سال ہمیں وہ سبھی کچھ سکھا جاتے ہیں جن سے دن‘ ہفتے اور مہینے واقف نہیں ہوتے۔ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے شب و روز کے جھمیلوں اور گہما گہمی میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ سال کے دن کب گنے جا چکے۔ ہندسے کی تبدیلی کے ساتھ سورج ستم ظریفیوں کے سبھی رنگ اور موسم سموئے اس طرح طلوع و غروب ہوتا ہے کہ سال کے اختتامی دنوں کی دہلیز پر دوبارہ لاکھڑا کرتا ہے۔ اسی لیے دسمبر کے آخری چند دن سال بھر کا ہی نہیں بلکہ عمرِ رفتہ کا بھی میزانیہ بن جاتے ہیں۔ عجیب سی اُداسی میں لپٹی ہوئی یہ سرد شامیں چیخ چیخ کر احساس دلاتی ہیں کہ وقت کی مٹھی سے مہلت کی ریت کسی قدر تیزی سے سرک گئی۔ اس ریت کے سرکنے کا احساس دسمبر کے آخری دنوں میں نہ صرف شدت اختیار کر جاتا ہے بلکہ اعصاب اور نفسیات کا بھی کام تمام کر ڈالتا ہے۔ ان مخصوص دنوں کا ناسٹیلجیا نئے سال کا ہندسہ بدلنے کے بعد بھی تادیر جکڑے رہتا ہے‘ پھر رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے سالِ نو کے روز و شب اختتامی مہینے کی طرف ان سبھی کیفیات سے دوچار کرنے کے لیے اس طرح ہانکتے اور دوڑاتے ہیں جیسے سالہا سال سے بھگاتے چلے آئے ہیں۔ اس بھاگم بھاگ میں کوئی بچھڑ گیا تو کوئی بکھر گیا‘ ان سبھی کی جدائی کے صدموں کے کوہ ہمالیہ کے آگے ہر سال کے اختتام پر خود کو مزید بونا محسوس کرتا ہوں اور ان دنوں ٹوٹنے والی سبھی قیامتوں اور عذابوں کو بذریعہ کالم شیئر بھی کرتا چلا آیا ہوں۔
ہر سال کا ناسٹیلجیا کئی اضافوں کیساتھ اُداسیوں کے ڈیرے اور وسوسوں کے گھیرے ایسے بڑھاتا چلا جا رہا ہے جیسے جلتے بجھتے چراغ کی لَو ہو۔ موضوعات کا انبار لگا ہوا ہے‘ اخبارات کے ڈھیر میں کیسی کیسی سرخیاں اور شہ سرخیاں قلم آرائی پر مسلسل اکسائے جا رہی ہیں۔ زیر عتاب پارٹی کے اُمیدواروں نے کیسے کیسوں کو للکار ڈالا ہے‘ سرکاری خرچ پر لیڈر بننے والے ہوں یا ہینڈلنگ کے نتیجے میں سپرہٹ ہونے والے‘ سبھی ون آن ون مقابلے کے لیے انتخابی دنگل میں کود پڑے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا... گویا چاند اور ستاروں کو ذرّوں کا سامنا ہے۔ اس اکھاڑے کا منظر نامہ اس قدر دلچسپ اور ڈرامائی ہو چکا ہے کہ کئی جیت کر بھی ہارے ہوئے دکھائی دیں گے تو اکثر ہار کر بھی فاتح ہی نظر آئیں گے کیونکہ کئی مخصوص انتخابی حلقوں میں اُمیدواروں کا جوڑ اور مقابلہ حیرتوں سے دوچار کرنے کا باعث ہے۔اس ہتھ جوڑی میں زیر عتاب پارٹی کو جہاں آہنی ہاتھ کا سامنا ہے وہاں وہ سماں بھی بنتا چلا جا رہا ہے کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کے لیے نکلنے والے کہیں آسمانوں تک ہی نہ پہنچ جائیں۔ فیصلوں اور حکمت عملیوں کے جہاں انڈے بچے نکل رہے ہیں وہاں مزید چمتکار اور کرشمے ہونا ابھی باقی ہیں جبکہ سیاسی سرکس اور اکھاڑے کو مزید متنازع بنانے کا باعث بنتی سرکاری مشینیں مزید تیز اور بھاگی پھر رہی ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر دکھانے کے سبھی ریکارڈ پہلے ہی چکناچور ہیں‘ اب مزید توڑ پھوڑ کب اور کہاں کرتے ہیں اس کا اندازہ چشمِ تصور سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کہیں ماورائے آئین حکمرانی کے جابجا انبار دکھائی دیتے ہیں تو کہیں قانون اور قاعدوں سے متصادم اور تجاوز اقدامات جواز سے محروم ہیں۔
چلتے چلتے کچھ ادھر اُدھر سے بھی ہوجائے۔ قوم دو روز قبل بانی ٔپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کی چھٹی مناکر فارغ ہوئی ہے جبکہ قائد تو اپنے فرمودات میں کام کام اور بس کام کی تلقین کرتے رہے ہیں ۔ چھٹی پہ چھٹی کا تو کہیں ذکر نہیں ۔ ویسے بھی ہم نے آزاد خطہ دلوانے کا احسان تو قائد کے انتقال کے 23سال بعد ہی آدھا ملک گنوا کر اُتار دیا تھا جبکہ بقیہ مملکت ِخداداد کا بھی حشر نشر کر رہے ہیں ۔ اُدھراسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ کرسمس کے روز بھی جاری رکھا جس میں مزید 100 فلسطینی رزقِ خاک بن گئے ۔ پوپ کی اپیل بھی اسرائیل کے آگے کار گر ثابت نہ ہوسکی ۔ اسرائیل تو مسلم اُمہ کو متحد کرنے کیلئے کافی اکسا رہا ہے ‘ نو ہزار سے زائد معصوم بچوں کو بربریت اور سفاکی کا نشانہ بنا کر دردناک موت سے دوچار کرچکا ہے جبکہ غزہ کے ہزاروں مرد وزن بھی اسرائیلی وحشت کا نشانہ بن چکے ہیں‘ ان المناک اور بھیانک حالات میں بھی ایک ارب اسی کروڑ کی آبادی پر مشتمل مسلمان مٹھی بھر یہودیوں کے مقابل کھڑے ہوسکے اور نہ ہی متحد ہو پائے۔ اسرائیل تو غیرت کھا کر متحد ہونے کے روز مواقع فراہم کر رہا ہے لیکن سبھی اپنی اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی زنجیروں میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ فلسطینیوںپر ڈھائے جانے والی قیامتوں اور مظالم پر فقط نمائشی یکجہتی اور بیان بازی ہی کر سکتے ہیں ۔ان حالات پر مزید تبصروں‘ تجزیوں اور دانشوری سے دسمبر کے آخری چند دن کے ناسٹیلجیا کی خود اذیتی کہیں بہتر ہے‘ جس کی کسک کا اظہار الفاظ میں اس لیے ممکن نہیں کہ ''زندگی تیری رفتار سے ڈر لگتا ہے‘‘۔ تاہم اس خوف کے اظہار کے لیے گزشتہ برسوں کے آخری ایام میں شائع ہونے والے ناسٹیلجک کالموں سے ایک نظم مستعار لیتے ہیں۔
''کی جاناں میں کون‘‘
آخری چند دن دسمبر کے/ ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں/ خواہشوں کے نگار خانے میں/ کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں/ رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی/ ایک محفل سی دل میں سجتی ہے/ فون کی ڈائری کے صفحوں سے/ کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے/ جن سے مربوط بے نوا گھنٹی/ اب فقط میرے دل میں بجتی ہے/ کس قدر پیارے پیارے ناموں پر/ رینگتی بدنما لکیریں سی/ میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں/ دوریاں دائرے بناتی ہیں/ دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس/ مشعلیں درد کی جلاتے ہیں/ ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں/ حادثے کے مقام پر جیسے/ خون کے سوکھے نشانوں پر/ چاک کی لائنیں لگاتے ہیں/ ہر دسمبر کے آخری دن میں/ ہر برس کی طرح اب بھی/ ڈائری ایک سوال کرتی ہے/ کیا خبر اس برس کے آخر تک/ میرے ان بے چراغ صفحوں سے/ کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے/ کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں/ گردِ ماضی سے اَٹ گئے ہوں گے/ خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں/ کتنے طوفان سمٹ گئے ہوں گے/ ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں/ ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے/ رنگ کو روشنی میں کھونا ہے/ اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی/ ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے/ ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں/ ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا/ اور کچھ بے نشاں صفحوں سے/ نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا...
ایسے میں تو بس یہی خود کلامی کی جا سکتی ہے کہ ''کی جاناں میں کون...؟‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved