دنیا قابلیت کو مانتی ہے؟ یقینا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہمیں یہ فقیدالمثال ترقی دکھائی نہ دے رہی ہوتی۔ ہر عہد میں قابلیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ قابلیت یا اہلیت ہی دنیا کو چلاتی ہے۔ کوئی شخص دھوکا دے کر کچھ دن تو مزے کرسکتا ہے مگر قابلیت یا اہلیت نہ ہونے کی صورت میں زیادہ دن اور زیادہ دور چل نہیں سکتا۔ زندگی کا حسن بہت سی باتوں میں ہے۔ زندگی کا حسن بڑھانے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ انسان کسی نہ کسی صورت اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے پر متوجہ رہے۔ ایسی حالت میں وہ زندگی کا حق ادا کرنے کوشش کرسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر الجھنیں برقرار رہتی ہیں۔ قابلیت کا گراف بلند کرتے رہنا ہر انسان کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ قابلیت ہی کی بنیاد پر انسان کی قدر و قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ ہر آن بدلتی ہوئی دنیا میں وہی لوگ زیادہ کارگر اور زیادہ قابلِ قبول ہیں جو دن رات کچھ نہ کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے اُن کی قابلیت محض بڑھتی نہیں بلکہ ظاہر بھی ہوکر رہتی ہے۔
معاشی معاملات میں صرف قابلیت انسان کو سب کے لیے قابلِ قبول بناتی ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانیوں جیسے لوگ کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتے۔ ہر دور میں چند بنیادی قابلیتیں انسان کو چیلنج کر رہی ہوتی ہیں۔ جو لوگ اِن بنیادی قابلیتوں کے وجود کو تسلیم کرکے انہیں اپناتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔ وقت ہر انسان کے سامنے چند چیلنج رکھتا ہے۔ یہ چیلنج قبول نہ کیے جائیں تو زندگی ٹھہر سی جاتی ہے۔ زندگی یقینا اس لیے نہیں ہوتی کہ اُسے ٹھہرے ہوئے پانیوں جیسا بنادیا جائے یا بننے دیا جائے۔ ہر انسان کو اپنی قابلیت میں اضافہ کرنے کا خیال کسی نہ کسی حد تک تو رہتا ہی ہے۔ اس حوالے لوگ سوچتے ہی نہیں بلکہ عزم بھی رکھتے ہیں مگر کچھ کرنے کا عزم کرلینا کافی نہیں ہوتا۔ جو کچھ سوچا گیا ہو اسے عملی شکل دینے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ روزمرہ گفتگو میں بھی لوگ قابلیت کا لوہا مانتے ہیں مگر جب عمل کی بات آتی ہے تو جوش و خروش کا گراف نیچے آنے لگتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ارادوں میں پختگی نہیں ہوتی۔ ارادوں میں پختگی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ سوچ سمجھ کر کیے جائیں، محض جذبات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ ترقی یافتہ دنیا نے اپنے آپ کو اس قدر بلند صرف ایک صورت میں کیا ہے؛ قابلیت کا گراف بلند کرنے پر بھرپور توجہ مرکوز کرکے۔ یورپ نے کم و بیش پانچ سو برس پہلے یہ بات سمجھ لی تھی کہ معاشرے اُسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب انفرادی کارکردگی پر منحصر رہنے کے بجائے اداروں کو پروان چڑھایا جائے۔ فرد چلا جاتا ہے، ادارہ کہیں نہیں جاتا، وہ برقرار رہتا ہے۔ کسی بڑے ادارے کو اپنے سربراہ کے جانے سے مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے؛ تاہم یہ مشکلات ایک حد تک ہی دردِ سر بنتی ہیں۔ بہت جلد ادارے کو بہتر انداز سے سنبھالنے اور چلانے کے لیے لوگ سامنے آجاتے ہیں۔ یہ سفر یونہی جاری رہتا ہے۔
کوئی بھی ادارہ خود بخود چلتا نہیں رہتا، اُسے چلانا پڑتا ہے۔ اداروں کو چلانے کے لیے معیاری افرادی قوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ضرورت چونکہ مستقل نوعیت کی ہوتی ہے اس لیے اس حوالے سے کام بھی تواتر سے کرنا پڑتا ہے یعنی معیاری افرادی قوت کی تلاش کبھی نہیں رُکتی۔ ترقی یافتہ دنیا نے خاصی محنت سے افرادی قوت کی تلاش کے شعبے کو پروان چڑھایا ہے۔ کسی بھی ادارے میں ایچ آر (ہیومن ریسورسز) کے نام سے معروف شعبہ معیاری افرادی قوت کی شناخت اور انتخاب کے مرحلے سے بخوبی گزر کر ہی مجموعی استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر یہ شعبہ اپنا کام بخوبی انجام دے تو ادارے کے لیے پیش رفت یقینی بنانا آسانی سے ممکن ہو پاتا ہے۔ مغربی دنیا کی شاندار ترقی میں موزوں ترین افرادی قوت کے انتخاب اور اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی روایت کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ وہاں آج بھی کوئی ادارہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کو عجلت اور عدم توجہ سے منتخب کرکے کام پر لگائے۔ جسے بھی کام پر رکھنا ہوتا ہے اُس کے بارے میں اچھی طرح چھان پھٹک کر لی جاتی ہے تاکہ وہ ادارے پر بوجھ نہ بن سکے۔ مطلوب صلاحیت اور جوش و خروش سے محروم انسان کسی بھی ادارے پر بوجھ ہی کا درجہ رکھتا ہے۔ مغربی دنیا اس معاملے میں اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟ کارپوریٹ سیکٹر ہمارے ہاں بھی پنپ چکا ہے۔ بیشتر صنعتی، تجارتی اور مالیاتی ادارے باضابطہ ایچ آر تو رکھتے ہیں مگر اُن سے بخوبی کام لینے کی کوشش نہیں کر رہے۔ چھوٹے حجم کے بیشتر کاروباری ادارے نہ تو خود ایچ آر کے حامل ہیں نہ کسی ادارے کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معیاری افرادی قوت کی شناخت اور انتخاب انتہائی دشوار معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔
اکثر بڑے کاروباری اداروں میں بھی ایچ آر سے کماحقہٗ استفادہ نہیں کیا جارہا۔ بیشتر تقرر ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ بھرتی کا عمل غیر معمولی توجہ اور احتیاط کا طالب ہوتا ہے مگر اس حوالے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر آجر اب تک افرادی قوت کی موزونیت کے معاملے کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں میں بھی ایچ آر والے اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ آجر یا مالکان معیاری اور موزوں افرادی قوت کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ ایسا تاثر دیتے ہیں کہ یہ شعبہ زیادہ اہم ہے ہی نہیں۔ اُن کی توجہ مارکیٹ فورسز پر ہوتی ہے مگر اس بات پر نہیں کہ مارکیٹ فورسز کے مطابق کام کرنے والے بھی تو درکار ہوتے ہیں۔ پاکستان بھر میں ایچ آر کا شعبہ تو پایا جاتا ہے مگر اُس سے کماحقہٗ کام نہیں لیا جاتا اور اگر کبھی ایچ آر معیاری اور معقول طریقے سے کام کرنا چاہے تو اُس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے بھی تیزی سے سامنے آجاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں کلیدی کردار متعلقہ افرادی قوت کا ہوتا ہے۔ اگر بھرتیاں ہی غیر معیاری ہوں تو ادارے کیونکر ترقی کر پائیں گے اور کیونکر معیاری انداز سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے؟
ملک بھر میں افرادی قوت کے حوالے سے ایسا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں ادارے موزوں ترین افرادی قوت کا حصول یقینی بنانے پر متوجہ ہوں۔ یہ چونکہ سوچ بدلنے کا مرحلہ ہے اس لیے خاصا دشوار گزار ہے۔ بھرتیوں کے عمل میں عدم توجہ بلکہ لاپروائی کسی بھی اعتبار سے کوئی معقول امر نہیں۔ ہمارے ہاں آجروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قابل ترین اور موزوں ترین افرادی قوت کے بغیر ادارے پروان نہیں چڑھ سکتے۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب تک معاملات کو زبانی کلامی نمٹانے کا کلچر دم نہیں توڑ رہا۔ چھوٹے‘ بڑے تمام ہی کاروباری اداروں میں یہ کلچر اب تک موجود ہے کہ بعض غیر معمولی حیثیت کے حامل افراد طے شدہ طریقِ کار بالائے طاق رکھ کر ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کر گزرتے ہیں۔ افرادی قوت کے انتخاب اور اُسے بروئے کار لانے کے معاملے میں بھی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلے اداروں کی تباہی کا سبب ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سات عشروں سے زائد مدت سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بہت سے اداروں کو محض اس لیے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کہ اُنہیں چلانے کے لیے قابل ترین اور موزوں ترین افرادی قوت کا حصول یقینی نہیں بنایا گیا۔
آج کی دنیا روز افزوں تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ ٹیکنالوجیز کی بھرمار ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کی فقیدالمثال ترقی نے معاملات کو ایسی شکل دی ہے کہ اچھی خاصی دنیا حیرت کدے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ اداروں کو چلانے کے لیے موزوں ترین افرادی قوت کا حصول یقینی بنانے کی بھرپور کوشش نہ کی جائے مگر کیا کیجیے کہ یہی ہو رہا ہے۔ آج کم و بیش ہر شعبے کے لیے معیاری افرادی قوت موجود ہے مگر اُسے بروئے کار لانے کا کلچر پیدا نہیں ہو رہا۔ ایچ آر والے یا تو کام نہیں کرتے یا پھر اُنہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ اس کا خمیازہ ادارے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لازم ہے کہ آجر اِس معاملے میں خالص پروفیشنل طرزِ فکر و عمل کو اپنائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved