میں اودے پور راجستھان میں اپنے کمرے کی عقبی بالکنی سے ارا والی پہاڑیوں(Aravalli Range) کے عقب میں غروب کے منظر بھول نہیں سکتا۔ دائیں بائیں اور سامنے سنگ مرمر کی فیکٹریوں میں بڑی بڑی سلوں سے دھوپ اور شفق کے رنگ منعکس ہوتے تو لگتا کہ پتھروں کے اندر سنہری گلابی پھول کھلے ہوئے ہیں۔ بادلوں کے جھروکوں سے طلائی کرنیں چوڑی اور موٹی دھاروں کی صورت میں مٹیالی زمین کو رنگوں میں نہلاتی تھیں۔ زمین نے یہ منظرہز ار وں بار دیکھا ہوگالیکن ہر بار یہ نیا لگتا ہے۔ کیسا تنوع ہے فطرت کے خزانے میں۔ یہ منظر کیسی حیرت کیسی اداسی اور کیسی تنہائی ساتھ لاتے ہیں۔ لفظ ہی ہوتے ہیں بیان کے واسطے اور لفظ ہی نہیں ملتے بیان کے لیے۔ پھر یہ کہ ہر کیفیت بیان کہاں ہوتی ہے۔ دہلی کے پالم ائیر پورٹ سے کم و بیش سوا گھنٹے بعد ہم اودے پور کے مہارانا پرتاپ سنگھ ائیر پورٹ پر اترے۔ جناب امجد اسلام امجد کی ہمراہی ہو تو سفر کیسے خوشگوار نہ گزرے؟ مجھے اُن کے ساتھ کافی سفر کرنے کا موقع ملا ہے اور سچ یہ ہے کہ ایسے ہم سفر کم کم ملتے ہیں؛ چنانچہ سفر ہر طرح پر لطف تھا‘ لیکن معلوم نہیں جہاز میں دیئے جانے والے سنیکس اور چائے وجہ تھی یا پہلے کھایا گیا دو پہر کا کھانا، کچھ دیر بعد مجھے متلی کی کیفیت محسوس ہونی شروع ہوگئی۔ اسی حالت میں اودے پور پر جہاز اترا۔ میزبانوں سے ملاقات ہوئی اور ان کی گاڑیوں میں ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہوٹل ائیر پورٹ سے فاصلے پر تھا اور سفر میں میری طبیعت کی وجہ سے دو تین بار قافلے رکتے تھے۔ ایک بار جب ہم رکے تو انہوں نے مجھے ہلایا اور طبیعت پوچھنے کے بعد بولے: سعودا تمہاری سیٹ فلاں کے ساتھ تو نہیں تھی ؟ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو بولے: جبھی تمہیں بار بارمتلی ہورہی ہے۔ یہ اتنا بے ساختہ جملہ تھا کہ طبیعت نڈھال ہونے کے باوجود میر اقہقہہ نکل گیا۔ ہوٹل پہنچنے تک میری طبیعت بحال ہو چکی تھی۔ ہوٹل اچھے معیار کا تھا اور اس کے سامنے ایک بہت بڑالان تھا۔ ہم لان سے گزر کر داخلی محراب تک پہنچے۔ اس محراب سے آگے سنگ مرمر کی تین چار سیڑھیاں چڑھ کر ہوٹل کا استقبالیہ تھا لیکن ہم نے حیرانی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں شہد کی مکھیوں کا وہ بہت بڑا چھتہ دیکھا جو عین محراب کے اوپر لگا ہوا تھا اور اس میں ہزاروں شہد کی مکھیاں تھیں۔ کچھ مکھیاں لان اور سیڑھیوں پر بھی منڈلا رہی تھیں۔ ہم شہد کی مکھیوں سے بچتے ہوئے استقبالیہ تک پہنچے۔ میں نے پو چھا: یہ آپ نے اتنا بڑا شہد کا چھتہ مین دروازے پر کیوں لگا رکھا ہے؟ یہ سوال یقینا ان سے بکثر ت کیا جاتا ہو گا ‘اس لیے ترنت جواب ملا : ہم نے نہیں لگایا، مکھیوں نے خود ہی لگالیا۔ میں نے پو چھا: تو آپ نے ہٹایا کیوں نہیں؟ بولے: ہم کیوں ہٹا ئیں‘ یہ تو دولت کی خوش خبری ہے‘ یہ تو بھاگوان ہے ہمارے لیے ۔ پوچھا :تو کیا یہ آپ کے گاہکوں کو کاٹتی نہیں ؟ ابھی تک تو نہیں کاٹا آگے کا پتہ نہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں ایسے میں ‘ وہ اطمینان سے بولے۔ اب مزید کیا بات کرتے‘ مطلب واضح تھا‘ اگر ہمیں شہد کی مکھیاں کاٹ لیتی ہیں تو ہوٹل والے بری الذمہ ہیں۔ لا جواب ہو کر کمرے کی طرف جاتے ہوئے میں نے اپنا اور سب شعراکا تصور کیا جو سوجے ہوئے چہروں کے ساتھ مشاعرہ گاہ کی طرف جارہے تھے۔ تصور خوفناک تھا لیکن یہ بھی حیرت اور مزے کی بات ہے کہ تین چار دن ہوٹل میں گزارنے کے باوجود کسی مہمان کو کسی مکھی نے واقعی نہیں کا ٹا‘ لیکن اصل خوفناک بات اس کے بعد تھی۔ کسی نے بتایا کہ یہ ہوٹل صرف ویجی ٹیرین یعنی سبزی خور کھانا فراہم کرتا ہے۔ گوشت نام کی کوئی چیز کھانے میں نہیں ملے گی۔ اس بات کی سنگینی میں اضافہ ہو گیا جب پتہ چلا کہ یہ افواہ نہیں درست خبر ہے۔ اب ہمیں اس ہوٹل میں کھانے میں سبزیوں‘ اناج اور اچار وغیرہ پر گزارا کرنا تھا۔ کم از کم میرے لیے یہ صورتحال زندگی میں پہلی بارتھی۔ شاید یہ بات منتظمین کے لیے بھی نئی تھی اور فوری طور پر کسی اور ہوٹل میں اتنے کمرے ملنا مشکل تھے۔ سبھی لوگ حیران اور پریشان تھے لیکن فراز صاحب کی غصے‘ جھنجلا ہٹ اور اکتاہٹ کی جوملی جلی کیفیات تھیں وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ ہر کیفیت بیان کہاں ہوتی ہے بھئی۔ لیکن کیفیات کی تو خیر تھی اصل سنگین مسئلہ خورو نوش کا تھا۔ آپ ہی بتائیے کہ دالوں کے سوپ‘دال مکھنی، پالک پنیر ، ویجی ٹیبل رائس، دال چاول وغیرہ کتنی بار رغبت سے کھائے جاسکتے ہیں؟ چنانچہ اگلے ہی دن ناشتے میں انڈے کی شدید طلب نے شعرا کو بے قرار کر دیا لیکن ویجی ٹیرین عقیدے کے مطابق ساری گڑبڑانڈے ہی سے تو شروع ہوتی ہے؛ چنانچہ جوسز اور پوری ترکاری ہی پر قناعت کرنی پڑی۔ علی گڑھ سے ہندوستانی شاعر جناب شہر یار اور ممبئی سے عبد الاحد ساز بھی ہوٹل پانچ چکے تھے۔ دیگر شعرا بھی پہنچ رہے تھے۔ جناب سحر انصاری کی با صلاحیت شاعرہ بیٹی عنبرین حسیب اور ان کے شو ہرحسیب بھی ساتھ تھے۔ اس طرح ہمارا ایک چھوٹا سا گروپ بن گیا تھا۔ مشاعرہ شاید آمد کے اگلے دن رات کو تھا۔ مغرب کے بعد مشاعرہ گاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اتنا بڑا پنڈال میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ‘نہ اس کے بعدکبھی نظر سے گزرا۔ اتنا مجمع ہونے کی کئی وجوہات تھیں؟ ایک تو علاقے کے مذہبی گرو مراری لال اور اُن کے حلقۂ عقیدت کے لوگ وہاں موجود تھے۔ وہ شاعری اور مشاعروں کے شوقین تھے اور سنا یہ گیا تھا کہ ان کی خواہش پر اس مشاعرے کا انتظام کیا گیا۔ پھر یہ اودے پور کی تاریخ کو پہلا مشاعرہ تھا جس کے اشتیاق میں لوگ دور دور سے آئے تھے۔ ہندو پاک کے بہترین شعرا بھی موجود تھے جو بذات خود بہت کشش کی بات تھی۔ہندوستان سے شہر یار اور پاکستان سے احمد فراز سینئر ترین شاعروں میں تھے جبکہ وسیم بریلوی، منور رعنا‘ معراج فیض آبادی اور بہت سے نامور ہندوستانی شعرابھی شریک تھے۔ مشاعرہ بہت اچھا اور بہت یادگار رہا۔تمام شاعروں کو راجستھانی سامعین نے بہت داد سے نوازا۔ ہم سب پاکستانی شعراکو خاص طور پر بہت پسند کیا گیا۔ مشاعرے کے بعد سامعین بے حد محبت سے ملے اور ان میں جناب مشتاق احمد یوسفی کی شباہت کے ایک صاحب بھی تھے‘ معلوم ہوا کہ یہ اُن کے چچا زاد ہیں۔ یہ بلا شبہ میرے ہندوستان کے یادگار ترین مشاعروں میں سے ایک تھا۔ معراج فیض آبادی ( اللہ ان کی مغفرت فرمائے) ایک دم یاد آگئے۔ پیارے آدمی تھے۔ سب سے پہلے دبئی اور دوحہ کے مشاعروں میں اُن کی محبت حاصل ہوئی تھی۔ اب یاد آئے ہیں توان کے کچھ شعر سن لیجیے ؎
کچھ تو ہم خود بھی نہیں چاہتے شہرت اپنی
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
مجھے کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
معراج صاحب چٹکلے چھوڑنے والے خوش مزاج شخص تھے۔ رات گئے جب مشاعرہ ختم ہواتو میں نے معراج صاحب سے پوچھا : اب ہوٹل کس طرح واپس جانا ہے؟ بولے: ہوٹل کو چھوڑ دمیاں ! وسیم بھائی (وسیم بریلوی) پر نظر رکھو۔ جہاں وہ جائیں بس وہیں جانا ہے۔ میں بھی یہی کروں گا۔ ان معاملات میں وہ سب کے رہنما ہیں۔ کچھ ہی دیر میں سمجھ گیا کہ اُن کی مراد مشاعرے کے اعزاز یے والے لفافے سے تھی جو ہم نے ان کی ہدایات کے مطابق حاصل کیے اور صبح کے قریب اپنے کمروں میں واپس پہنچے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved