تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-12-2023

خان کا ماسٹر سٹروک

نرگسیت یا اپنی ذات سے محبت ایک عجیب انسانی جبلت ہے۔ اپنے آپ کو دنیا بھر سے مختلف اور بہتر سمجھنا ایک بیماری ہے۔ اگرچہ کسی حد تک اپنی ذات سے محبت جائز ہے کیونکہ اگر کوئی انسان خود کو اچھا نہیں سمجھتا تو وہ زندگی میں کسی کو بھی اچھا نہیں سمجھے گا۔ اپنی ذات سے محبت اسے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن اپنی ذات سے عشق شروع ہو جائے تو پھر اس کا نقصان بھی بہت ہے۔ ہر وہ بندہ جو خود کو دوسروں سے اعلیٰ اور برتر سمجھتا ہے وہ یقینا خوفناک احساسِ برتری کا شکار ہے اور اس جذبے کے تحت وہ دوسروں کو لیڈ کرنا چاہتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ دوسرے کم عقل ہیں‘ بیوقوف ہیں۔ وہ اگر اسے فالو کریں تو وہ انہیں ترقی دلوا سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس وہ صلاحتیں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں۔ میں ایک روز ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا ایک وڈیو کلپ سن رہا تھا تو میں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر خدا سے توبہ کی کہ انسان کبھی کبھار غرورو تکبر میں کتنا آگے چلا جاتا ہے اور خود کو ناقابلِ تسخیر یا ناگزیر سمجھ لیتا ہے۔ بھٹو صاحب فرما رہے تھے کہ ہر دفعہ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اس قوم کا ہیرو بنوں‘ میں کب تک ہیرو بنوں‘ میں ہیرو بن بن کر تنگ آگیا ہوں‘ اب کوئی نیا ہیرو تلاش کر لیں۔ نواز شریف نے بھی ایک وقت میں خود کو ناگزیر سمجھ لیا تھا کہ ان کے بغیر نہ ملک چل سکتا ہے نہ معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ پھر وہ آٹھ دس سال تک جدہ اور لندن میں جلاوطنی کاٹتے رہے۔ جدہ میں میری جب ان سے 2005ء میں ملاقات ہوئی تب بھی ان کا سٹاف انہیں مسٹر پرائم منسٹر کہہ کر بلاتا تھا۔ وہ جلاوطنی میں بھی خود کو وزیراعظم سمجھتے اور کہلواتے تھے۔ عمران خان وزیراعظم تھے تو ایک دن وزیراعظم ہاؤس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں ہی اکیلا بچا ہوں‘ میرے علاوہ کوئی آپشن ہے تو لا کر دکھائیں۔
یہ وہ چند مثالیں ہیں جب ٹاپ پر بیٹھے لوگ خود کو عام انسان نہیں بلکہ بہت بڑی چیز سمجھ لیتے ہیں۔ آپ ان تینوں وزرائے اعظم کے بیانات یا دعوے پڑھ لیں اور پھر ان تینوں کا انجام دیکھ لیں تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ خدا کو تکبر یا غرور کیوں پسند نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی‘ نواز شریف عمر قید کی سزا سن کر جلاوطن ہوئے اور اب عمران خان مہینوں سے جیل میں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ''روحانی طاقتیں‘‘ اب بھی عمران خان کو اس حالت تک پہنچانے کے بعد بھی ان کے کان میں سرگوشی کر رہی ہوں گی کہ فکر نہ کرو‘ یہ سب مشکلیں تمہیں کسی بڑے کام کیلئے تیار کررہی ہیں۔
باقی چھوڑیں ابھی نعیم بخاری کا تہلکہ خیز انٹرویو ہی سن لیں جس میں انہوں نے عمران خان کے حوالے سے بڑے انکشافات کیے ہیں۔ نعیم بخاری کے کریڈٹ پر ان کی پروفیشنل تاریخ کا ایک بڑا کیس ہے اور وہ ہے پانامہ کیس‘ جس کی وجہ سے ایک وزیراعظم کو نہ صرف برطرف ہو کر گھر جانا پڑا بلکہ بعد میں چلنے والے مقدمات کی وجہ سے جیل کی سزا تک ہوئی۔ اگر نعیم بخاری اور کوئی بھی کیس نہ لڑتے تو یہی ایک کیس ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں زندہ رکھنے کیلئے کافی تھا۔ ایک دفعہ اسحاق خاکوانی صاحب سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ نعیم بخاری صاحب کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ ان کے انتخاب کا مقصد یہ تھا کہ پانامہ کیس میں کوئی ایسا وکیل نہیں ہونا چاہیے جو کل کلاں مخالف پارٹی کے ساتھ مل کر پورا کیس ہی خراب کر دے کیونکہ اس کیس میں ان کا مخالف کوئی عام آدمی نہیں ملک کا وزیراعظم تھا جو اپنے اقتدار کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ جبکہ شریف برادران کے حوالے سے پہلے ہی مشہور تھا کہ وہ ہر بندے کو خریدنے کی قوت رکھتے ہیں۔ نعیم بخاری شاید وہ اکیلا وکیل تھا جو شریفوں کو ٹف ٹائم دے سکتا تھا‘ اس کی کچھ ذاتی وجوہات بھی تھیں۔ اس لیے نعیم بخاری کا چوائس ٹھیک نکلا۔ اگرچہ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ اکیلا نعیم بخاری یہ کیس نہیں جیت سکتا تھا‘ اگر اس کیس کی بیک پر ثاقب نثار‘ قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید نہ ہوتے جو پیچھے بیٹھ کر سب کچھ مینج کررہے تھے۔ لیکن اب جو باتیں نعیم بخاری نے کی ہیں‘ وہ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان میں کسی کی بات سننے یا اس پر عمل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہی نرگسیت پسندی کا شکار انسان کہ جو میں سوچ رہا ہوں وہی ٹھیک ہے۔ باقی لوگ جو اسے مشورے دیتے ہیں کہ یہ کر لو‘ وہ کر لو‘ وہ اتنے ہی سمجھدار ہوتے تو اس کی جگہ وزیراعظم نہ بن جاتے؟ لہٰذا خان نے کبھی ان لوگوں اور ان کے مشوروں کو کوئی اہمیت نہ دی اور وہی کچھ کیا جو ان کے خیال میں بہتر تھا۔ اپنی جماعت کے اراکین سے استعفیٰ دلوانے اور قومی اسمبلی توڑنے جیسے فیصلوں کو ہی دیکھ لیں‘ جن کے اثرات سے وہ آج تک ریکور نہیں کر سکے۔ نعیم بخاری کے بقول انہوں نے خان کو کہا تھا کہ نہ اسمبلی توڑو‘ نہ استعفے دو۔ ان کے بقول انہوں نے خان کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی توڑنے سے بھی منع کیا تھا لیکن خان نے کسی کی بات نہیں مانی اور آج وہ جیل میں بیٹھے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ بطور وزیراعظم عمران خان کا جب وزیراعظم ہاؤس میں آخری دن تھا‘ اُس دن مجھے اور عامر متین کو ملنے کیلئے بلایا گیا ۔ اداکار شان اور ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمن قمر بھی وہاں موجود تھے۔ فواد چوہدری سمیت درجن بھر وفاقی وزیر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ عمران خان عجیب کیفیت میں تھے۔ وہ دل ہی دل میں کچھ سوچ کر مسکرا رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ ان کے ذہن میں قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی ایسا منصوبہ چل رہا ہے جس کے بعد سب منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ عمران خان کو کریدنے کی کوشش بھی کی کہ آخر ان کے ذہن میں ایسا کیا ہے جس سے سب کچھ اُلٹ جائے گا لیکن وہ اپنے اس خیال سے خود ہی لطف اندوز ہوتے رہے۔ ایک مرحلے پر مسکرا کر کہا : بس کل کا انتظار کریں اور دیکھیں کہ ہم کتنا بڑا سرپرائز دیں گے۔ لیکن تب بھی انہوں نے وہ راز نہیں بتایا کہ وہ کیا کرنے والے ہیں۔ اگلے دن پتہ چلا کہ انہوں نے قاسم سوری کے ذریعے رولنگ دلوا کر پوری اپوزیشن کو غدار ڈیکلئیر کروا دیا‘ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائی اور ساتھ ہی قومی اسمبلی توڑ دی اور اپنی حکومت توڑ کر نگران حکومت کیلئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے تجاویز مانگ لیں۔
ایسے فیصلے شاید کالج یا یونیورسٹی لیول کی سٹوڈنٹس یونین کے طالبعلم کرتے ہیں کہ اگر بازی ہاتھ سے نکل رہی ہے تو پورا کھیل ہی الٹ دو‘ لیکن بطور وزیراعظم آپ یہ کام نہیں کرتے۔ آپ میچورٹی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک کمزور جمہوری ڈھانچے کا اتنا بڑا امتحان نہیں لیتے۔ اب اس امیچور فیصلے کا کس کو فائدہ ہوا؟ نعیم بخاری تک نے سمجھایا کہ یہ کام نہ کریں۔ لیکن ہمارے ساتھ ہونے والی ملاقات میں وہ دل ہی دل میں کچھ سوچ کر مزے لے رہے تھے کہ ان کے اس ماسٹر سٹروک کے بعد شہباز شریف اور آصف زرداری کا کیا حال ہوگا۔ پھر ان دونوں کا کیا حال ہوا؟ ایک وزیراعظم بن گیا اور دوسرے نے اپنے بیٹے کو وزیرخارجہ بنوا دیا۔ اور اب نعیم بخاری‘ جس نے خان کو منع کیا تھا کہ یہ کام نہ کرنا ‘وہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا بریگیڈ کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور خود خان اڈیالہ جیل میں بیٹھے اب بھی اپنی ذات سے محبت میں مبتلا ہیں اور قید کے دن یہ سوچ کر گزار رہے ہیں کہ وہ اکیلے ہی کافی ہیں۔جو بات پاکستان میں بچے بچے کو پتہ تھی کہ اسمبلیاں توڑنا احمقانہ فیصلہ ہے‘ اسے آج بھی خان اپنا ماسٹر سٹروک سمجھتاہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved