نے اپنی حیثیت کو متنازع بنا دیا۔جیسے صلیبی جنگیں۔بظاہر ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ مغرب میں مذہب کمزور ہوا ہے ۔ یہ کمزوری مگر مناسک و رسوم سے لا تعلقی کی صورت میں تو ہے‘اخلاقی بے نیازی کی شکل میں نہیں ہے۔'پوسٹ سیکولرازم‘ کی بحث میں اس بات کو تسلیم کیا جا رہاہے کہ انسانی زندگی سے مذہب کو نہیں نکالا جا سکتا۔لہٰذااس اعتراف کے ساتھ ہی کوئی سیاسی و سماجی نظام وضع کیا جاناچاہیے۔
تشد کا بدلہ تشدد‘ کے فلسفے نے مظلومیت کے مقدمے کو کمزور کیا ہے۔ریاست جب اپنے دفاع میں یا ظلم کے خلاف قوت کو استعمال کرتی ہے تو انسان کی اخلاقی حس اس کو قبول کر تی ہے۔ریاست بھی اگر اپنی قوت کو غیر اخلاقی طور پر بروئے کار لائے تو انسان کی فطرت اسے ردکردیتی ہے۔اس کا اظہار امریکی عوام نے‘عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کیا۔غیر محارب کو کوئی ریاست ہدف بنائے یا مسلح گروہ‘انسان کی اخلاقی حس نے اسے ہمیشہ مسترد کیا ہے۔
بیت اللحم کی اداسی بتا رہی ہے کہ آج بھی انسان اخلاقی طور پر زندہ ہے۔انسانیت کے مستقل کے لیے یہی واحد امید ہے۔اس کامطلب یہ نہیں کہ ابلیس اور اس کا گروہ انسان سے دست کش ہوجائیں گے۔ان کو غیر موثرٔ بنانے کا راستہ یہی ہے کہ انسان کو اخلاقی طور پر زندہ رکھا جا ئے۔اس کے لیے مذہب کو ماننے والی قوتوں کو جمع ہو ناچاہیے۔ انہیں ایسی اقدار پر اتفاق پیدا کرنا چاہیے جو اصلاً اسی اخلاقی حس کے مطالبے کے جواب میں پیدا ہوئیں اور مذہب نے جنہیں موکد کیا۔ پیغمبروں نے جنہیں اپنی زندگی میں اپنا کر اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔
میں ظلم کے خلاف کھڑا ہونے پر مسیحیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ ظلم اور اخلاقی رزائل کے خلاف اہل ِمذاہب کااتحاد انسان کو اخلاقی زندگی دے گا۔انسانیت کو بچانے کی واحد صورت یہی ہے۔ آج بظاہربیت اللحم خاموش اوراداس ہے مگرکل جس طرح سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کی بنیاد بنی تھی‘کچھ بعید نہیں کہ بیت اللحم کی یہ خاموشی‘ابراہیمی ادیان کوقریب کردے اور تاریخ کے ایک نئے عہد کی پہلی اینٹ بن جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved