میرے پیارے ایڈیٹر! یہ خط میں آپ کے اخبار ’’ڈیلی اسٹار‘‘ ڈھاکہ کے ایڈیٹوریل\"War Crimes Trial and Failure of our Politics\" کے جواب میں لکھ رہا ہوں جو چار اکتوبر کو چھپا ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میری بات میں شاید زیادہ وزن آپ کو اس لیے محسوس نہ ہو کیونکہ ایک تو میں پاکستانی ہوں اور دوسرے بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے رکن صلاح الدین قادر چودھری‘ جنہیں ابھی جنگی ٹریبیونل نے سزائے موت سنائی ہے، کا گزشتہ پچاس برس سے دوست بھی ہوں۔صلاح الدین چودھری‘ جو متحدہ پاکستان کی آخری قومی اسمبلی کے سپیکر قادر چودھری کے بیٹے ہیں، سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ صادق پبلک سکول بہاولپور میں 1960ء کی دہائی میں داخل ہوئے اور ہمارے ساتھ بچوں کے ہوسٹل میں رہنا شروع کیا ۔ صلاح الدین چودھری پاکستان کے نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو کے کلاس فیلو تھے جب کہ مجھ سے ایک سال جونیئر کلاس میں تھے؛ تاہم ہم سب صادق پبلک سکول کے ہوسٹل میں اکٹھے رہتے تھے۔ ہماری دوستی اتنی بڑھ گئی تھی کہ صلاح الدین اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں ملتان میں ہمارے گھر میں گزارتے اور ہمارے گھر کے فیملی ممبرز کی طرح تھے۔ ہماری ماں انہیں اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتی تھیں اور آج تک کرتی ہیں۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ جب میں صلاح الدین چودھری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں تو آپ میری بات غور سے سنیں گے‘ چاہے اس سے اتفاق نہ کریں۔ اپنی بات شروع کرنے سے پہلے ہی میں اعتراف کرتا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد اس کے حکمرانوں نے مختلف علاقوں کے عوام کے ساتھ متفرق سلوک روا رکھا۔ اس ملک پر زیادہ تر سیاستدانوں اور سول ملٹری بیوروکریسی نے مل کر حکمرانی کی اور حکومت میں اپنی اپنی باریاں لیتے رہے۔ انہی فوجی اور سویلین ادوار میں پہلے بنگلہ دیش (جنرل یحییٰ خان) اور پھر بلوچستان (ذوالفقار علی بھٹو) میں فوجی آپریشن کیے گئے۔ یہ سراسر غلط اقدام تھا‘ ایسا کسی صورت نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ کام چند لوگوں نے انفرادی طور پر کیا یا یہ سب کچھ لوگوں کی مرضی سے کیا گیا‘ تاکہ ایک طاقت ور ریاست اپنے کمزور لوگوں پر مزید ظلم کر سکے؟ اس کا واضح جواب یہی ہے کہ پاکستان کے لوگوں نے کبھی اپنے بھائیوں پر ظلم کے لیے کسی حکمران کو ووٹ نہیں دیئے اور نہ ہی ظلم کی حمایت کی تھی۔ مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری بھی مغربی پاکستان کے لوگوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اسی طرح بلوچستان پر ہونے والی چڑھائی کا ذمہ دار بھی پاکستان کے لوگوں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ انہوں نے اس مقصد کے لیے کبھی ووٹ نہیں دیئے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ پاکستانی سویلین اور فوجی حکمرانوں نے بنگالیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیںکیا تو پھر بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد اس کی اپنی سول اور ملٹری حکومتوں نے اپنے لوگوں پر کیسے حکمرانی کی ؟ کیا بنگلہ دیش کے اپنے حکمران اپنے لوگوں کے ساتھ انصاف سے کام لیتے رہے؟ انہوں نے ریاست کے ذرائع کی تقسیم ایماندارانہ انداز میں کی؟ اور انہوں نے کروڑوں بنگالیوں کو بہتر انداز میں لیڈ کیا؟ کیا اس دوران ان پر اپنے ہی حکمرانوں نے ظلم نہیں کیے ؟ یہ سوال پاکستان کے عوام سے بھی کیا جا سکتا ہے جہاں 1971ء کے بعد سے اب تک گیارہ حکومتیں آچکی ہیں۔ حکمرانوں نے ایک ہی انداز میں اپنے لوگوں پر حکومت کی ہے‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی علاقے یا خطے سے ہو ۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا دس بنگالیوں کو پھانسی دینے سے آپ مطمئن ہوجائیں گے جنہیں جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرا کر سزائے موت دی گئی ہے؟ کیا اس سے ان ہزاروں خاندانوں کے سینے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی جو آپ کے اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں برباد ہوئے؟ تو پھر کیا یہ اخلاقی طور پر بہتر نہ ہوتا کہ جس رویے کا پرچار آپ اور عوامی لیگ کرتے ہیں‘ اس کے مطابق ان جنگی ’’مجرموں‘‘ کو پھانسی کی سزا سنانے سے پہلے کم از کم فیئر ٹرائل کا موقع ہی مل جاتا؟ میرے پچاس برس پرانے دوست صلاح الدین قادر چودھری پر 23 الزامات لگائے گئے جن میں نسل کشی، بلوے، ریپ اور قتل تک کے الزام شامل ہیں۔ عوامی لیگ کی حکومت نے صلاح الدین کے خلاف اکتالیس گواہ پیش کیے‘ لیکن جب دفاع کے طور پر گواہ پیش کرنے کا موقع آیا تو صرف پانچ گواہ پیش ہوئے۔ پاکستان سے چار قابل اعتماد گواہان‘ جن میں‘ میں بھی شامل تھا‘ نے پاکستان سے جا کر صلاح الدین کے حق میں گواہی دینے کی درخواست کی تاکہ عدالت کو بتا سکیں کہ جس دور کے یہ الزامات ہیں اس دور میں صلاح الدین کراچی میں تھا اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے (اپریل سے ستمبر 1971ء)۔ اس کے باوجود ٹریبیونل نے ان چار پاکستانی گواہوں کے سمن جاری کرنے سے انکار کر دیا اور یوں صلاح الدین کے حق میں پاکستانی آوازوں کو بنگلہ دیش کا ویزہ تک نہ دیا گیا تاکہ وہ عدالت میں جا کر صلاح الدین کی بے گناہی کا ثبوت دے سکیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے لیے بہت بڑا موقع تھا کہ وہ پاکستان سے آنے والے ان چار گواہوں سے کھل کر سوال و جواب کرتے اور ان کے بیان حلفی کی ’’دھجیاں‘‘ اُڑا کر رکھ دیتے جو عدالت میں جمع کرائی گئی تھیںاور ثابت کرتے کہ ہم چاروں نے صلاح الدین کی جان بچانے کے لیے جھوٹے بیان حلفی جمع کرائے تھے۔ چار پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کے جنگی ٹریبیونل کے سامنے پیش ہونے کی اجازت دے کر یہ ٹریبیونل دنیا بھر میں عزت کماتا اور بنگالیوں کی آنکھوں میں بھی اس کی توقیر بڑھتی‘ مگر اس معاملے میں بھی پراسیکیوشن نے عدالت کو گمراہ کیا جیسے کہ پورے ٹرائل میں کیا گیا۔ پراسیکیوشن یہ بات بھی بھول گیا کہ صلاح الدین چودھری کے تین بھائی ہیں لیکن کسی اور بھائی پر بنگالیوں کی نسل کشی کا الزام نہیں لگا اور یوں سارا بوجھ بڑے بھائی صلاح الدین چودھری پر ہی آن پڑا کہ وہ اکیلے ہی بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کو کچلتے اور روندتے رہے۔ وہی صلاح الدین چودھری‘ جسے پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں پھانسی سنائی گئی ہے‘ چٹاگانگ سے چھ مرتبہ پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا ہے اور وہ حسینہ واجد کا سخت مخالف سمجھا جاتا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ حسینہ واجد کو اپنے دوسرے دورِ حکومت میں اچانک یہ خبرملی ہے کہ 1971ء میں بنگالیوں کی نسل کشی کی گئی تھی۔ اس راز کو پانے کے لیے حسینہ واجد کو چالیس برس سے زیادہ عرصہ لگ گیا اور وہ بھی تب کھلا‘ جب انہیں دوسری دفعہ حکومت ملی۔ شیخ مجیب‘ جو بنگلہ دیش کے بانی تھے‘ نے کبھی کوئی ٹریبیونل بنا کر کسی کو سزا دینے کا سوچا تک نہیں تھا‘ کیونکہ بنگلہ دیش کے بانی کو علم تھا کہ انہوں نے بے پناہ قربانیوں کے بعد ایک ملک حاصل کیا تھا اور انہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ماضی میں رکنے کی بجائے آگے بڑھنا تھا۔ اپنے بانی قائد کے فیصلے اور سوچ کے برعکس آج کی عوامی لیگ بنگالی معاشرے کو بری طرح تقسیم کر رہی ہے جس سے آزادی کے 42 برس بعد بھی بنگلہ دیش میں پولرائزیشن بڑھے گی اور بنگالی معاشرہ مزید تقسیم ہوگا۔ ٹھنڈے دل سے میری معروضات پر غور کیجیے۔ آپ کا مخلص! اسحاق خان خاکوانی سابق ایم این اے اور سابق وزیر حکومت پاکستان
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved