کسی بھی انسان میں حساسیت کس حد تک ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہر شخص اپنی فکری صلاحیت، رجحان، مشاہدے اور حالات کی روشنی میں دینا پسند کرے گا۔ کسی سے پوچھئے کہ زندگی کے بنیادی تقاضوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے تو جواب میں بہت کچھ سننے کو مل سکتا ہے کیونکہ زندگی کے بنیادی تقاضے چند جملوں میں بیان نہیں کیے جاسکتے۔ کون ہے جس کے مشاہدے میں بہت کچھ نہیں آتا اور کون ہے جو سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا؟ سوچنے سے گریز الگ بات ہے مگر خیر‘ اس معاملے میں انسان زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ سوچنے سے مکمل گریز زندگی کے پورے ڈھانچے کو تہس نہس کردیتا ہے۔ زندگی ہمیں اُس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ہر طرف آسانیاں ہیں اور اُن کے پہلو بہ پہلو مشکلات بھی ہیں۔ اب کوئی بھی معاملہ مکمل آسان یا مکمل مشکل نہیں رہا۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کے لیے انسان کو جو کچھ بھی کرنا تھا وہ کیا جاچکا ہے۔ کسی بھی معاملے میں انسان کو محنت یا مشقت سے بچانے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوسکتا ہے وہ آسانی سے دستیاب ہے۔ اگر کوئی اُس سے مستفید نہ ہونا چاہے تو بات اور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی کتنا ہی ناشکرا ہو، دل ہی دل میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہے کہ قدرت نے اُسے اِس دور کے نصیب میں لکھ کر ایک احسانِ عظیم کیا ہے۔ سوال صرف سمجھنے اور احسان ماننے کا ہے۔ ہمیں اِس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُس نے ہمیں ایک ایسے عہد کے دامن میں ڈالا ہے جو روئے ارض پر گزرے ہوئے تمام زمانوں کی تحقیق و ترقی اور فکر و عمل کا نچوڑ ہے‘ حاصل ہے۔ جو کچھ بھی انسان کی خواہشوں اور امیدوں کا حصہ ہوا کرتا تھا وہ سب کچھ اب حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہے۔
کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، جب تک اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متوازن نہیں رکھے گا تب تک بھرپور اور پُرلطف زندگی بسر کرنے کے قابل نہ ہو سکے گا۔ پُرمسرت زندگی ہر اُس انسان کے لیے ہے جو زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے معاملے میں سنجیدگی کو اپناتا ہے اور خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اِس دنیا کی رنگینی اور افادیت بڑھانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ بات ہو رہی ہے زندگی کے پہلوؤں کی۔ کہنے کو تو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر براہِ راست اور سادہ الفاظ میں کہیے تو زندگی کے اصلاً صرف دو پہلو ہیں: مادّی اور غیر مادّی۔ ایک تو وہ دنیا ہے جس کا ہم حصہ ہیں یعنی ہمارے ارد گرد موجود تمام لوگ اور چیزیں۔ اور دوسری دنیا وہ ہے جو ہمارے دل و دماغ میں آباد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اندر ایک نہیں‘ کئی دنیائیں لیے پھرتا ہے۔ ماضی کو حافظے سے کھرچنا تقریباً ناممکن ہے۔ ماضی بھی تو ایک دنیا ہی ہے۔ ہم اِس دنیا میں بار بار جاتے ہیں اور پھر موجودہ دنیا میں واپس آتے ہیں۔ ایک دنیا وہ ہے جو ہماری خواہشات اور امیدوں میں بسی ہوئی ہے۔ ہر انسان کے دل و دماغ میں خواہشات‘ توقعات اور امیدوں کی دنیا بھی بسی ہوئی رہتی ہے۔ یہ آنے والے دور کا معاملہ ہے یعنی جو دنیا ابھی حقیقت نہیں بنی وہ بھی ہمارے ذہن کا حصہ رہتی ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی انسان کو مکمل طور پر سمجھنا کس قدر پیچیدہ عمل ہوسکتا ہے۔
آج کا انسان بہت سے ایسے معاملات میں الجھا ہوا ہے جن کا گزرے ہوئے زمانوں کے لوگوں کو خفیف سا بھی اندازہ نہیں تھا۔ زندگی ہر دور میں پیچیدہ رہی ہے مگر ایسی پیچیدگی تو کبھی دیکھی نہ سُنی۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی الجھن نمودار ہوکر انسان کا پیچھا کرنے لگتی ہے۔ ذہن پر بڑھتا ہوا دباؤ ماحول کو کچھ کا کچھ کر رہا ہے۔ تیزی سے پیچیدہ ہوتی ہوئی زندگی انسان سے بہت کچھ چاہتی ہے۔ آج کی زندگی سر تا سر للکار ہے، چیلنج ہے۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی، چھوٹا یا بڑا، چیلنج ہمارا ''خیر مقدم‘‘ کرنے کو بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ اپنے آپ کو آزمائش سے گزارنے کے لیے ہمیں تیار رہنا پڑتا ہے۔ جو لوگ آزمائش سے گزرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اُن کا حال بھی ہم نے دیکھا ہے، اُن کے انجام سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ ایسے میں بہترین آپشن صرف یہ ہے کہ انسان زندگی کے تقاضے نبھانے کے معاملے میں سنجیدہ ہو اور اس حوالے سے محنت بھی کرے۔ زندگی کے مادّی اور غیر مادّی پہلوؤں کے مابین توازن برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہر انسان پر اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح سامنے آتے ہوئے درندے سے بچنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اپنے آپ کو بچانے کا کچھ نہ کچھ سامان کرنا پڑتا ہے۔ آج کا انسان ایک طرف مادّی اعتبار سے انتہائی مستحکم زندگی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ کسی بھی انسان کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوسکتا ہے اُس کا حصول کچھ مشکل نہیں۔ سوال جسم سے زیادہ روح کا ہے۔ ظاہر کو سب کچھ مل چکا ہے۔ باطن ترس رہا ہے۔ باطن کے بارے میں سوچنے والے خال خال ہیں۔ کسی بھی معاشرے کا عام آدمی اِس گمان ہی میں مبتلا رہتا ہے جو کچھ دکھائی دے رہا ہے بس وہی سب کچھ ہے۔ خالص مادّہ پرست سوچ انسان کو باور کراتی رہتی ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے اِس لیے اِس کے جتنے بھی مزے لُوٹ سکتا ہے لُوٹ لے کیونکہ یہ دنیا پھر نہیں ملنے والی اور یہ کہ اِس دنیا سے ہٹ کر کوئی دنیا نہیں ہے!
اب سوال یہ ہے کہ انسان کرے تو کیا کرے۔ زندگی کو کس طور متوازن اور پُرمسرت بنایا جاسکتا ہے؟ ماننے والی بات تو یہ ہے کہ اب مجموعی طور پر خوش رہنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ہر وقت خوش رہے تو ایسا ممکن نہیں۔ ہر معاملے سے بے نیاز ہوکر جینے کو خوشی خوشی جینے کا بہترین طریقہ یا انداز سمجھنے والے محض نادان ہیں۔ یہ تو ذمہ داریوں سے فرار کا معاملہ ہوا۔ حقیقی خوشی اُس کیفیت کا نام ہے جو اپنی تمام یا بیشتر بڑی ذمہ داریوں سے بخوبی نپٹنے پر انسان کو محسوس ہوتی ہے۔ یہ آپشن سب کے لیے ہے۔ اگر کوئی شدید عدم توجہ اور بے نیازی کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے تو اپنے وجود پر ظلم ڈھاتا ہے۔ آج کی پیچیدہ زندگی سے نظر نہ چُرانا بنیادی عمل ہے۔ یہ عمل ہمیں زندگی کے حُسن سے متعارف کراتا ہے۔
ہم نے بات حساسیت سے شروع کی تھی۔ بہت سوں کے نزدیک پُرسکون زندگی بسر کرنے کی بہترین تدبیر اور ترکیب یہ ہوسکتی ہے کہ انسان کسی بھی معاملے کو بالکل اہمیت نہ دے‘ محسوس ہی نہ کرے۔ یہ طرزِ فکر و عمل بہت اچھی اور کارگر دکھائی دیتی ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ ہر معاملے میں احساس سے عاری انسان انسانیت کے معیار سے گر جاتا ہے۔ آپ نے اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاملے پر دھیان نہ دینا ہی بہترین طرزِ فکر و عمل ہے۔ اِس کے برعکس کچھ لوگ ہر معاملے میں حسّاسیت کا مظاہرہ کرنے کو زندگی کا بنیادی فریضہ گردانتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر و عمل بھی غلط ہے۔ معاملات اُسی وقت متوازن رہتے ہیں جب اُنہیں متوازن رکھا جاتا ہے۔
اگر کسی کو اپنے حساس طبع ہونے کا اندازہ ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے کو محسوس کرنا، بلکہ دل پر لینا شروع کردے۔ ہر معاملہ اس قابل نہیں ہوتا کہ دل پر لیا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس وقت بھی کم ہے اور وسائل بھی محدود ہیں۔ وقت اور وسائل دونوں کو زیادہ سے زیادہ کارگر طریقے سے بروئے کار لانا ہے تاکہ زندگی کا دامن کہیں سے خالی دکھائی نہ دے۔ ہمیں زندگی کا دامن بھرنا ہے مگر اِس کے لیے حسّاسیت سے لاتعلق ہونا بھی ضروری نہیں اور ہر معاملے کو دل پر لینا بھی لازم نہیں۔ بَین بَین چلنا ہے۔ صرف کھلنڈرا پن بھی نہیں چلے گا اور نری سنجیدگی بھی لے ڈوبے گی۔ پوری ہوش مندی کے ساتھ جیتے ہوئے ہر انسان کو صرف وہی معاملہ زیادہ سنجیدگی اور احساس کے ساتھ قبول کرنا ہے جو اس قابل ہو کہ اُس کے معاملے میں حساس ہوا جائے۔ ذی حس ہونا لازم ہے مگر ہر معاملے میں جذباتی ہو اُٹھنا کسی بھی پہلو یا زاویے سے دانش کا مظہر نہیں۔ جس نے یہ فرق سمجھا وہی ڈھنگ سے جی پایا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved