اس وقت دنیا کے ہر ملک میں طبقاتی تقسیم موجود ہے۔ یہاں تک کہ یہ طبقاتی تقسیم کیوبا جیسے ملک میں بھی پائی جاتی ہے‘ حالانکہ کیوبا میں سوشلزم اب تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم اس وقت بھی پائی جاتی تھی جب فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا ایک مکمل سوشلسٹ ملک تھا۔ سوویت یونین میں بھی یہ طبقاتی تقسیم موجود تھی‘ جہاں تاریخ کا سب سے پہلا اور بڑا سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تھا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک سوشلسٹ سماج غیرطبقاتی سماج ہوتا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ خود سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والوں نے بھی کبھی سوشلسٹ نظام کو غیر طبقاتی نظام قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس ان کا خیال تھا کہ سوشلزم غیر طبقاتی سماج کے قیام کی طرف بڑھنے کے لیے ایک پہلا قدم ہے۔ اور سوشلسٹ سماج کی مکمل کامیابی اور نشوونما کے بعد یہ نظام کمیونزم میں ڈھل جائے گا۔ اور ایک کمیونسٹ سماج ہی دراصل ایک غیرطبقاتی سماج ہو گا جس میں ہر طرح کی طبقاتی تقسیم ختم ہو جائے گی۔ جن ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب آیا انہوں نے بڑے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیے مگر وہ کہیں بھی سوشلزم کو کمیونزم یعنی مکمل غیرطبقاتی سماج کے مراحل میں داخل کرنے میں ناکام رہے۔ ان حیرت انگیز کارناموں میں کیوبا سب سے آگے تھا۔ یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق کیوبا تعلیم‘ صحت اور روزگار کے اعتبار سے پورے لاطینی امریکہ سے کہیں آگے تھا۔ یونیسف کاسترو کے زمانے میں ہر سال اس طرح کے اعداد و شمار جاری کرتا رہا جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا‘ لیکن وہاں طبقاتی تقسیم تب بھی تھی اور اب بھی ہے۔ اس لیے اگر پاکستان جیسے ملک میں طبقاتی تقسیم کی بات ہو تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔ پاکستان شروع سے نظریاتی اعتبار سے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کو اپنے معاشی نظام کی بنیاد قرار دیتا رہا ہے۔ اور اس بنیاد پر پاکستان نے روایتی سرمایہ داری سے لے کر لبرل ازم اور نیو لبرل ازم کے معاشی اصولوں اور فلسفے کو اپنی ترقی کا راستہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں آج طبقاتی تقسیم نظر آتی ہے۔ لیکن اس طبقاتی تقسیم کی جو شکل یہاں موجود ہے اور جس طریقے سے یہ طبقاتی تقسیم روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے‘ یہ تشویشناک ہے۔
اس وقت ملک کی بہت بڑی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور یہ لوگ روز بروز غربت‘ پسماندگی اور بدحالی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ یہ وہ سٹیج ہے جہاں پہنچ کر طبقاتی تقسیم محض سادہ تقسیم نہیں رہ جاتی بلکہ یہ طبقاتی لوٹ کھسوٹ بن جاتی ہے‘ جس کا اظہار اور عکس زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی ضروریات کے معاملے میں تو یہ تقسیم نا قابلِ بیان حد تک بڑھ چکی ہے۔ یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ لاکھوں بچوں کو کبھی کسی سکول کی دہلیز پر قدم رکھنا ہی نصیب نہیں ہوا۔ ایک طرف لاکھوں بچے غربت اور بدحالی کی وجہ سے مدرسوں میں داخل ہوئے‘ دوسری طرف لاکھوں بچے مہنگے انگلش سکولوں سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ درمیان میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو سرکاری سکولوں میں پڑھ کر اپنا مستقبل بہتر بنانے کا خواب دیکھتی رہی‘ جن کی اُن کو تعبیر نہ ملی۔ اس تفاوت اور تضاد میں اب ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔ وہ ہے بیرونی ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کا رحجان۔ اس رحجان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان سے ہزاروں نوجوان ہر سال مغربی تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ہزاروں پہلے ہی ان تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ اب مدرسے سے لے کر مہنگے نجی سکولوں تک اور ان سکولوں سے لے کر مغربی یونیورسٹیوں میں جو تعلیم کا فرق ہے اس کا لازمی اثر ہر طالب علم کے مستقبل پر پڑتا ہے۔ اس تعلیمی معیار میں جو فرق ہے‘ اس کا اثر روزگار اور کاروبار سے لے کر طلبہ کی معاشی و سماجی زندگی پر پڑتا ہے۔ اس طرح صحت کے میدان میں ہی دیکھ لیجئے۔ ہزاروں لاکھوں افراد کو جو دور افتادہ دیہات اور پسماندہ علاقوں میں آباد ہیں‘ ان کے لیے کسی بیماری کی صورت میں شفا خانے اور ادویات تک رسائی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ لوگ لمبی مسافتوں کے بعد شہروں میں پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنی غربت کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو مہنگے نجی ہسپتالوں یا پھر مغربی ممالک کے شفا خانوں سے علاج کراتے ہیں۔ ان سرکاری ہسپتالوں اور نجی یا بیرونِ ملک ہسپتالوں کے معیار میں جو فرق ہے‘ اس کا لازمی اثر انسانی زندگی اور موت پر پڑتا ہے۔ یہ صحت اور تعلیم کے میدان میں موجود طبقاتی تفریق کی صرف ایک ہلکی سے جھلک ہے۔ یہ ملک میں ہر شعبۂ زندگی میں مروج ہے اور روز بروز گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔
اس معاشی و سماجی پس منظر میں ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ طبقاتی تقسیم بلکہ لوٹ کھسوٹ عام انتخابات کے دوران زیر بحث آنے والے موضوعات میں شامل ہی نہیں ہے۔ ملک میں طبقاتی تقسیم یا طبقاتی جدوجہد کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ آپ پاکستان کی پہلی پندرہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے آئین و منشور اور انتخابی پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہو گی کہ ان بڑی جماعتوں کی دستاویزات میں طبقاتی تقسیم کا ذکر تک نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کا کوئی ٹھوس حل یا پروگرام موجود نہیں ہے۔ ایک دو چھوٹی پارٹیاں ہیں جنہوں نے اس مسئلے کو سنگین مسئلہ قرار دے کر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کا حل بھی پیش کیا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ یہ چھوٹی پارٹیاں عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں ناکام رہی ہیں۔ پہلی پندرہ پارٹیوں سے عوام کسی انقلاب کی توقع نہیں رکھتے۔ اور حقیقت میں اس وقت کوئی ایک پارٹی بھی نہیں ہے جو انقلاب کی بات کرتی ہو بلکہ انقلابی پارٹیوں نے بھی انقلاب کی بات ترک کر کے جمہوری عمل اور جدوجہد کے ذریعے عوامی مسائل حل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان حالات میں بات حقیقی آزادی کی ہو یا سوشل ڈیموکریسی کی‘ یا پھر دائیں بازو کی قدامت پرست سرمایہ دارانہ سیاست کی‘ آپ کو کسی پارٹی کے پروگرام میں پاکستان کی غربت‘ افلاس اور طبقاتی تقسیم پر کوئی روڈ میپ نہیں ملے گا۔ جس طرح کی دائیں بازو کی پارٹیاں پاکستان میں پائی جاتی ہیں‘ اس طرح کی پارٹیوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے۔ مگر یہ پارٹیاں اپنے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کے باوجود معاشرے میں بڑھتی طبقاتی تقسیم سے انکار نہیں کرتیں بلکہ وہ ٹیکس سمیت کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے طبقاتی تقسیم کا خاتمہ تو نہیں لیکن اس کی شدت میں کمی کی بات ضرور کرتی ہیں۔ دوسری طرف لبرل اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں اپنے پروگرامز میں دولت کی زیادہ منصفانہ تقسیم کے لیے بھاری ٹیکس لگانے جیسے اقدامات کی وکالت کرتی ہیں۔ پاکستان میں حالیہ برسوں دائیں اور بائیں بازو کا فرق تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اقتدار کے حصول کو اپنا بنیادی مقصد قرار دے کر ایسے بحث و مباحثے سے ہی کتراتی ہیں جس کی وجہ سے سماج کا کوئی طاقتور طبقہ یا فرد ان کے خلاف ہو جائے۔ ان حالات میں ہونے والے انتخابات جمہوری تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے تو اہم بلکہ ناگزیر ہیں مگر ان انتخابات سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا درست نہیں ہوگا۔ یہ انتخابات قومی مسائل پر ٹھوس نظریہ پیش کرنے کے بجائے ذاتی خوبیوں اور نیک ارادوں کے پرچار پر لڑے جا رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved