تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     28-12-2023

وہ جو مشرق و مغرب میں کمزور ترین تھے

پے در پے کئی غیرملکی اخبارات میں ایک ہی موضوع پر وہ خبریں اور مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں واضح طور پر غزہ میں اسرائیلی شکست بیان کی گئی ہے۔ ان میں اسرائیلی میڈیا بھی شامل ہے۔ چیختی چنگھاڑتی سرخیاں کئی طرح کی ہیں: ''اسرائیل یہ جنگ ہار رہا ہے‘‘۔ ''اسرائیل غزہ میں جنگ جیت نہیں رہا ہے‘‘۔ ''آئی ڈی ایف کیچڑ اور دلدل میں پھنس گئی ہے‘‘۔ کئی ناموں میں ایک بڑا نام معروف برطانوی اخبار گارڈین کا بھی ہے۔ یہ اس لیے بہت اہم ہے کہ مغربی میڈیا تاریخی طور پر اسرائیل کی مسلسل اور غیرمشروط حمایت کرتا رہا ہے۔ اسرائیل کی فوجی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا رہا ہے اور اس کے شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں کو نہایت ہمدردانہ انداز میں پیش کرتا رہا ہے۔ اب اگر یہی میڈیا حالیہ جنگ کے ڈھائی ماہ بعد یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ اسرائیل شکست کھا رہا ہے تو اندازہ کر لیں کہ یہ ناکامی کتنی بڑی ناکامی ہے۔ اور اس کی کتنی جہات ہیں۔ سیاہ کو سفید اور کھلے ظلم اور بے انصافی کو عین عدل اور انصاف کہنے والے اگر اس لمحے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اسرائیل بین الاقوامی طور پر بھی تنہا ہو گیا ہے اور اسے اپنے اہداف میں ناکامی کا بھی سامنا ہے تو باور کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے مقتدر حلقوں میں اس وقت کیا کہرام برپا ہو گا۔ اور اسی سے اس کے سہولت کاروں پر گزرتی قیامت کا بھی اندازہ کر لیں۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ اکتوبر میں جب غزہ پر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ چڑھائی کی گئی تھی تو اس وقت کیا اہداف بیان کیے گئے تھے اور کیا دعوے دنیا کے سامنے آئے تھے۔ حما س کو تہس نہس کر دینا۔ اس کے جنگجوؤں کو مکمل نیست و نابود کر دینا۔ ان کے جنگی طریقوں خاص طور پر سرنگوں کا نظام تباہ کر دینا۔ وغیرہ۔ لگ بھگ تین ماہ بعد یہ دعوے اور یہ مقاصد غزہ کی خاک میں اوندھے منہ پڑے ہوئے ہیں۔
جمعرات 21دسمبر کو بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریطس پال روجرز کا ایک مضمون گارڈین نے شائع کیا ہے جس کی سرخی یہ ہے ''اسرائیل جنگ ہار رہا ہے لیکن نیتن یاہو اور اس کی حکومت کبھی اعتراف نہیں کریں گے‘‘۔ اس سرخی اور مضمون کے مندرجات پر مزید بات کرنے سے پہلے 24دسمبر کا نیتن یاہو کا وہ اعتراف بھی جان لینا چاہیے جو عالمی میڈیا نے جلی سرخیوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق نیتن یاہو نے کہا کہ ''اسرائیل اس جنگ میں بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ ہفتے کا دن بہت ہی سخت تھا جس میں پندرہ اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ اور اسرائیلی حکومت کے مطابق مارے جانے والوں کی کل تعداد 154ہو گئی‘‘۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ''میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ جنگ طویل ہوگی‘‘۔ اگرچہ اسرئیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ہم جنگ جاری رکھیں گے کیونکہ کوئی اور راستہ نہیں ہے لیکن اس کی طرف سے پہلی بار یہ کھلا اعتراف بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اعتراف اس دباؤکو بھی بیان کرتا ہے جو اس وقت نیتن یاہو حکومت کو درپیش ہے۔ وہ اسرائیلی بیانیہ جو دنیا کے سامنے آتا رہا ہے‘ اس کی مزید تائید نہیں کی جا سکتی۔ اب تک اسرائیلی بیانیہ یہی رہا ہے کہ اس نے حماس کو نہایت کمزور کر دیا ہے۔ شمالی غزہ میں لڑائی ختم ہو چکی ہے اور جنوبی غزہ بھی اب چند دن کی بات ہے۔ حماس کے ہزاروں جنگجو مارے گئے ہیں وغیرہ۔ بیانیہ اب تک کیوں چلتا رہا ہے‘ اس کی وجہ صحافیوں کی مشکلات ہیں۔ وہ صحافی جو زندگی داؤ پر لگا کر اس وقت غزہ کی پٹی میں موجود ہیں‘ اسرائیلی بیانیے کو دہرانے پر مجبور ہیں کیونکہ یا تو وہ بمباری کی زد میں ہیں یا آمد و رفت کی سہولت سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے اطراف میں بمباری یا تباہی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور غزہ کے دیگر علاقوں میں کیا صورتحال ہے‘ وہ جاننے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف وہ صحافی جو یروشلم میں موجود ہیں‘ ان کی خبروں کا انحصار اسرائیلی ڈیفنس فورسزکے ذرائع پر ہے چنانچہ ہر دو طریقے سے اسرائیلی بیانیہ ہی دنیا کے سامنے پہنچتا رہا ہے۔ لیکن اب اس بیانیے میں مسلسل شگاف پڑ رہے ہیں۔ کئی واقعات مسلسل ایسے ہوئے ہیں جن سے اسرائیلی جھوٹ سامنے آیا ہے۔ اسرائیل شمالی غزہ میں الشفا ہسپتال کے نیچے حماس کے ہیڈ کوارٹرز ہونے کا دعویٰ ثابت نہیں کر سکا۔ 12دسمبر کو شمالی غزہ کے ایک ایسے علاقے میں جسے اسرائیلی کنٹرول میں بتایا جاتا تھا‘ اسرائیلی فوجی یونٹ پر ایک کامیاب شب خون کارروائی کی گئی۔ کمک کو بھیجے جانے والے مزید سپاہی بھی اسی شب خون کا شکار ہوئے۔ ہلاک ہونے والے معروف گولانی بریگیڈ کے فوجی تھے اور اہم تر یہ کہ ان میں ایک یہودی کرنل یتزاک بن باسات‘ لیفٹیننٹ کرنل تومیر گرن برگ اور تین میجر شامل تھے۔ ہلاکتوں کی کم از کم تعداد نو ہے لیکن حماس کا دعویٰ زیادہ ہلاکتوں کا ہے۔ اگر حماس کو شمالی غزہ سے ختم کردیا گیا ہے تو یہ کارروائیاں کیسے ہو رہی ہیں؟ ایک اور معاملے نے نیتن یاہو حکومت کے لیے بہت مشکل پیدا کر دی ہے۔ شجاعیہ غزہ کے علاقے میں تین اسرائیلی یرغمالی کسی طرح حماس کی قید سے رہا ہوکر اسرائیلی فوجیوں کے قریب پہنچے۔ وہ عبرانی میں مدد کے لیے پکار رہے تھے اور اپنی شناخت کے لیے قمیصیں اتارے ہوئے تھے اور سفید کپڑا لہرا رہے تھے۔ لیکن اسرائیلی فوجیوں نے انہیں خطرہ سمجھتے ہوئے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ بعد ازاں ان کی شناخت یوتم ہائم‘ سمر تلالکا‘ الون شمریز کے ناموں سے ہوئی‘ جو اسرائیلی شہری تھے۔
اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد بھی سوالیہ نشان ہے۔ کچھ دن قبل اسرائیلی روزنامے یدی اوتھ (Yedioth) نے اسرائیلی وزارتِ دفاع کے شعبے ''فوجیوں کی بحالی‘‘ کے اعداد و شمار کے حوالے سے اطلاعات دی تھیں۔ شعبۂ بحالی کی سربراہ لیمور لوریا نے کہا تھا کہ جنگ کے بعد اب تک دو ہزار سے زیادہ اسرائیلی فوجی رجسٹر کیے گئے ہیں جن میں اٹھاون فیصد شدید مجروح ہیں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد سرکاری بیان کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ نیز ٹائمزآف اسرائیل نے فوجیوں‘ پولیس اور سکیورٹی کے عہدے داروں کے زخمیوں کی تعداد 6125ذکر کی ہے۔ اتنی بڑی تعداد خود بتا رہی ہے کہ اصل ہلاکتیں کہیں زیادہ ہیں۔ مصنف پاؤل روجرز مضمون میں اصل ہلاکتیں نہیں بتاتے لیکن بہرحال ان کا مضمون بتاتا ہے کہ وہ اسرائیلی بیان کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔
تو ہلاک شدہ اسرائیلی فوجیوں کی اصل تعداد ہے کیا؟ اسرائیلی بیان تو ہم دیکھ چکے۔ اب حماس کے بیان کی طرف چلتے ہیں۔ ان کے ایک ترجمان کے مطابق 720اسرائیلی گاڑیاں تباہ کی جا چکی ہیں۔ نمر نامی اسرائیلی ٹینک میں بارہ اور دیگر ٹینکوں میں دس فوجی بیٹھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہلاک فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی اوپر بننی چاہیے۔ کیا کسی طرح بھی اس تعداد کی مطابقت 154عدد سے بنتی ہے جو اسرائیلی سرکاری تعداد ہے؟
ذرا ہندوستان ٹائمز کی 26دسمبر کی وڈیو رپورٹ اور خبر بھی دیکھ لیجئے جو اس نے سابقہ آئی ڈی ایف سربراہ ڈین ہالوٹز کے حوالے سے لگائی ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز اسرائیلی فوج کا نام ہے۔ ڈین ہالوٹز کہتا ہے کہ اسرائیل نے حماس کے سامنے اپنی جنگ ہار دی ہے اور یہ بنجمن نیتن یاہو کی غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ نیتن یاہو مستعفی ہو۔
21ہزار فلسطینیوں کے بے رحمانہ قتل کے بعد‘ جن میں نو ہزار بچے ہیں‘ شمال سے جنوب تک غزہ کی ہر اہم عمارت مسمار کر دینے کے بعد مہیب ترین جنگی طاقتیں حیران کھڑی ہیں کہ اب وہ کیا کریں۔ اب ان کے پاس وہی کچھ کرتے رہنے کے سوا کیا راستہ ہے جو وہ تین ماہ سے کرتے چلے آرہے ہیں اور جسے فتح کہنا ممکن نہیں ہے۔
قرآن کریم کی آیت یاد کیجئے ''اور ہم نے ان کا وارث بنا دیا اس قوم کو جو زمین کے مشرق و مغرب میں کمزور ترین تھی‘‘(الاعراف)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved