تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-12-2023

عمران بے گناہ اور بلّا گناہ گار… (2)

گزشتہ کالم سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ صاحب کے اس جملے پر ختم ہوا تھا ''پاکستان میں جمہوری عمل پر غیر جمہوری اشرافیہ نے پہلی بار اُس وقت حملہ کیا تھا جب پہلی آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا۔ جس کے بعد...‘‘۔
یہ کالم چھپ چکا‘ جس کے بعد پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلّا واپس اپنے اصل حق داروں کے پاس آ گیا۔ جس کے بعد لیول پلینگ فیلڈ کو ہموار رکھنے کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ اور ہدایات بھی الیکشن کروانے کے ذمہ دار ریگولیٹرز کے پاس پہنچ گئیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کو سمجھنے کیلئے صرف اتنا جاننا ضروری ہو گا کہ آئین کے آرٹیکل 189اور 190کو ملا کر پڑھ لیا جائے۔ آرٹیکل 189کے الفاظ یہ ہیں:
189: Any decision of the Supreme Court shall, to the extent that it decides a question of law or is based upon or enunciates a principle of law, be binding on all other courts in Pakistan.
1973ء کے آئین کی اس واضح کمانڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی کسی قانونی یا ایسے سوال پر‘ جس کی بنیادکوئی قانون ہو‘ یا کسی اصولِ قانون کے بارے میں سپریم کورٹ کوئی ایسا فیصلہ دے جو پرنسپل آف لا پر مبنی ہو‘ ایسی صورت میں پورے پاکستان کی تمام دوسری آئینی یا قانونی عدالتیں سپریم کورٹ کے ایسے فیصلے پر عمل کرنے کی پابند بنا دی گئی ہیں۔ یہ بھی طے شُدہ پبلک فیکٹ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے نیچے الیکشن کمیشن نے جو ریٹرننگ آفیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر تعینات کیے ہیں وہ نہ تو جج ہیں‘ نہ قانون دان اور نہ ہی جوڈیشل افسران۔ بلکہ اُن کا تعلق ریاست کی ایگزیکٹو برانچ سے ہے۔ جوڈیشل آرگن کی طرح ریاست کے اس آرگن کو بھی سپریم کورٹ کا پابند بنایا گیا ہے۔
ملاحظہ کریں آرٹیکل 190کی زبان:
190: All executive and judicial authorities throughout Pakistan shall act in aid of the Supreme Court.
آئین میں دیے گئے عدالتِ عظمیٰ کے یہ دو مینڈیٹ سامنے رکھیں تو ایک بات طے ہو جاتی ہے۔ الیکشن لڑنے والی سب سیاسی جماعتوں اور تمام عہدیداروں سے یکساں سلوک کرنے کی نفی واضح طور پر توہینِ عدالت ہے۔ 1973ء کے آئین میں تقریباً ہر بات ریاست اور شہریوں کے تمام تر تعلقات اور شہری آزادی سے متعلقہ ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ چلئے ایک توہینِ عدالت کی ہی مثال لے لیتے ہیں جس کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو آرٹیکل 204کے نیچے توہینِ عدالت کی کارروائی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اسی طرح سے دستورِ پاکستان دنیا بھر میں رائج اُن معدودے چند عمرانی معاہدوں میں سے ایک ہے جو دراصل ریاست کے شہریوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ لیکن اُس میں توہینِ عدالت اور توہینِ عساکر دونوں کے لیے علیحدہ سے آرٹیکل ڈال دیے گئے‘ بلکہ ساتھ ساتھ ان دونوں اداروں کی تنقیص قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم ہے جس کا نتیجہ قیدکی سزا کے ساتھ ساتھ عوامی عہدے کے لیے الیکشن لڑنے اور عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل کیے جانے کی بڑی سزا بھی موجود ہے۔
موجود سے یاد آیا‘ پاکستان کی ساری انتخابی تاریخ میں کبھی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ‘ اُس کی لیڈر شپ‘ اُس کے تنظیمی عہدیداروں‘ اسمبلیوں کے امیدواروں‘ اُن کے تجویز کنندگان‘ جنرل الیکشن کے امیدواروں کے تصدیق کنندگان‘ امیدرواں کی بہو بیٹیوں‘ مائوں بہنوں‘ سپوٹرز بلکہ ساتھ ساتھ اُن کے وکیل حضرات پر دست درازی کا بے دریغ اورکیمرے کی آنکھ کے سامنے استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن پی ٹی آئی کے خلاف یہ سارے مظالم اور چیرہ دستیاں پوری قوم کے سامنے مسلسل ہوتی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی اس پامالی پر اب یہ بات صرف شہری نہیں کہہ رہے بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز‘ جو بنیادی طور پر ملک کے شہری پہلے ہیں اور جج بعد میں‘ وہ بھی صورتحال سے دل گرفتہ ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب صاحب نے بلوچستان سے پُر امن احتجاج کے لیے خالی ہاتھ اسلام آباد پہنچنے والی خواتین کے کیس میں پولیس گردی پر سخت تشویش ظاہر کی۔ گلوبل ویلیج میں جہاں جہاں الیکشن ہوتے ہیں‘ وہاں تشدد لازمی ہوتا ہے۔ یہ تشدد مخالف امیدواروں‘ مخالف سیاسی دھڑوں اور ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے والی پارٹیوں کے درمیان محدود رہتا ہے۔ سوائے ایک وَن یونٹ کے زمانے میں مشرقی پاکستان کے‘ کبھی حکومتوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو ''سنگل آؤٹ‘‘ کرکے اُس پہ جبر کے پہاڑ نہیں توڑے۔ خاص طور سے یوں جیسے آج آئین مفلوج ہے‘ الیکشن کرانے کے ذمہ دار ادارے مقیّد‘ جمہوریت ہلکان اور پارلیمانی سیاست پریشان حالی کی سٹیج سے بھی گزر چکی۔
گزرے منگل کے روز صبح سات بجے سے پہلے میں خیبر پختونخوا میں تھا۔ جہاں سے شام چھ بجے کے بعد پشاور ہائی کورٹ کی بلڈنگ سے باہر آسکا۔ اس دوران سینکڑوں وکیل اور اَن گنت عام لوگ ملے۔ ہر اک کے چہرے اور زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ پاکستان کو کس طرف دھکیلا جا رہا ہے؟ یہاں میں بلّا چھینے جانے کے خلاف لیگل ٹیم کے ساتھ پیش ہوا۔ چار بجے کے بعد میرا دوسرا کیس پشاور ہائی کورٹ کے جناب جسٹس کامران حیات کے سنگل بینچ میں شروع ہو سکا۔ جہاں پہ سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی عمر ایوب کے خلاف 22مقدمات میں ضمانت قبل اَز گرفتاری دائر ہوئی تھی۔ دنیا کی شاید ہی کسی دوسری سٹیٹ میں کسی سیاسی لیڈر پر اتنے مقدمات درج ہوئے ہوں۔ اس سے پہلے میں نے عمران خان کی ضما نت قبل اَز گرفتاری پشاور ہائی کورٹ جا کر 19مقدمات میں دائر کی۔ اسلام آباد سے پشاور ہائی کورٹ پہنچنے کے عرصے میں دو ایف آئی آر مزید کٹ گئیں۔
شاہ محمود قریشی کی رہائی کا آرڈر دیکھ لیں‘ جو سپریم کورٹ کے فُل بینچ نے جاری کیا۔ رہائی کے مناظر پر انڈیا اور مغربی دنیا کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ پروگرام ہوئے‘ جس میں پاکستا ن کا تمسخر اُڑایا گیا۔ شاہ محمود کے خلاف دھکا شاہی ایکشن میں شامل ایک شخص‘ سوشل میڈیا پر پچھلی ایک واردات میں شریکِ ملزم بتایا گیا۔ عدالت نے شاہ محمود قریشی کا ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا۔ کاش منیجرز یہ بروقت جان سکیں کہ 1953ء والا سکرپٹ 2023ء میں فلاپ ہونا ہی ہونا ہے۔ فیض احمد فیض نے اس سکرپٹ کو یوں بیان کیا؛
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved