تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     27-12-2023

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کتاب و سنت میں

اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لیے مختلف پیغمبرانِ برحق کو مبعوث کیا‘ ان میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا مقام انتہائی بلند ہے۔ پیغمبرانِ برحق مختلف علاقوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے پیغام کو عام کرتے رہے اور توحید کی دعوت دیتے رہے۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اس عظیم فریضے کو احسن طریقے سے انجام دیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل فرمایا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نانی یعنی حضرت مریم کی والدہ کا ذکر قرانِ مجید میں بڑے احسن انداز میں فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران کی آیات 35 تا 36 میں ارشاد فرمایا: ''(وہ اس وقت بھی سن رہا تھا) جب کہا تھا عمران کی عورت نے: اے میرے رب! بے شک میں نے نذر مانی ہے تیرے حضور کہ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے وہ (تیرے نام پر) آزاد ہو گا‘ سو قبول فرما مجھ سے، بے شک تو ہے ہر بات کا سننے والا، سب کچھ جاننے والا۔ پھر جب پیدا ہوئی اس کے ہاں بچی تو بولی: اے میرے رب! میرے ہاں تو پیدا ہوئی ہے لڑکی جبکہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس نے درحقیقت کیا جنا ہے۔ اور نہیں ہے کوئی لڑکا اس لڑکی جیسا اور میں نے نام رکھا اس کا مریم اور میں پناہ میں دیتی ہوں اسے تیری اور اس کی اولاد کو بھی شیطان مردود سے (بچانے کے لیے)‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عمران کی اہلیہ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو جو اولاد دے گا، وہ اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کر دیں گی اور انہوں نے اپنی اولاد کو شیطان لعین سے بچانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ بھی طلب کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عمران کی اہلیہ کی اس دعا کو قبول فرمایا اور سیدہ مریم کو اپنی بندگی کے لیے قبول و منظور فرما لیا۔ سیدہ مریم جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر کثرت سے عبادت کرتی رہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے لیے مختلف طرح کی کرامات کو ظاہر کرنا شروع کیا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر37 میں بیان فرماتے ہیں: ''پس قبول فرما لیا اس لڑکی کو اس کے رب نے احسن طریقے سے اور پروان چڑھایا اسے بہترین انداز سے اور سرپر ست بنایا اس کا زکریا کو، جب بھی جاتے اس کے پاس زکریا محراب میں، موجود پاتے اس کے پاس کھانے پینے کا سامان، کہتیـ: اے مریم! کہاں سے آیا تیرے پاس یہ؟ یہ جواب دیتی کہ اللہ کے ہاں سے۔ بے شک اللہ رزق دیتا ہے جسے چاہے بے حساب‘‘۔
حضرت مریم کے لیے جہاں بے موسم کے پھل آتے، وہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے بطن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے پیدا فرمایا اور روح القدس کو اس خبر کے ساتھ آپ کی طرف روانہ کیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے، اس حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ سورۂ مریم کی آیات 16 تا 22 تک کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور بیان کرو حال اس کتاب میں مریم کا۔ جب کنارہ کش ہو کر وہ اپنے گھر والوں سے (معتکف ہو گئیں) مشرقی گوشہ میں۔ اور لٹکا لیا ان کی طرف پردہ۔ تو ہم نے بھیجا اس کی طرف اپنا فرشتہ اور نمودار ہوا وہ بن کر اس کے سامنے ایک پورا آدمی۔ کہا مریم نے: بے شک میں پناہ لیتی ہوں رحمن کی تجھ سے اگر تو ہے اللہ سے ڈرنے والا، اس نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ میں بھیجا ہوا ہوں تمہارے رب کا تاکہ عطا کروں تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا۔ مریم نے کہا: کیونکر ہوگا میرے ہاں لڑکا جبکہ نہیں چھوا ہے مجھے کسی آدمی نے اور نہ ہوں میں بدکار۔ اس نے کہا: ایسا ہی ہوگا، فرمایا ہے تمہارے رب نے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور یہ اس لیے کریں گے کہ بنائیں گے ہم اسے ایک نشانی انسانوں کے لیے اور رحمت اپنی طرف سے۔ اور یہ معاملہ ہے طے شدہ۔ سو حاملہ ہو گئی مریم اور چلی گئی اسی حالت میں ایک دور دراز جگہ‘‘۔
جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کی منظرکشی سورۂ مریم کی آیات 23 تا30 میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''پھر لے گیا اسے دردِ زہ ایک کھجور کے درخت کے نیچے۔ کہنے لگی: کاش میں مرجاتی اس سے پہلے ہی اور ہو جاتی بے نام و نشان! پھر پکارا اسے فرشتے نے نچلی جانب سے کہ غم نہ کرو یقینا رواں کر دیا ہے تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ۔ اور ہلائو اپنی طرف کھجور کے تنے کو تو ٹپک پڑیں گی تم پر کھجوریں پکی ہوئی۔ پس کھائو اور پیواور ٹھنڈی کرو اپنی آنکھیں، پھر اگر دیکھو تم آدمیوں میں سے کسی کو تو (اشارے سے) کہہ دو کہ بیشک میں نے نذر مانی ہے رحمن کے لیے (چپ کے) روزے کی‘ سو ہرگز نہیں بات کروں گی میں آج کسی شخص سے۔ پھر لائی وہ اس (بچے) کو اپنی قوم کے پاس گود میں اٹھائے ہوئے اور وہ کہنے لگے: اے مریم! تم نے تو کر ڈالا ہے بہت بڑا پاپ۔ اے ہارون کی بہن! نہ تھا تیرا باپ بدکار اور نہ تھی تمہاری ماں بدکار۔ پس اشارہ کیا مریم نے بچے کی طرف۔ وہ کہنے لگے: کیسے بات کریں گے ہم اس سے جو ہے گود میں ایک چھوٹا سا بچہ؟ (اس وقت وہ بچہ) بول اٹھا: بے شک میں بندہ ہوں اللہ کا۔ عطا کی ہے رب اس نے مجھے کتاب اور بنایا ہے مجھے نبی‘‘۔
قرآنِ مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے پائے جانے والے شبہات کا بڑے بھرپور انداز میں ازالہ فرمایا اور ابتدائی زمانے کے مسیحیوں کے بعد آنے والے مسیحی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کے ولادت کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہوئے‘ ان کے شکوک و شبہات کو بھی بڑے احسن انداز میں دور فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس حوالے سے سورۂ آلِ عمران کی آیات 58 تا 59 میں کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں: ''آیات ہیں ( کتابِ الٰہی کی) اور تذکرہ ہے حکمت والا۔ بے شک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں مانند ہے آدم کی مثال کے۔ پیدا کیا اسے اللہ نے مٹی سے (اور) پھر حکم دیا اسے کہ ہوجا، سو وہ ہوگیا‘‘۔
قرآنِ مجید نے جہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر کیا وہاں آپ کے معجزات اور مشن مبارک کا بھی ذ کر فرمایا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بہت سے معجزات کو قرآنِ مجید میں نقل کیا جن میں مُردوں کو زندہ کرنا، برص کے مریضوں اور کوڑھی کو ہاتھ لگنے کے بعدان کا شفایاب ہو جانا اور پرندوں کی شبیہ بنانے کے بعدان میں پھونک مارنے کے بعد ان کا زندہ پرندوں کی طرح اڑ جانا اور گھر میں کھائے گئے کھانے کے بارے میں خبر کرنا جیسے معجزات شامل ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو بھی سورۃ المائدہ میں بیان فرمایا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی دعوت عقیدۂ توحید کی دعوت تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت 72 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا کافر ہوئے وہ جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ کہا تھا مسیح نے کہ اے بنی اسرائیل! عبادت کرو اللہ کی جو رب ہے میرا بھی اور رب ہے تمہارا بھی‘ بے شک جس نے شرک کیا اللہ کے ساتھ سو حرام کر دی اللہ نے اس پر جنت اور ٹھکانہ ہے اس کا دوزخ اور نہیں ہو گا ظالموں کا کوئی مددگار‘‘۔
دعوتِ توحید کی وجہ سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بہت زیادہ مخالفت کی گئی اور آپ کو شہید کرنے کا ارادہ بھی کیا گیا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو شہید نہیں ہونے دیا بلکہ زندہ آسمانوں کی طرف اٹھا لیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۂ نساء کی آیات 157 تا 158 میں یوں بیان فرمایا ہے ''اور نہیں قتل کیا ہے انہوں نے مسیح کو یقینا، بلکہ اٹھا لیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف۔ اور ہے اللہ زبردست طاقت رکھنے والا، بڑی حکمت والا‘‘۔
مسند احمد میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام آپس میں بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے، میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا سب سے زیادہ قریبی ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے، بیشک وہ (دوبارہ) نازل ہونے والے ہیں، پس ان کو پہچان لینا، وہ معتدل قد کے آدمی ہیں، ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل ہے، ان پر ہلکے زردی (رنگ) کے دو کپڑے ہوں گے، ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو، حالانکہ نمی (پانی) نہیں ہو گا، (یعنی وہ انتہائی نظیف اور چمک دار رنگ کے نظر آ رہے ہوں گے)، پس وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کے اُس عہد میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کو ختم کر دے گا، اللہ تعالیٰ ان ہی کے زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک کرے گا، زمین پر اتنا امن و امان ہو گا کہ سانپ اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائیوں کے ساتھ اور بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چریں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں دیں گے، عیسیٰ علیہ السلام زمین میں چالیس سال قیام کریں گے، پھر وہ فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کی نمازِ جنازہ ادا کر کے ان کو دفن کریں گے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے جو قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں انہیں سمجھنے کی اور ان کو اپنے دل میں راسخ کرنے کی توفیق دے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved