انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے حد و بے حساب ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو تو اُن کا شمار نہیں کر سکو گے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے‘‘ (النحل: 18)۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: انسان کے ہر ہر جوڑ پر صدقہ (شکرِ نعمت) واجب ہے، ہر وہ دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے، کوئی لوگوں کے درمیان انصاف کرے تو یہ بھی صدقہ ہے (باعثِ اجر ہے)‘‘ (صحیح بخاری:2707)۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ انسان کے جسم و جاں کا خالق و مالک ہے اور انسان جب اپنے جسم کو استعمال کرتا ہے، اٹھتا بیٹھتا ہے، چلتا پھرتا ہے، کام کاج کرتا ہے، تو اُس کے جسم کے یہ تین سو ساٹھ جوڑ کام کرتے ہیں، ورنہ یہی وجود ہے کہ جب انسان مفلوج (Paralyzed) ہو جائے، تو لکڑی کے شہتیر کی طرح ہو جاتا ہے، حرکت کے قابل نہیں رہتا، خود اپنی حاجات پوری نہیں کر سکتا۔ اگرچہ سانس آتی جاتی رہتی ہے، تو بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان ایک بار حرکت کرے تو تین سو ساٹھ بار اللہ کا شکر ادا کرے۔ کسی صاحبِ نظر نے کہا ہے: اگر انسان روزانہ فرض، واجب، سنن مؤکدہ و غیر مؤکدہ کو ملا کر چالیس رکعات پڑھے اور ان میں اپنے تندرست وتوانا وجود کا شکر بجا لانے کی بھی نیت کرے، تو ایک رکعت کے رکوع اور سجود میں نو تسبیحات پڑھنا سنت ہے اور اس طرح کل تین سو ساٹھ تسبیحات بن جائیں گی اور یہ تشکرِ نعمتِ باری تعالیٰ کی بہترین صورت ہو گی۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بعض (فقرائے) صحابۂ کرام نے رسول اللہﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! مال دار لوگ (ثواب کمانے میں) ہم سے سبقت لے گئے، کیونکہ وہ ہماری طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں اور (اللہ نے انہیں جو) زیادہ مال کی نعمت دی ہے، اُس میں سے صدقہ بھی کرتے ہیں (اور اجر پاتے ہیں)، رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا اللہ نے تمہارے لیے تصدُّق (اجر کمانے) کی صورتیں مقدر نہیں فرمائیں، ہر بار سبحان اللہ کہنے پر اجر ہے، اللہ اکبر کہنے پر اجر ہے، الحمدللہ کہنے پر اجر ہے، لا الٰہ الا اللہ کہنے پر اجر ہے، نیکی کا حکم دینے پر اجر ہے اور برائی سے روکنے پر اجر ہے اور (حلال طریقے سے) نفسانی خواہش کو پورا کرنے پر اجر ہے۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ایک شخص (ازدواجی تعلقات میں) اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرتا ہے، اس میں بھی اُس کے لیے اجر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: مجھے بتائو! اگر وہ حرام طریقے سے اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرتا تو اُس پر گناہ ہوتا، پس اگر وہ حلال طریقے سے (یعنی نکاح کا رشتہ قائم کر کے) اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرے گا تو یقینا اس پر بھی اُسے اجر ملے گا‘‘ (صحیح مسلم: 1006)۔ الغرض چونکہ صدقہ باعثِ اجر ہے، اس لیے جن باتوں پر اجر ملتا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی صدقے سے تعبیر فرمایا ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا حق معاف کرنے کو بھی ''تصدُّق‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے؛ چنانچہ المائدہ: 45 میں قصاص کا تفصیلی حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا: ''پس جو شخص اپنا حقِ قصاص معاف کر دے، تو یہ اُس کے گناہوں کا کفارہ ہے‘‘۔ اسی حقیقت کو سمجھانے کے لیے شیخ سعدی لکھتے ہیں:
(24) ''اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس کی فرمانبرداری اُس کی ذات سے قربت کا سبب ہے اور اُس کا شکر ادا کرنا مزید نعمت کا سبب ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا: ''اور اگر تم (میری نعمتوں کا) شکر ادا کرو گے تو میں (اُن نعمتوں میں) اضافہ کروں گا‘‘ (ابراہیم: 14)، نیز فرمایا: ''اور جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے شکر ادا کرتا ہے‘‘ (لقمان: 12)۔
شیخ سعدی لکھتے ہیں: (مفہومی ترجمہ:) ہر سانس جو وجود کے اندر آتی ہے، اُس سے زندگی میں ایک سانس کا اضافہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر سانس پلٹ کر نہ آئے تو موت واقع ہو جائے اور ہر سانس جو وجود سے باہر آتی ہے، اُس سے نفس کو فرحت ملتی ہے، ورنہ انسان دم گھٹنے سے مر جائے، یعنی ہر سانس میں اللہ کی دو نعمتیں ہوتی ہیں اور ہر نعمت پر شکر واجب ہے تو لازم ہے کہ انسان ہر آنے جانے والی سانس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، اگر انسان صرف سانسوں کا شکر ادا کرنے بیٹھ جائے تو کسی اور کام کی فرصت بھی نہ ملے، شیخ سعدی فرماتے ہیں:
از دست وزبان کہ بر آید
کز عُہدۂ شکرش بدرآید
مفہومی ترجمہ: ''کسی کے ہاتھ اور زبان سے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کماحقہٗ شکر ادا کر سکے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے آلِ دائود! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں‘‘ (سبا: 13)۔ مفسرین نے لکھا ہے: ''یہ حکم نازل ہونے پرحضرت دائود علیہ السلام نے یہ معمول بنا لیا کہ ان کے گھرانے میں ہر وقت کوئی نہ کوئی عبادت اور ذکر و فکر میں مشغول ہو، مگر یہ اہتمام کرنے کے باوجود انہوں نے دل ہی دل میں کہا: ''اے اللہ! یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی تیرے شکر کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ توفیقِ شکر بھی تو ہی عطا فرماتا ہے‘‘، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا: ''اَلْآنَ شَکَرْتَنِیْ‘‘ (ا ے دائود! جب تم نے سمجھ لیا کہ میرے شکر کا حق ادا کرنا بندے کے لیے ممکن ہی نہیں ہے، تو تُو نے حقِ شکر ادا کر دیا)‘‘۔
(25) شیخ سعدی لکھتے ہیں:
بندہ ہماں بہ کہ زتقصیر خویش
عذر بہ درگاہِ خدا آورد
ورنہ سزاوارِ خداوندیش
کس نہ تواند کہ بجا آورد
مفہومی ترجمہ: ''بندہ وہی ہے کہ جو اپنی خطائوں پر ربِ کریم کی بارگاہ میں عذر پیش کرتا رہے، یعنی استغفار کرتا رہے، ورنہ کسی کے بس میں نہیں کہ اللہ کے شکر کا حق ادا کر سکے‘‘۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ کی بارانِ رحمت ہر ایک تک بے حساب پہنچتی ہے اور زمین پر پھیلے ہوئے اُس کے خوانِ نعمت کا فیض ہر ایک تک پہنچتا ہے، اللہ تعالیٰ کبیرہ گناہوں کے باوجود اپنے بندوں کی پردہ دری نہیں فرماتا اور کسی کی بڑی خطا پر بھی اس کو روزی سے محروم نہیں فرماتا‘‘۔ وہ لکھتے ہیں:
اے کریمے! کہ از خزانۂ غیب
گبر و ترسا وظیفہ خورداری
دوستاں را کُجا کنی محروم
تو کہ بادشمناں نظر داری
مفہومی ترجمہ: ''اے کرم فرمانے والے! تیرے غیب کے خزانے سے بت پرست، آتش پرست اور مسیحی مذہب کے ماننے والے بھی اپنا حصہ پاتے ہیں، تو اپنے محبوب بندوں کو کیونکر محروم رکھے گا جبکہ تو دشمنوں پر بھی نظرِ کرم رکھتا ہے‘‘۔
(26) شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''ایک صاحبِ دل مراقبہ میں گم اور مکاشفہ کے سمندر میں غوطہ زن تھے، وہ اس حال سے باہر آئے تو اُن کے ایک عقیدت مند نے کہا: (شیخ!) آپ جس باغ میں سیر کر رہے تھے، اُس میں سے میرے لیے کیا تحفہ لائے، اُس صاحب دل نے کہا: میرے دل میں خیال آیا کہ درخت کے پھولوں سے اپنا دامن بھر لوں اور اپنے دوستوں کو تحفے میں دوں، لیکن جب میں وہاں پہنچا تو اُن پھولوں کی خوشبو نے مجھے اتنا مست کر دیا کہ ہاتھ سے دامن ہی چھوٹ گیا‘‘۔ پھر وہ صبح کی اذان دینے والے مرغ کو مخاطَب کر کے لکھتے ہیں: ''اے سحری کے وقت بانگ دینے والے مرغ! تم عشق پروانے سے سیکھو، کہ اُس کی جان (آگ میں جل کر) قربان ہو جاتی ہے، مگر آواز نہیں آتی، اُس کے عشق کے یہ دعویدار بے خبر ہیں، کیونکہ جسے لذتِ عشق نصیب ہو جائے، پھر اُس کی خبر نہیں آتی (یعنی وہ اپنے محبوبِ حقیقی میں فنا ہو جاتا ہے، یعنی فنا فی اللہ ہو جاتا ہے)۔
(27)شیخ سعدی لکھتے ہیں: ''ایک بزرگ سے میں نے پوچھا: اس حدیث کے معنی کیا ہیں: ''تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا وہ نفس ہے جو تمہارے دو پہلوئوں کے درمیان ہے‘‘ (اَلزُّہْدُ الْکَبِیْر لِلْبَیْہَقِی: 343)، انہوں نے کہا: ''اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دشمن پر آپ احسان کریں، تو وہ بھی دوست بن جاتا ہے، مگر نفسِ انسانی ایسا (خطرناک) دشمن ہے کہ اُس پر جتنا احسان اور خاطر تواضع کرو گے، وہ اتنی ہی تمہاری مخالفت کرے گا‘‘۔ یہاں انہوں نے ایک قطعہ لکھا ہے:
فرشتہ خُو شود آدمی بکم خوردن
وگر خورد چوبہائم بیوفتد چو جماد
مرا د ہر کہ برآری مطیع امر توگشت
خلافِ نفس کہ فرماں دہد چویافت مراد
مفہومی ترجمہ: ''انسان خوراک کم رکھنے سے فرشتہ خصلت بن جاتا ہے، ورنہ اگر چوپایوں کی طرح بسیار خور بن جائے تو پتھر کی طرح بے حس و بے حرکت ہو جاتا ہے، (عام قاعدہ یہ ہے کہ) تم جس کی مراد پوری کرو، وہ تمہارا مطیع و فرمانبردار بن جاتا ہے، لیکن نفس انسانی کا دستور اس کے برعکس ہے کہ جتنا اُس کے مطالبات پورے کرو گے، اتنا ہی وہ حاکم بن کر تم پر مسلط ہو جاتا ہے‘‘۔ اسی کو قرآنِ کریم میں ''نفسِ اَمّارہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
(28) شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ''لقمان حکیم سے کسی نے پوچھا: آپ نے ادب کہاں سے حاصل کیا ہے، انہوں نے کہا: میں نے ادب، بے ادبوں سے حاصل کیا ہے، اُن کی جو حرکت میری نظر میں ناپسندیدہ ہوتی ہے، میں اس سے پرہیز کرتا ہوں‘‘۔ کہا جاتا ہے: کسی نے لقمان سے کہا: '' تم کتنے بدصورت ہو‘‘، انہوں نے کہا: ''تم نقش میں عیب نکال رہے ہو یا نقّاش میں‘‘، یعنی جزا و سزا کا مدار انسان کے اُن اعمال و احوال پر ہے، جو اُس کے اختیار میں ہوں، لیکن انسان کی جو چیزیں اُس کے اختیار میں نہیں ہیں، اُن پر جزا و سزا بھی نہیں ہو گی، جیسے کسی شخص کا بدصورت ہونا، سیاہ فام ہونا، ناقص العقل ہونا، کامل الخلقت نہ ہونا، وجود میں کسی جسمانی عیب کا ہونا، کسی ایسی مرض کا لاحق ہونا جو لوگوں کے نزدیک باعثِ کراہت ہو، وغیرہ۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved