ویسے تو ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ اگر مغربی ممالک میں کوئی مسلمان انفرادی طور پر جرم کرے تو اس کو دہشت گرد قرار دے کر ساتھ ہی اس کے مذہب کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے لیکن اگر ایسا ہی جرم انہی مغربی ممالک میں کوئی عیسائی‘ یہودی یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص کرے تو اس کو نفسیاتی مریض‘ اکیلے پن کا شکار یا ذہنی بیمار شخص قرار دے دیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا کی اس جانبداری کی وجہ سے تہذیبوں کے تصادم ایسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور دہشت گردی‘ قتل و غارت اور نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت یورپ اور امریکہ میں ماس شوٹنگ کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ جرم اجتماعی نہیں‘ انفرادی طور پر کیا جاتا ہے۔ مجرمان کو پتا ہوتا ہے کہ اگر ہم لوگوں پر حملہ کریں گے تو ہمیں نفسیاتی مریض کا لیبل مل جائے گا‘ ہمیں بحالی ٔ صحت کے ادارے میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ مجرمان ذہنی طور پر بیمار نہیں ہوتے بلکہ یہ صحت مند لوگ اور انتہائی شاطر ہوتے ہیں البتہ شیطانی فطرت رکھتے ہیں اور پوری پلاننگ کے ساتھ لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات اس قسم کے حملوں کے پیچھے نفرت اور نسل پرستی کا عنصر کارفرما ہوتا ہے۔
گزشتہ ہفتے یورپی ملک چیک ریپبلک میں اسی طرح کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ چیک ریپبلک سینٹرل یورپ میں واقع ہے۔ اس کا دارالحکومت پراگ ہے جو دنیا کے حسین ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کی تاریخ پتھر کے دور تک جاتی ہے۔ یہاں بے شمار قدیمی آثار موجود ہیں۔ اس ملک میں موجود خوبصورت عمارتیں، پہاڑ، دریا اور تاریخی مقامات اس کو سیاحوں کے لیے پُرکشش بناتے ہیں۔ لندن‘ پیرس اور استنبول کے بعد سب سے زیادہ سیاح یہاں آتے ہیں۔ چیک ریپبلک میں پارلیمانی نظام قائم ہے اور سول لا سسٹم کے تحت کام ہوتا ہے۔ یہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے جہاں پر فی کس آمدن اوسطاً تیس ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی یہ ملک اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے؛ تاہم گزشتہ ہفتے یہاں کچھ ایسا ہوا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
پراگ میں واقع چارلس یونیورسٹی ملک کی بڑی یونیورسٹی ہے۔ یہ ایک تاریخی یونیورسٹی ہے جو تیرہویں صدی عیسوی میں قائم ہوئی تھی۔ یہاں پر فیکلٹی آف آرٹس قائم ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کے کیمپس مختلف شہروں میں موجود ہیں جن میں قانون، طب، فارمیسی، ایجوکیشن، سوشل سائنسز، فزیکل ایجوکیشن، ماحولیات اور کمپیوٹر سائنسز کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ 21 دسمبر کو اس یونیورسٹی میں ماس شوٹنگ کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ اس سانحے میں 14 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے۔ ملزم نے پہلے اپنے گھر میں اپنے والد پر گولیاں برسائیں، اس کے بعد وہ یونیورسٹی میں آ گیا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ بہت سے طالب علموں نے کلاس رومز بند کر کے اپنی جانیں بچائیں۔ بہت سے طالبعلم بالائی گیلری میں چھپ گئے تاکہ گولیوں سے خود کو بچا سکیں۔ کچھ افراد یونیورسٹی بلڈنگ کی چھت پر چلے گئے تاکہ وہ خود کو حملہ آور کی گولیوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ چیک ریپبلک کے عوام اس حملے پر ششدر رہ گئے ہیں۔ یہ ایک نہایت پُرامن ملک ہے اور یہاں شاید ہی پہلے ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔ اس وقت وہاں کے لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
جب تک سکیورٹی فورسز نے حالات پر قابو پایا‘ تب تک 14 قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔ پولیس کی کارروائی میں حملہ آور بھی مارا گیا۔ پولیس کو شک ہے اس سے قبل‘ 15 دسمبر کو ہونے والے ایک قتل میں بھی یہی شخص ملوث تھا۔ اکثر ایسے حملوں کے بعد مجرم پکڑے جاتے ہیں لیکن اس میں حملہ آور پولیس کی کارروائی میں مارا گیا ہے، اس لیے اس حملے کے پیچھے کیا محرکات تھے‘ ان کا پتا چلانے میں کافی عرصہ لگ جائے گا۔ مجھے ان تمام خاندانوں سے ہمدردی ہے جن کے پیارے اس حملے میں مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ یہ نہایت تکلیف دہ سانحہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں ایسا ہونا اسے زیادہ تکلیف دہ بنا دیتا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں اے پی ایس سانحے کی یاد دلاتا ہے۔ وہ دہشت گردی کا ایک منظم حملہ تھا‘ جس سے ہم سب کو آج بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اے پی ایس کے حملے میں 144 قیمتی جانیں لقمہ ٔ اجل بن گئی تھیں۔ یہ دہشت گردی کا حملہ تھا اور اس میں کالعدم ٹی ٹی پی ملوث تھی۔ البتہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں ماس شوٹنگ کے جو واقعات آئے روز پیش آتے رہتے ہیں‘ یہ حملے انفرادی فعل کا شاخسانہ ہوتے ہیں اور عموماً ان میں ایک ہی فرد ملوث ہوتا ہے۔
اس طرح کے حملوں کو سختی سے روکنا چاہیے اور عام لوگوں کی اسلحے تک رسائی نہیں ہونی چاہیے۔ مغربی ممالک میں اسلحے کے باقاعدہ سٹورز ہوتے ہیں جہاں سے کوئی بھی پیسے دے کر فوری اسلحہ خرید سکتا ہے اور اس کا استعمال پھر خریدنے والے پر منحصر ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں بہت سے ماس شوٹنگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ حالیہ عرصے میں امریکی ریاست بالٹی مور میں ماس شوٹنگ کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں 30 افراد کو گولیاں مار دی گئیں۔ اس سے پہلے اپریل میں ٹیکساس میں ایک شخص نے 5 افراد کو گولیاں مار دی تھیں۔ اسی طرح سربیا میں 14 سالہ بچے نے سکول میں فائرنگ کرکے 9 افراد کو قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک تھا۔ اس واقعے میں مرنے والوں میں چھ سال کا ایک بچہ بھی شامل تھا۔
میں سمجھتی ہوں کہ پوری دنیا میں فوری طور پر ''گن ریفارمز‘‘ ہونی چاہئیں تاکہ یہ سلسلہ بند ہو سکے۔ اسلحہ یوں مارکیٹوں میں کھلے عام دستیاب نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ اس اسلحے سے دہشت گردی کر رہے ہیں‘ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو قتل اور زخمی کر رہے ہیں۔ لوگوں کے پاس موجود غیر قانونی اسلحہ پولیس کو ضبط کر لینا چاہیے؛ تاہم مغربی میڈیا ایسے مجرمان کو ذہنی مریض بنا کر پیش کرتا ہے، حالانکہ یہ دہشت گردی ہے، اس کو کسی کی ذہنی بیماری کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں ہے، نہ ہی اس کا تعلق کسی مذہب سے ہے۔ عموماً اس قسم کا انفرادی فعل نفرت کی وجہ سے جنم لیتا ہے اور اس نفرت کا سدباب امن کا پرچار کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کا احترام سکھایا جائے اور یہ رنگ‘ نسل‘ قومیت اور مذہب سے بالاتر ہونا چاہیے۔ ایک انسان کا احترام صرف اس لیے کیا جائے کہ وہ انسان ہے اور باقی انسانی جانوں کی طرح مقدم ہے؛ تاہم ایسا ہو نہیں رہا۔ چیک ریپبلک میں ایک انفرادی شخص کی طرف سے دہشت گردی ہو یا اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی منظم نسل کشی‘ یہ تمام واقعات قابلِ مذمت ہیں۔ کسی بھی قسم کا تشدد اور قتل و غارت قابلِ مذمت ہے۔ دنیا کو امن کا گہوارا بننا چاہیے تھا لیکن اس کو اسلحے اور بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیک ریپبلک جیسے سانحات جنم لیتے ہیں کیونکہ اسلحہ حاصل کرنا آسان ہے اور شیطانی فطرت کے حامل افراد اس کا غلط استعمال کرتے اور معصوم لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔
لازم ہے کہ دنیا میں گن ریفارمز کی جائیں تاکہ تعلیمی اداروں، بازاروں اور عوامی مقامات پر لوگ محفوظ رہیں اور کوئی بھی اس طرح اسلحے کے زور پر معصوم لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیل سکے۔ اس طرح کے واقعات متاثرین کو نہ صرف زندگی بھر کا ٹراما دے جاتے ہیں بلکہ ان کیساتھ منسلک افراد کو بھی زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ امید ہے کہ قتل کے اس واقعے کے پیچھے تمام محرکات کو دیکھا جائے گا اور اس کو بیمار‘ تنہا شخص کہہ کر ماس شوٹنگ جیسے جرم سے بری الذمہ نہیں کر دیا جائے گا۔ ایسے جرائم کی روک تھام کی جانی چاہیے تاکہ عوام خود کو غیر محفوظ نہ محسوس کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved