کیا انتخابات میں منشور اور نظریے کاکوئی کردارباقی ہے؟
جماعت اسلامی شاید پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے اور شاید آخری جماعت ہے جو سیاست کو کسی نظریے کے تابع رکھنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی کے چودہ نکاتی منشور میں مملکت کے اسلامی تشخص کو اہم سمجھا گیا ہے۔یہ اس بات کی علم بردار ہے کہ فلاحی ریاست کا تصور اسلامی تعلیمات ہی کی روشنی میں متشکل ہو سکتا ہے۔یہ عملاً کیسے ہو پائے گا؟اس منشور میں اس کا کوئی جواب نہیں۔
منشوروعدوں کا نام ہے۔اس میں عام طور پر 'کیسے‘ کا جواب نہیں ہو تا۔ عام طور پر جب پریس کانفرنس میں اس کا اعلان ہوتا ہے تو بیدار مغز صحافی یہ سوال اٹھاتے ہیں۔ سیاسی قیادت سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کے وعدے تعبیر آشنا کیسے ہوں گے؟اب یہ سوال کم ہی اٹھائے جاتے ہیں۔سیاسی قیادت اور اہلِ صحافت کا معاملہ وہی ہے جو اقبال نے بیان کردیا ہے: 'نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں‘۔جماعت اسلامی کا یہ استثنا باقی ہے کہ وہ اس خواب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو اس کے قیام کا مقصد تھا۔
جماعت کا یہ منشور ان معنوں میں انقلابی نہیں کہ اس میں کوئی ایسا غیر معمولی ا قدام تجویز کیا گیاہوجوپانچ برس میں ملک کی کایا پلٹ دے گا۔ تاہم ایک بات ایسی ہے جوخاندانی نظام کی بقا کے لیے اہم ہے لیکن اسے نظر انداز کیا جا تا ہے ۔اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ ایک وقت میں طلاقِ ثلاثہ کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جا ئے گا۔یہ ایک اہم بات ہے جس کی سنگینی کا اندازہ اسی کو ہو سکتا ہے جو سماجی مسائل پر نظر رکھتا ہے۔
یہ فقہ کا ایک معرکہ آرا مسئلہ ہے۔ازدواجی رشتے میں اسلام نے مرد کوطلاق کا حق دیا ہے۔وہ یہ حق تین بار استعمال کر سکتا ہے۔اس کے بعد ازواجی رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک مرد کیااپنا یہ حق ایک ہی بار استعمال کر سکتا ہے؟کیا وہ ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دے سکتا ہے؟فقہ حنفی کے مطابق‘وہ یہ حق رکھتا ہے۔ اہلِ حدیث علما کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا ہے۔وہ ایک وقت میں اگر بیسیوں بار بھی طلاق کا لفظ ادا کرے‘واقع ایک ہی طلاق ہو گی۔اس کے بعد بھی وہ ازواجی رشتہ باقی رکھ سکتا ہے‘یہاں تک کہ وہ تین الگ الگ اوقات میں یہ عمل دہرائے۔
پاکستان میں عام لوگ طلاق کے اسلامی احکام سے واقف نہیں۔ قرآن مجید نے اس کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔لوگ جذبات اور غصے میں ‘ایک ہی وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں۔ غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔پھر وہ فتوے کے لیے علما کی طرف رُخ کرتے ہیں۔یہاں چونکہ حنفیوں کی اکثریت ہے‘ اس لیے مرد جس عالم کے پاس جاتا ہے‘وہ اسے بتاتا ہے کہ تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور اب رجوع کی کوئی صورت نہیں۔پھراسے حلالہ کا راستہ دکھایاجاتا ہے۔اگر وہ کسی اہلِ حدیث عالم کے فتوے پر عمل کرنا چاہے تواسے یہ حق نہیں دیا جاتا ہے کہ حنفی ہو تو حنفی فتوے پر ہی عمل کر نا پڑے گا۔
اس لا علمی‘بداحتیاطی اور فقہی جمود کے باعث روزانہ کئی گھر برباد ہو جاتے ہیں۔خاندان کے نظام کوبچانے کے لیے‘اس مسئلے کا حل ضروری ہے۔جماعت اسلامی نے اگر اسے اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے تویہ ایک مستحسن قدم ہے۔اس مردانہ بد احتیاطی کو یقیناً قابل ِتعزیر جرم ہو نا چاہیے۔حضرت عمر ؓ نے بھی اسے جرم قرار دیا۔اسلامی نظریاتی کونسل بھی اسے قابلِ تعزیر بتا چکی ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ قابلِ تعزیر جرم قرار دینے کے بعد‘وہ ایک طلاقِ شمار ہو گی یا تین؟احناف کے نزدیک‘سزا کے باوجود‘طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ جماعت اسلامی کا منشور اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ سزا کے بعدطلاق ایک سمجھی جائے گی یا تین؟
منشور میں یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ مرد ایک وقت میں جتنی طلاقیں دے گا‘وہ ایک ہی شمار ہو گی۔یعنی مرد کو سزا ملے گی اور اس کے ساتھ گھر بھی بچ جائے گا۔اگر مرد کو سزا مل جائے اور تین طلاقیں بھی ہوجائیں تو خاندان پھر بھی باقی نہیں رہے گا۔اصل مسئلہ خاندان بچانا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک نشست میں دی جانے والی متعدد طلاقوں کو ایک ہی سمجھا جائے۔قرآن مجید کا منشا بھی یہی ہے۔جماعت اسلامی کے منشور میں اس معاملے کو خواتین کے حقوق کے ضمن میں بیان کیا گیا۔گویامقصود عورت کو خاندان کا تحفظ فراہم کرنا ہے۔یہ تحفظ اسی وقت مل سکے گا جب خاندان بچے گا۔
منشور میں ایک اور اہم بات مذہبی اقلیتوں کے بارے میں بیان گئی ہے۔یہ کہا گیا ہے کہ اقلیت کے بجائے غیر مسلم پاکستانی برادری کی اصطلاح استعمال کی جائے گی۔ وہ تعلیم‘روزگار‘علاج اورشہری حقوق میں برابری کے حصہ دارہوں گے۔ ان کی جان ومال‘عزت و آبرو اور عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جا ئے گا۔یہ سب باتیں قابلِ ستائش ہیں۔غیر مسلم پاکستانیوں میں یہ احساس پیدا کرنا کہ وہ برابر کے شہری حقوق رکھتا ہے‘وقت کی ضرورت ہے جس کومنشور میں نمایاں کیا گیا ہے۔
پاکستان کی تشکیل ایک قومی ریاست کے ماڈل پر ہوئی ہے۔اس میں مذہبی وابستگی سے ماورا ‘تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔ان میں سیاسی حقوق بھی شامل ہیں۔ اس منشور میں ان کا ذکر نہیں۔جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں غیر مسلم نشستوں کے لیے اپنا امیدوار بھی کھڑا کیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے سیاسی حقوق کے قائل ہیں۔اچھا ہو تا کہ اس کا واضح ذکر منشور میں کر دیا جا تا۔
جماعت اسلامی کے سوا‘اس وقت صرف پیپلزپارٹی نے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے۔ (ن) لیگ کے بارے میں خبر سنی تھی کہ اس نے اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے مگر اس کا حاصل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔تحریکِ انصاف کی صفوں میں بھی خاموشی ہے۔ ان جماعتوں کو شاید اندازہ ہے کہ سیاست جس ڈگرپر چل نکلی ہے‘اس میں منشور غیر ضروری ہے۔یہاں شخصیت پرستی ہے یا مفادات۔نظریہ اور منشور غیر اہم ہیں۔اس لیے وہ اس غیر اہم کام پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
اگر معاشرہ سیاسی طور پر زندہ ہو تا تو انتخابی منشورکو سب سے اہم دستاویز سمجھا جاتا۔بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم میں اس سوال کا سامنا ہوتا کہ انہوں نے ماضی میں جس منشور کے ساتھ اقتدار حاصل کیا‘اس پر کتنا عمل کیا؟ یہاں کسی کو یاد ہی نہیں کہ پچھلے انتخابات میں ان جماعتوں کا منشور کیا تھا؟اس طرح احتساب کی وہ روایت آگے نہیں بڑھ سکی جو اہلِ سیاست کو عوام کے سامنے جواب دہ قرار دیتی ہے۔
جماعت اسلامی کے لیے سیاست ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔یہ خوش آئند ہے کہ منشور کی حد تک اس نے اپنے اس تشخص کو باقی رکھا ہے۔جماعت نے سماج کی سیاسی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اگر وہ انتخابی مہم میں منشور کو مرکزیت دیں اور اس حوالے سے عام آدمی میں آگاہی پیدا کریں تویہ سماجی خدمت ہوگی۔اس کے نتیجے میں کیا معلوم کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ بھی اپنی جماعت کی قیادت سے منشور کے بارے میں سوال کریں۔جس طرح جماعت نے داخلی سطح پر جمہوری اقدار کو اپنا کر ایک مثال پیش کی ہے‘جماعت منشور کے باب میں بھی اہلِ سیاست کے لیے مثال بن سکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved