جس روز بلوچستان میں گزارے چند روز کے حوالے سے کالم شائع ہوا‘ اسی روز اسلام آباد میں بلوچ خواتین کے لانگ مارچ اور دھرنے کا ایشو چل رہا تھا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر قریب ایک ماہ قبل یہ احتجاج شروع ہوا تھا۔پہلے دو ہفتوں تک مظاہرین کی جانب سے تربت میں احتجاجی دھرنا دیا گیا پھر یہ احتجاج ایک لانگ مارچ کی شکل اختیار کر گیا اور مظاہرین نے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کر دیا۔ مظاہرین کے مطابق وہ اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر دھرنا دینا چاہتے تھے جہاں پہلے بھی کچھ بلوچ افراد دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے مگر انہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، جس پر انہوں نے انتظامی افسران سے مذاکرات کرتے ہوئے انہیں باور کرایا کہ اگر انہیں اسلام آباد میں داخل ہونے اور پریس کلب جا کر دھرنا دینے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ جہاں پر موجود ہیں‘ وہیں پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے۔ افسوس کہ انتظامیہ سے ان کے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے اور مظاہرین چونگی 26 میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ رات گئے انتظامیہ نے مظاہرین کو اٹھانے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا اور متعدد افرا دکو گرفتار کر لیا۔ جب یہ مناظر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے کونے کونے تک پہنچے تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں،اور تمام طبقہ ہائے فکر کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی۔ اس دوران کئی طبقات خاص طور پر فعال نظر آئے اور دھرنے پر بیٹھے بچوں اور خواتین کو کھانا اور پانی پہنچانے کی ذمہ داری سرانجام دیتے رہے۔
جیسے جیسے دھرنا مظاہرین کی گرفتاری کی تفصیلات سامنے آئیں‘ عوامی سطح پر اضطراب میں اضافہ ہوا۔ سوال کیا جانے لگا کہ اگر پی ٹی آئی اور ڈاکٹر طاہر القادری کا مشترکہ اتحاد لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وہاں 126 دن تک دھرنا دے سکتا ہے، اگر تحریک لبیک کے لوگ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پہ کئی ہفتے تک دھرنا دے سکتے ہیں، اگر جمعیت علمائے اسلام (ف) مہنگائی کے نام پر اسلام آباد میں دھرنا دے سکتی ہے تو پھر بلوچ بیٹیوں‘ بچوں پر مشتمل چند سو افراد کے قافلے کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دینے کی اجا زت دینے میں کیا امر مانع تھا؟ یہی اسلام آباد تھا جہاں گزشتہ سال ریڈ زون میں ایک سیاسی سٹیج سجایا گیا تھا جہاں اسلحہ بردار افراد کی موجودگی پر کافی حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے تھے مگر تب انتظامیہ خود ان افراد کو تمام سہولتیں فراہم کر رہی تھی۔ دو سال قبل اسی اسلام آباد میں دو ہفتوں تک ایک سیاسی جماعت کی جانب سے دھرنا دیا گیا تھا جبکہ ایک سیاسی جماعت سندھ سے اور ایک پنجاب سے لانگ مارچ کر کے دھرنے میں شریک ہوئی تھی۔ اس وقت تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں درپیش تھا کہ اس طرح کریک ڈائون کیا جاتا۔ حکومت اور اس کے اداروں کے پاس یقینا اتنے ذرائع ہوتے ہیں کہ ان افراد کو بجائے دھکے دینے اور حوالات میں رکھنے کے‘ انہیں اچھی قسم کے گرم کیمپ فراہم کرتے، ان کے لیے چائے‘ پانی اور کھانے کا بندوبست کرتے۔ اس سے بلوچستان کے عوام سمیت دنیا بھر کو ا چھے رویے اور یکجہتی کا پیغام جاتا۔ بالفرض یہ دھرنا اگر ایک ماہ تک بھی جاری رہتا تو اس پر حکومت کا کتنا خرچہ آ جانا تھا۔ دیکھا جائے تو چند کروڑ روپے کی یہ رقم اس ہزیمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی جو آدھی رات کو شدید ٹھنڈ میں واٹر کینن کے ذریعے مظاہرین پر پانی برسا کر اور بعد ازاں انہیں حوالات میں منتقل کر کے کمائی گئی۔ نادان دوستوں کے مشوروں اور ناقص حکمت عملی نے بہت نقصان پہنچا لیا ہے ۔ اب وقت ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا کا ہے۔ اس وقت پاکستان سمیت پوری دنیا سے اس پر ردعمل آ رہا ہے۔ خود حکومت بھی اس ردعمل سے غافل نہیں ہو گی۔
سردار اختر مینگل کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکا پر تشدد اور ان کی گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ انہوں نے برملا کہا کہ نہتے اور پُرامن لوگوں پر تشدد اور ان کو گرفتار کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے سانحات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے یہ بھی اعلان کیا کہ گورنر بلوچستان اسلام آباد جا کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے شرکا کی رہائی اور بالاچ بلوچ کے قتل کے معاملے پر بات کریں گے اور اگر ان دونوں مسائل پر گورنرکی بات نہیں مانی گئی تو وہ اسلام آباد سے استعفیٰ دے کر ہی واپس آئیں گے۔ واضح رہے کہ گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی سے ہے۔
جہاں اس معاملے میں حکومت نے روایتی طاقت کا مظاہرہ کیا‘ وہیں سیاسی و صحافتی حلقوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے نہایت مثبت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاسی ورکرز اور لیڈران نے بلوچ بیٹیوں کے سروں پر چادریں پہنا کر انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا اور اس نفرت اور دوری کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جو مخصوص سوچ کے حامل عناصر نے اپنے مفادات کے تحت پھیلا رکھی ہے۔ اس حوالے سے اب بلوچستان کے مقامی رہنمائوں اور تنظیموں کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے سوا آج تک کیا کیا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بی این پی نے چھ نکات حکومت کو پیش کیے تھے جن میں سرفہرست مطالبہ لاپتا افراد کی بازیابی تھا‘ انہی چھ نکات پر اتفاقِ رائے پر بی این پی حکومتی اتحاد کا حصہ بنی تھی۔ اپریل 2022ء میں جب حکومتی اتحاد بکھرنے لگا تو بی این پی بھی حکومت سے علیحدہ ہو گئی مگر مطالبات پر کتنا عملدآمد ہوا، کون سے مسائل حل ہوئے، کتنوں پر ڈیڈلاک تھا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کو دیکھیں تو وہاں پر اپوزیشن شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ گزشتہ ایک اسمبلی تو ایسی بھی تھی کہ جس میں تمام ممبران حکومتی اتحاد کا حصہ تھے۔ اس دوران ایک ممبر نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور نتیجتاً اپوزیشن لیڈر کا آفس سنبھال لیا۔ اگر آج صوبے کے لوگ محرومی اور مسائل کا شکار ہیں تو اس میں سب سے زیادہ کردار تو انہی افراد کا ہے جو اپنے مفادات کے لیے تو اکٹھے ہو جاتے ہیں، اسلام آباد سمیت دنیا بھر سے اپنے لیے ترقیاتی فنڈز کے نام پر مال و متاع جمع کر لیتے ہیں مگر اپنے صوبے کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ جس دن گزشتہ ایک دہائی میں ترقیاتی فنڈز اور وہاں ہوئے کام کا ریکارڈ سامنے آیا، لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
نگران وزرا نے اس حوالے سے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزیراعظم نے مظاہرین سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے مظاہرین سے ملاقات کی‘ خواتین اور بچوں کی فوری رہائی کے لیے کمیٹی نے اقدامات کیے‘ مظاہرین کے دیرینہ مسائل کے حوالے سے کمیٹی اپنی سفارشات وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو ایچ نائن اور ایف نائن پارک میں جگہ دینے کی پیشکش کی گئی تھی مگر انہوں نے مسترد کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شرکائے لانگ مارچ پُرامن تھے البتہ کچھ مقامی نقاب پوش افراد نے صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کی۔وزیراعظم سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی رابطہ کیا اور اس مسئلے کو فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ گرفتار افراد رہا ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب بالاچ بلوچ کے قتل کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جا چکا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے مظاہرین کے تمام مطالبات‘ جو سراسر جائز تھے‘ تسلیم کرنے ہی تھا تو اتنا تماشا کیوں کیا گیا؟
بلوچستان کے معاملے میں حکمت و تدبر کو اولیت دینی چاہیے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ بلوچستان کا پاکستان کے باقی صوبوں سے کٹا ہوا اور جگہ جگہ سے خستہ حال راستہ جوڑنے کیلئے بلوچ بیٹیوں کے سروں پر پدرانہ شفقت کی گرم چادریں اُڑھائیں تاکہ دوریاں کم ہو سکیں، ان سے کھلے دل سے معافی مانگی جائے اور ان کا اسی طرح خیال کیا جائے جیسے ریاست ماں کو اپنے بچوں کا کرنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved