عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے عدلیہ سے مخاطب ہو کر‘ بالخصوص پشاور ہائیکورٹ کو جو کچھ کہا ہے‘ اس پر ابھی تک کسی جانب سے کوئی خاص ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی اس واقعے پر مٹی ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالانکہ مسلم لیگی رہنما نہال ہاشمی کو ایک ایسے ہی کیس میں پانچ سال کے لیے نااہلی، پچاس ہزار روپے جرمانے اور ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ایمل ولی نے تو براہِ راست ایک ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو مخاطب کر کے اپنے عناد اور غصے کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر البتہ یہ تقریر خاصی وائرل ہو چکی ہے اور ہرآنکھ اور کان تک پہنچ چکی ہے۔ اگر لب و لہجے کی بات کی جائے تو الفاظ کی مماثلت سمیت یہ وہی لہجہ ہے جو کے پی میں اے این پی کی ایک دیرینہ اتحادی جماعت کے سربراہ نے ایک سیاسی جلسے میں اپنایا تھا کہ تم نے تو تین سال بعد چلے جانا ہے جبکہ ہم نے یہیں رہنا ہے۔ ہمیں کچھ کہنے سے پہلے سوچ لو کہ ہم اگر کھڑے ہو گئے تو تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اگرچہ اس تقریر کا موصوف کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا تھا اور پھر وہ کافی عرصہ دبئی میں مقیم رہے تھے جس کے بعد ان کے لہجے میں کچھ تبدیلی آئی۔
گزشتہ ڈیڑھ‘ دو سال سے یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جس کا دل چاہتا ہے وہ ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانے لگتا ہے۔ بالخصوص جب سے عدالتوں میں سیاسی کیسوں کی بھرمار ہوئی ہے، عدالتی طریقہ کار، ججوں کے ریمارکس اور ان کے منہ سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ پر ان کی گرفت کی جاتی ہے اور سوشل میڈیا پر تو جیسے باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ کون بھول سکتا ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے دوران اسلام آباد کے بلیو ایریا میں‘ سپریم کورٹ کے سامنے پی ڈی ایم کی حکومت نے نہ صرف ایک جلسے کا اہتمام کیا تھا بلکہ اُس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف ایسی ایسی زبان استعمال کی گئی تھی کہ سننے والے انگلیاں دانتوں میں داب کر رہ گئے تھے۔ اسی طرح جب نیب ضمانت کیس میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو جج صاحب نے ''گڈ ٹو سی یو‘‘ کہا تو اس پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور یہ تاثر دیا جانے لگا کہ جیسے جج صاحبان کی ہمدردیاں مخصوص سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ہیں۔ حالانکہ امسال اگست میں مسلم لیگی رہنما احسن اقبال جب توہینِ عدالت کے ایک کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ''میری نظر میں احسن اقبال بڑے سنجیدہ اور دانش ور شخص ہیں‘‘۔ عدالت نے احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کیس نمٹاتے ہوئے اپنے حکم میں لکھا کہ ''احسن اقبال نظم و ضبط والے انسان ہیں،انہوں نے متعلقہ سیمینار یہ کہا کہ ان کی بھی عزتِ نفس کا تحفظ ہونا چاہیے، عدالت نہیں سمجھتی کہ کچھ ایسا کہا گیا جس کو توہینِ عدالت کے طور پر دیکھا جائے‘‘۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ سیاسی طور پر اس قدر بٹ چکے ہیں کہ عدالتوں کی کارروائیوں کو بھی اپنی سیاسی وابستگیوں اور سیاسی عینکوں سے دیکھتے ہیں اور پھر اسی طرز پر ججز سے متعلق رائے بنانے لگتے ہیں۔
حال ہی میں اے این پی کے نوجوان رہنما نے ایک صوبے کے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ البتہ قابلِ برداشت نہیں ہے۔ اس طرح کل کو کوئی اور بھی اٹھ کر سرکاری اور ریاستی اہلکاروں کو دھمکانے لگے گا۔ اگر دیکھا جائے تو ایمل ولی جس کیس پر عدلیہ کو نشانے پر رکھ رہے تھے وہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کیس تھا۔ ایک سیاسی جماعت کے مختلف مقدمات میں گرفتار کارکنان اور انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند حضرات کے کاغذاتِ نامزدگی کی چھینا جھپٹی کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ نے جب سخت احکامات جاری کیے تو ایمل ولی سیخ پا ہو گئے۔ یہ غصہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ اب کے پی میں ان کی سیاسی پوزیشن کہاں کھڑی ہے۔ غالباً عوام کا مزاج اور ہوائوں کا بدلتا رخ دیکھ لیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اب تنقید کا رخ براہِ راست عدلیہ کی طرف کر لیا گیا ہے۔
آج کل مسلم لیگ (نواز) کے کچھ سینئر رہنما بھی عدلیہ کے حوالے سے خاصے ''حساس‘‘ نظر آ رہے ہیں۔ حالانکہ محض چند دن پہلے سائفر کیس میں ضمانت کے بعد سوشل میڈیا پر ججز کی تصاویر لگا کر جس طرح کے کمنٹس کیے گئے، وہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ آج بھی جا کر چیک کیا جا سکتا ہے کہ یہ محض جذباتی افراد کی کارستانی تھی یا کسی بڑی سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا ونگ اس کے پیچھے متحرک تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جسٹس صاحب نے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی سے متعلق چند فیصلے سنائے تو ان کے خلاف بھی ایک منظم قسم کی کمپین دیکھنے کو ملی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر کسی کو نظر نہیں آ رہا اور سب لٹھ لے کر دوسروں کی آنکھ کے تنکے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
کیا ایک سیاسی جماعت کا جلسہ بھلایا جا سکتا ہے جس میں حاضر سروس ججوں کی تصاویر چلا کر ایک مخصوص بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی؟ کیا اس سے قبل ایسی کوئی جسارت کسی سیاسی جماعت کی جانب سے دیکھی گئی تھی؟ کیا اس کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تھی؟ دوسری جانب خاتون جج دھمکی کیس بھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور متعلقہ جج سے غیر مشروط معافی مانگنے کے باوجود یہ کیس تاحال چل رہا ہے اور متعلقہ جج صاحبہ اس کیس میں مدعی بھی نہیں ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کا بانی رہنما ابھی تک اپنے ان الفاظ کی ادائیگی کے جرم میں عدالتوں سے ضمانتیں کرا رہا ہے۔ اس طرح کی مثالیں دیکھ کر تو یقین ہونے لگتا ہے کہ اس ملک میں واقعی دو قانون ہیں۔ یہاں دو طبقات آباد ہیں۔ ایک وہ قانون کا ہر پھندہ جنہیں جکڑنے کے لیے بیتاب رہتا ہے۔ الیکشن کمیشن بھی جن پر توہین کا مقدمہ درج کر کے جیل کے اندر سماعت تک کے لیے چلا جاتا ہے اور دوسرے وہ جو عدالت کے باہر کھڑے ہو کر سرعام دھمکیاں دیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہ ہو۔
دو روز قبل چند مسلم لیگی رہنمائوں نے یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسز کیں اور اپنی ایک مخالف سیاسی جماعت کے حوالے سے الزامات کی بوچھاڑ کر دی کہ متعلقہ جماعت سوشل میڈیا پر عدلیہ سے متعلق منفی مہم چلا رہی ہے۔ سوال کرنے والوں نے جب اس حوالے سے حقائق سامنے رکھے تو موصوف رہنما خلائوں میں دیکھنے لگے۔ اسی سیاسی جماعت کے ایک دانشور صاحب نے چند ہفتے قبل لکھا کہ ہمارے مخالفین نے اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس پر حملہ کیا جبکہ ہمارے پر سپریم کورٹ حملے کا محض الزام ہے۔ ''اس سادگی پر کون نہ مر جائے‘‘۔ ویسے تو دونوں ''حملوں‘‘ کی فوٹیجز موجود ہیں، ان کا موازنہ ہی حقائق بیان کرنے کو کافی ہے۔ دوم، اگر ''بعد از حملہ‘‘ کی صورتحال کا جائزہ لے لیا جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ سپریم کورٹ پر ہوئے حملے کے بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ کیس کا فیصلہ نہیں سنا سکے تھے اور انہیں بغیر فیصلہ سنائے واپس جانا پڑا تھا جبکہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں معمول کی کارروائی چلتی رہی تھی۔ ایک بھی کارکن کمپلیکس کے اندر داخل نہیں ہوا تھا۔ نیز سپریم کورٹ حملے کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف جو محاذ کھولے گئے اور جس طرح انہیں عہدے سے الگ کیا گیا، ان باتوں کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ دانشوروانِ سیاسی جماعت اپنی پارٹی کے سیاسی بیانیے کو ضرور آگے بڑھائیں مگر حقائق کو یوں نہ مروڑیں کہ دن کو رات اور رات کو دن کہنے لگ جائیں۔ دوسروں پرکیچڑ اچھالنے سے اپنے دامن پر لگے دھبے صاف نہیں ہو سکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved