تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     13-10-2013

ضمیر کی موت

اللہ تعالیٰ نے حق وباطل ، صَواب وخَطا اور خیر وشر میں تمیز کی ایک نفسانی صلاحیت اور مَلکہ(Natural Endowment) انسان کو عطا کیا ہے، جسے قرآن نے ’’نفسِ لَوّامہ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ اردو میں ہم اسے ضمیر اور انگریزی میں Conscienceسے تعبیر کرتے ہیں ۔ انسان کا یہ مَلکہ یا نفسانی جوہر یا باطنی استعداد یعنی ضمیر اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب ہے کہ سورۂ’’ الشمس ‘‘میں ذاتِ باری تعالیٰ نے تمہید کے طور پر نوقسمیں ذکر فرمانے کے بعد فرمایا: ’’اور نفس کی قسم اوراُس (ذات) کی قسم جس نے اس کو درست بنایا اور اُسے اس کی بدکاری اور پرہیز گاری کا شعورودیعت کردیا‘‘۔ اسی طرح سورۂ ’’القیامہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے حق اور سچ ہونے کی قسم ذکر فرمانے کے بعد فرمایا: ’’اور میں اُس نفس ِانسانی کی قسم فرماتا ہوں جو (اپنی غلطی پر) اپنے آپ کو ملامت کرتاہے ‘‘۔ حدیث مبارک میں ہے :رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تمہاری برائی تمہیں بری لگے اور تمہاری نیکی تمہیں اچھی لگے ، تو (سمجھو کہ) تم مومن ہو‘‘ (مسندامام احمد :22159)۔یعنی انسان کا ضمیر اس کے وجود میں ایمان کی کسوٹی ہے۔ اگرنفسِ انسانی کسی ایمانی، عملی ، اخلاقی اور روحانی مرض میں مبتلا نہیں ہے تویہ اس امر کی دلیل ہے کہ ضمیر زندہ ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ برائی پر ٹوکے گا ، روکے گا اور بدی کے راستے پر چلنے والے کے لئے پاؤں کی زنجیر بن جائے گا، نیکی سے اسے قلبی سرور ملے گا اور بدی اسے کھٹکتی رہے گی۔ آپﷺ نے مزید فرمایا: ’’نیکی اچھے اخلاق کانام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تجھے اس کے بارے میں تردُّد ہو اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگوں کو اس کا پتا چل جائے‘‘۔ الغرض ضمیر انسان کے باطن میں ایک ایسا چوکیدار ہے جو برا خیال آنے پر یا برائی کی طرف قدم بڑھانے پر انسان کو روکتا اور ٹوکتا ہے، متنّبہ کرتا ہے ، وارننگ دیتا ہے ، لیکن اگر نفس ِانسانی مریض ہو جائے تو وہ اس صلاحیت سے نہ صرف محروم ہوجاتاہے بلکہ بعض اوقات وہ برائی پر اِتراتا ہے اور اسے اپنے لئے باعثِ افتخار سمجھتا ہے ، جیسا کہ قومِ لوط سے پوچھا گیا: ’’کیا تم مردوں سے (غیر فطری طریقے سے )اپنی خواہشِ نفس کو پورا کرتے ہو اور ڈاکے ڈالتے ہو اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائی کاکام کرتے ہو، توان کی قوم کا جواب سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ اگر آپ سچے(نبی)ہیں توہم پر اللہ کا عذاب لے آئیں‘‘ (العنکبوت:29)۔ یعنی یہ انسان کی سرکشی اور خالق سے بغاوت کایہ آخری درجہ ہے کہ برائی کو اپنے لئے باعثِ افتخارسمجھے۔ یہ اس وقت ہوتاہے جب انسان کا ضمیر مرجائے ۔ضمیر کے مریض ہونے کو قرآن پاک نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا:’’اُن (منافقین) کے دلوں میں بیماری ہے (اس کے وبال کے طور پر)‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کے مرض میں اضافہ کردیاہے‘‘ (البقرہ:10) اور ضمیر کی موت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:’’تو وہ (حق کو نہ قبول کرنے میں ) پتھروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت، کیونکہ بعض پتھر ضرور ایسے ہیں جن سے دریا پھوٹ پڑتے ہیںاور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں‘‘ (البقرہ:74) یعنی سنگ دل انسانوں کے دلوں کے سوتے بند ہوجاتے ہیں، حق ان کے اندر داخل نہیں ہوتا، جیسے پتھریلی چٹان پر سے بارش کا پانی بہہ کر چلا جاتاہے اور اس کے اندر جذب نہیں ہوتا۔ اسی طرح قرآن وسنت کی تجلّیات نور اور ہدایت کی بارش ان سنگ دل انسانوں کے دلوں میں جذب نہیں ہوتی۔ آج کل ہم آئے دن ٹیلیو یژن اور اخبارات کے ذریعے ایسی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ دہشت گردی ، تخریب کاری ، قتل وغارت اور فساد کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے اور اس پر اُن کا نفس مطمئن ہوتاہے، کوئی رنج ومَلال یا ندامت نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک فرد کا ضمیر ہوتاہے، اسی طرح معاشرے کااجتماعی ضمیر (Collective Conscience)ہوتاہے اور معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے ترجمان اُس معاشرے کے اہلِ علم ودانش اور اہلِ فکر ونظر ہوتے ہیں ۔ آج ایسا لگتا ہے کہ ہمارا اجتماعی ضمیر بھی مر چکا ہے ۔ تخریب وفساد کے بعض ایسے واقعات جن کی اسلامی تعلیمات ، آئین وقانون اور اَخلاقی اَقدار کی رُو سے ادنیٰ درجے میں بھی کوئی قابلِ قبول توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی ، ہم میں سے کچھ حضرات بعض اوقات ان کارروائیوں کی مذمّت تو کر دیتے ہیں ، لیکن جو لوگ ان کارروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں ، ان کا حوالہ دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے اہلِ فکرونظر بھی نظریاتی طور پر منقسم ہیں اور دو انتہاؤں پر ہیںاورہماری حکومتی پالیسیاں بھی ابہام کا شکار ہیں۔ہم دفع الوقتی اور سر پرآئی بلا کو ٹالنے کو ترجیح دیتے ہیں، خطرات ومشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں رہا۔ دہشت گردی کے اس مسئلے کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج نے قومی سلامتی کاجوتازہ ترین اساسی اصول (Doctrine)بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہماری قومی سلامتی کو اب اصل خطرہ ازلی دشمن ہندوستان سے بھی بڑھ کر داخلی تخریب وفساداور بدامنی سے ہے ۔ ہم روایتی دینی لوگ تو اجتہاد کے لئے قرآن وسنت اوران کی فہم کے لیے ضروری اورمعاون علوم کو لازمی قراردیتے ہیں ، لیکن ہمارے عہد کے ’’متجدّدین‘‘ کہتے ہیں کہ اجتہاد اب پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگا، کیونکہ پارلیمنٹ ہی عہدِ جدید میں کسی ملک وقوم کی اجتماعی دانش (Colletive Wisdom)کا مرکز ومحور اور حقیقی مُقتدرہ ہے۔ حال ہی میں ہمارے نظام اقتدار (یعنی حزبِ اقتدار واختلاف)کے تمام Stakeholder جمع ہوئے اور چند گھنٹوں میں ایک مُبہَم یا مُجمَل سی قرارداد کی صورت میں مسئلے کو حل کردیا۔ Stakeholderکا ترجمہ عربی لغت میں ’’اصحابُ المصلحت‘‘ یعنی وہ لوگ جن کی مصلحت یا مفاد کسی چیز سے وابستہ ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ لوگ کہ موجودہ صورتِ حال میں قومی وملکی مفادات کا تحفظ جن کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تمام ذمہ داران کم ازکم ایک ہفتہ تک میڈیا کی نظروں سے دوربیٹھتے ، مسئلے کے تمام پہلوؤں کا پوری گہرائی اور گیرائی کے ساتھ جائزہ لیتے، ہر فیصلے اور اِقدام کے ’’مالہٗ وما علیہ‘‘ یعنی ممکنہ طورپر مرتّب ہونے والے مُثبت اورمَنفی نتائج پر تدبُّر وتفکر کرتے اور خطرات کا سدِّباب کرتے، مذاکرات کا ایجنڈا طے ہوتا،ہم کہاں تک جاسکتے ہیں ، ہمارے لئے اِقدام یا اِدبار(یعنی اپنے موقف میں آگے بڑھنے یاپیچھے ہٹنے) کی کتنی گنجائش ہے، اسے آج کل مذاکرات میں کچھ لینے اور کچھ دینے کی گنجائش سے تعبیر کیاجاتا ہے‘ مذاکرات کا فریقِ ثانی کون ہے اوران کے جو گروہ مذاکرات اور ان کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے،ان سے کیسے نمٹاجائے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس بے نتیجہ اورتباہ کُن جنگ سے بچنے کے لیے ہم مذاکرات کی راہ کو اپنارہے ہیں،بالآخر وہی ہمارامقدر بن جائے ،یعنی اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔اس وقت تو جو کچھ ہورہا ہے، عالَمِ غیب میں ہورہا ہے، عالَم شُہود(یعنی حاضر وموجودصورتِ حال ) میں کسی کوکچھ پتانہیں ہے۔ امن کبھی کسی کو خیرات اور سوغات میں نہیں ملتا، امن ان کو نصیب ہوتاہے جو عزیمت واستقامت کے حامل ہوں ، خَلق کا خوف دل سے نکالیں اور خالق کے خوف کو دل میں جگہ دیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’پس تم لوگوں سے مت ڈرو (صرف)مجھ سے ڈرو‘‘(المائدہ:44)۔ اسی طرح حکومت کا عزم بھی غیر متزلزل نظر نہیں آتا ۔جب تک عوام کو حکمرانوں کے رویّے،اِقدامات اورحکمتِ عملی سے یقین اوراعتماد پوری قوت کے ساتھ جھلکتا ہوا بلکہ چھلکتا ہوانظر نہیں آئے گا،قوم بے یقینی اورتذبذب کا شکار رہے گی۔رسول اللہﷺ کی سنتِ جلیلہ بھی یہی ہے کہ جب آپ انتقام پرقادر ہوئے اورمخالفین آپ کے رحم وکرم پر تھے ،تو آپ نے تاریخِ انسانی میں عفوِعام کا بے مثال نمونہ پیش کیااورامن کی سوغات تقسیم کی۔بلاشبہ آج ہماری دینی، سیاسی ، معاشی اورمعاشرتی زندگی کورواں دواں رکھنے کے لیے امن کی اشد ضرورت ہے ،اس نکتہ پر کسی کو اختلاف نہیں ہے ،لیکن یہ منزلِ مراد اور گوہرِ مقصود کیسے حاصل ہو،اس کے بارے میں اہلِ نظر منقسم ہیں۔ہونایہ چاہیے کہ تمام طبقات کواعتماد میں لیاجائے ،قوم میں ایک اجماعی سوچ پیدا کی جائے،کیونکہ یہ ملک ہم سب کا ہے ،اسی سے ہماری پہچان ہے اوراس کی بقا اور استحکام پرہم سب اور ہماری آنے والی نسلوں کی فلاح کا مدارہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved