دنیا کے آغاز سے لے کر آج تک کتنی ہی صدیاں گزر چکیں‘ اربوں انسان اس دنیا میں آ کر جا چکے لیکن ایک سوال کے بارے میں انسان ہمیشہ متجسس رہا اور اسے سمجھنے میں غلطیاں بھی کرتا رہا اور وہ یہ تھا کہ آخر دنیا کی حقیقت ہے کیا؟ ہر انسان دنیا کو ایک الگ نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر کسی کے حالات بھی مختلف ہیں۔ ایک ہی وقت میں دو بچے پیدا ہوتے ہیں‘ جن میں سے ایک سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتا ہے تو دوسرا کسی جھونپڑی میں آنکھ کھولتا ہے۔ اسی طرح مستقبل میں کیا ہو گا‘ نہ سونے کے چمچ والا بچہ جانتا ہے نہ ہی جھونپڑی میں پیدا ہونے والے کو معلوم ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امیر گھرانے میں پیدا ہونے والا اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس حال کو پہنچ جائے کہ اسے پینے کو دو گھونٹ پانی نصیب نہ ہو جبکہ غریب بستی میں پیدا ہونے والا دنیا کا ارب پتی انسان بن جائے۔ چنانچہ زندگی کی یہی مثالیں اور کہانیاں ہمیشہ سے لوگوں کو تذبذب میں مبتلا کرتی رہی ہیں اور بظاہر جس طرح سونے کی چمک انسان کو اندھا کر دیتی ہے‘ اسی طرح دنیا کی حقیقت کو ٹھیک طریقے سے نہ سمجھنے والے بھی دنیا کو سونا سمجھ کر اس کی چکا چوند کا شکار ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کی حرص میں یوں مبتلا ہوتے ہیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں رہتا کہ آخر انسان کا دنیا میں آنے کا مقصدکیا تھا۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی ایک آیت ہی کافی ہے جس میں کہا گیا ''کہ دنیا کی زندگی تو چند روز کا کھیل تماشا ہے‘‘۔ یہ بھی کہا گیا کہ ''یہ مال اور اولاد تو دنیوی زندگی کی آزمائش ہیں‘‘۔ انسان مگر اپنی زندگی کے 70‘ 80برس اسی کھیل تماشے میں گزار دیتا ہے اور جب اس کا دنیا سے جانے کا وقت آتا ہے تو اپنے ماضی کے وقت کو یاد کرکے ہنستا ہے اور پچھتاتا ہے کہ کاش میں نے یہ وقت یوں برباد نہ کیا ہوتا۔ کاش میں نے اپنوں کو وقت دیا ہوتا‘ کاش میں دولت کے پیچھے یوں نہ بھاگتا۔ کاش میں دنیا میں کوئی ایسا کام کرتا جس سے دوسروں کا بھلا ہوتا۔ لیکن اس وقت انسان بے بس ہوتا ہے اور پچھتاوا ہی ساتھ لے کر چلاجاتا ہے۔
دنیا کی حقیقت جاننے کیلئے تو خلیفہ ہارون الرشید کا یہ واقعہ بھی کافی ہے کہ جب ایک روز دربار لگا تھا اور سارے مصاحب‘ خواص اور امراء موجود تھے۔ اس دوران ہارون الرشید کو پیاس لگی۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کا کٹورا پیش کیا گیا۔ ہارون نے ہاتھ بڑھا کر کٹورا تھاما اور اسے ہونٹوں سے لگانے کو تھا کہ ایک عالم اپنی جگہ سے اٹھا‘ ہارون کے قریب آیا اور بولا ''بادشاہ سلامت۔ ذرا رُک جائیے۔ پانی کا پیالہ منہ سے لگانے سے پہلے ہمیں ایک بات بتائیے۔ ایسے وقت میں جب آپ کو پیاس نے تنگ کر رکھا ہے‘ اگر یہ پیالہ آپ کے ہاتھ سے چھین لیا جائے‘ آپ کے ہونٹ اس پیالے تک نہ پہنچ سکیں اور آپ سے کہا جائے کہ آپ اس ایک پیالہ پانی کی قیمت ادا کریں تو بتائیے آپ اس کی زیادہ سے زیادہ کیا قیمت دے سکیں گے‘‘۔ ہارون کو سخت پیاس لگی تھی۔ سوال سننے اور اس کا جواب دینے کیلئے جو وقفہ آیا‘ وہ بھی اس کیلئے بہت زیادہ تھا۔ ہارون نے جواب دیا ''ہم اپنی آدھی سلطنت اس ایک پیالہ کی قیمت کے طور پر نذر کر دیں گے‘‘۔ وقت کا یہ عالم دوبارہ مخاطب ہوا ''اور اگر خدانخواستہ آپ کا پیشاب رُک جائے‘ کسی طرح کھل نہ سکے اور آپ سے اس کے کھولنے کی قیمت مانگی جائے‘‘۔ ہارون نے جلدی جلدی جواب دیا ''تو بھی ہم اپنی آدھی سلطنت اس کے عوض دے دیں گے‘‘۔ عالم مسکرایا‘ ہارون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولا ''اے سلطنت کے بادشاہ! کیا ایسی سلطنت جو ایک پیالہ پانی کے عوض اور پیشاب کھلوانے کی قیمت میں بک جائے‘ کیا اتنی وقعت رکھتی ہے کہ انسان اس کی ہوس میں ڈوب جائے‘ اس کی خاطر عوام کے حق مارے اور ان پر ظلم اور زیادتی کرے‘‘۔ عالم کی بات سن کر ہارون کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے‘ ہچکی بندھ گئی اور جسم کانپنے لگا۔ وہ سخت گیر حاکم تھا نہ ہی عوام پر ظلم کرتا لیکن اس واقعے نے اس میں مزید انکساری و عاجزی پیدا کر دی اور دنیا کی حقیقت اور اقتدار کی اصلیت کھل کر اس کے سامنے آ گئی۔
عباسی حکمران ہارون الرشید کا دور اپنی مثال آپ تھا۔ اس دور میں رعایا خوش حال اور سلطنت ترقی کی طرف گامزن تھی۔ سڑکوں پر دور دور تک کوئی بھوکا‘ کوئی سائل ڈھونڈنے سے نہ ملتا تھا۔ ہارون کا 23سالہ دور جمہوری نہیں بلکہ شخصی حکمرانی کا دور تھا۔ شخصی حکومت میں بڑے عیب ہوتے ہیں۔ مگر شخصی حکمران ہارون جیسا خیرخواہ ہو تو شخصی حکومت جمہوریت سے بازی لے جاتی ہے۔ ہارون الرشید کی کامیابیوں کی بنیادی وجہ علم دوستی‘ غریب پروری اور انصاف پسندی تھی۔ اُس کے زمانے میں جگہ جگہ محتاج خانے کھلے ہوئے تھے‘ جہاں مفلوک الحال اور معذور افراد مستقل طور پر رہائش رکھتے۔ ہر شہر میں بیواؤں اور یتیموں کی الگ الگ تربیت گاہیں تھیں جن کے سارے اخراجات حکومت کے ذمہ تھے۔ اس کے ذاتی محتسب ملک کے ہر ضلع‘ ہر تحصیل اور ہر حصہ میں پھیلے ہوئے تھے اور اگر کبھی کسی غریب کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی تو اس کی آواز ہارون کے کانوں تک پہنچے بغیر نہ رہتی۔ وہ اس وقت تک کھانا نہ کھاتا جب تک محل کے آس پاس رہنے اور جمع ہونے والوں کو کھانا نہ مل جاتا۔ اس کے زمانے میں کسی شہری کو غیراسلامی ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا۔ ہر قسم کی سبزیاں‘ پھل‘ غلہ اور ملکی کپڑا ٹیکس سے آزاد تھا۔ یہ جمہوری زمانہ شاید یہ سن کر شرمائے کہ اس شخصی حکمران کے زمانے میں پوری مملکت اسلامیہ میں کوئی چُنگی اور کوئی محصول نہ تھا اور اس زمانے میں بغداد نے ریکارڈ ترقی کی۔ وہ مفاد پرست‘ خوشامدی اور لالچی ٹولے کے بجائے علماء‘ شعرا‘ ادیبوں اور دانشوروں کو اپنے قریب رکھتا تھا جو اُسے اقتدار کی حقیقت سے آگاہ رکھتے اور ہر قدم پر رہنمائی کرتے۔
ہم آئے روز اپنے پیاروں‘ اپنے دوست عزیزوں اور انجان لوگوں کو اس دنیا سے جاتے دیکھتے ہیں لیکن اس دنیا کی بھول بھلیوں میں پھر یوں گم ہوتے ہیں کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں جو بھی انسان اس دنیا میں آیا ہے‘ اسے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ جو جاتا ہے وہ صرف اپنے اعمال ساتھ لے کر جاتا ہے‘ باقی سب یہیں رہ جاتا ہے۔ جو مال کمایا جاتا ہے‘ جو اثاثے اور جائیدادیں بنائی جاتی ہیں وہ وارثین کے پاس چلی جاتی ہیں۔ ساتھ صرف اعمال جاتے ہیں اور دنیا میں اگر کچھ باقی رہتا ہے تو وہ نام ہے اور تاریخ بھی انہی کو یاد رکھتی ہے جو اس دنیا کو کسی قسم کا فائدہ اور خیر پہنچاتے ہیں۔ چاہے وہ خیر کسی ایسی دوائی کی دریافت کی صورت میں ہو جسے کروڑوں اربوں لوگ سینکڑوں سال استعمال کرکے صحت یاب ہوتے رہیں‘ چاہے پہیہ ہو جس کی بدولت انسان تیز ترین سفر کرنے کے قابل ہوا‘ چاہے بلب ہو جس کے باعث زمین پر اربوں انسان روزانہ اندھیرے سے نجات حاصل کرتے ہوں۔ چنانچہ جہاں ہم دنیا میں اور بڑے کارنامے انجام دینے میں مصروف رہتے ہیں‘ جہاںہم بڑے بڑے عظیم مقاصد کے حصول کی تگ و دو میں رہتے ہیں وہاں ہمیں کبھی کبھار چند لمحوں کیلئے رک کر خلیفہ ہارون الرشید کی طرح زندگی کی حقیقت کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے کہ جس میں پانی کا ایک پیالہ بعض اوقات بادشاہ کی پوری سلطنت سے زیادہ قیمتی ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved