ضیاء الحق نوے دن میں اقتدار کی عوام کو منتقلی کے وعدے پر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تھے اور انہوں نے دو مرتبہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا مگر بعد ازاں ان تاریخوں کو منسوخ کر دیا کیونکہ وہ ایسی انتخابی فضا قائم کرنا چاہتے تھے جس میں ''مثبت مطلوبہ نتائج‘‘ حاصل ہو سکیں۔
پرویز مشرف سے معاملات طے پانے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس پہنچیں تو کچھ عرصے بعد ایک امریکی جریدنے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کو عام انتخابات میں حصہ لینے پر انہوں نے ہی قائل کیا تھا۔ یہ بات بالکل درست تھی۔ مشرف حکومت نے جب جنوری 2007ء میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو 2002ء کی طرح‘ انتخابات کو مینج کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اس پر متحدہ مجلس عمل اور تحریک انصاف سمیت متعدد چھوٹی سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ البتہ جمعیت علمائے اسلام (ف) ایم ایم اے سے علیحدہ ہو کر انتخابی میدان میں اتر آئی اور ایم ایم اے کا انتخابی نشان ''کتاب‘‘ بھی الاٹ کرا لیا۔ میاں نواز شریف جب وطن واپس آئے تو قاضی حسین احمد اور عمران خان نے اپنے اپنے طور پر میاں نواز شریف سے رابطہ کیا اور انہیں انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر آمادہ کیا۔ ان کا موقف تھا کہ پچاس سے زائد ججوں کو گھر بھیج کر اور ملک میں ایمرجنسی لگا کر ایل ایف او زدہ انتخابات سے سیاسی استحکام نہیں آئے گا، اگر تمام جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کر کے یکسو ہو کر تحریک چلائیں تو پرویز مشرف کی رخصتی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ کی سبھی اتحادی جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کا اعلان کر چکی تھیں، اس پر نواز شریف صاحب نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ اس پر بینظیر بھٹو نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں سمجھایا کہ اگر تمام جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تو پرویز مشرف کو دھاندلی کے بغیر ہی ''مطلوبہ مثبت نتائج‘‘ مل جائیں گے‘ اس لیے مشرف کے حامیوں کو اسمبلیوں میں پہنچنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ عام انتخابات میں بھرپور حصہ لے کر اس میں ہونے والی دھاندلی کو بے نقاب کیا جائے۔ سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ پیش نہ آتا تو ملک کا سیاسی منظر نامہ کچھ اور ہوتا کیونکہ پرویز مشرف مرضی کے لوگوں کو منتخب کرا کے نئی اسمبلی سے دوبارہ وردی میں منتخب ہونے کا ارادہ کیے ہوئے تھے اور اس صورت میں 2008ء کے انتخابات کے بعد ایک ملک گیر تحریک دیکھنے کو ملتی مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ غالباً اسی تجربے کے پیشِ نظر اب تحریک انصاف کی قیادت انتخابات کے بائیکاٹ کی بات سننے کو بھی تیار نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کا ماننا ہے کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اسے انتخابات میں حصہ لے کر ہی سامنے لایا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل ہی دھاندلی اور الیکشن مینجمنٹ کا جو شور اس بار سننے کو مل رہا ہے‘ ماضی کے کسی الیکشن سے قبل اس طرح کا شور سننے کو نہیں ملا۔اب سبھی تجزیہ کار یہ تسلیم کر چکے کہ موجودہ حالات میں جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے‘ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلم لیگی قیادت‘ جو اس سے قبل تک ''ہماری بات ہو گئی ہے‘‘ کا بیانیہ بنائے ہوئے تھی‘ کہہ رہی ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے خلاف ناجائز الزامات لگا رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آئین اور قانون کے مطا بق اپنا کام کر ہا ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے بھی اسلام آباد میں ایک جارحانہ کانفرنس کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت خواہ مخواہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا رونا رو رہی ہے، کاغذات چھیننے کے جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کو روکنے کیلئے نہیں‘ انہیں پروجیکشن دینے کیلئے ہو رہا ہے۔ اس پر کچھ ناقدین نے مشورہ دیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ نواز بھی اپنی پارٹیوں کو اسی طرح پروجیکشن دلوا لیں۔ دوسری جانب یہ جماعتیں اس حقیقت کو فراموش کر رہی ہیں کہ انہوں نے خود بھی الیکشن کمیشن پر کئی گنا زیادہ سنگین الزامات عائد کر رکھے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت وہ خط ہے جو شہبازشریف نے چیف الیکشن کمشنر کو لکھا تھا۔ مسلم لیگ نواز کے صدر کی حیثیت سے جناب شہباز شریف نے چیف الیکشن کمیشن کو خط میں پنجاب کے چند سینئر افسران پر دھاندلی کا منصوبہ بنانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے اپنے اس خط میں الزام لگایا کہ فلاں افسر مسلم لیگ نواز کے اور فلاں افسر پیپلز پارٹی کے ووٹ چرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جن افسران کو اس خط میں موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے‘ ان کی گواہی تو میاں نواز شریف اور منظور وٹو بھی دے سکتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک افسر نواز شریف صاحب کے بنائے گئے احتساب بیورو میں سیف الرحمن کے نائب تھے اور ان کا قصوریہ تھا کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف فراہم کیے گئے ریفرنسز اور ریکارڈ کی مکمل چھان بین کی تھی۔
اگر انتخابات میں دھاندلی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ملکی تاریخ میں اس حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے۔ 1977ء کے انتخابات کی دھاندلی تو اب سب پر عیاں ہے۔ 1988ء میں جب پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت بنی تھی‘ ان انتخابات میں کس طرح آئی جے آئی بنائی گئی اور کس طرح انتخابات میں ''مثبت نتائج‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی‘ یہ کہانیاں جنرل (ر) حمید گل ہر محفل میں سنایا کرتے تھے۔ 1990ء کے انتخابات‘ جس کے نتیجے میں جناب نواز شریف پہلی دفعہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے تھے‘ ان انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے تاج میں کس طرح سارے نگینے اکٹھے کیے گئے‘ یہ باتیں بھی اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اکتوبر1993ء کے انتخابات‘ جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں‘ اس کا ریکارڈ بھی سب جانتے ہیں۔1997ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی طویل جدوجہد بھی سب کے سامنے ہے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی قیادت کو گورنر ہائوس لاہور سے گرفتار کرنے، ان کے کمرے سے ڈالروں اور سونے کے درجنوں صندوق پکڑنے اور گھوڑوں کے اصطبلوں کی کہانیاں کئی دن تک سرکاری ٹی وی کے ذریعے عوام کی سماعتوں میں انڈیلی جاتی رہیں۔ عوام کو باور کرایا گیا کہ یہ گھوڑے سرکاری خرچ پر ایئر کنڈیشنڈ اصطبل میں مربے، شہد، جام اور سیب کھایا کرتے تھے۔ عوام کے ذہنوں میں مسلسل یہ باتیں انڈیلی جاتی رہیں کہ تمہیں ایک وقت کی روٹی نہیں میسر لیکن تمہارے حکمرانوں کے گھوڑے بھی شہد اور مربے کھاتے ہیں۔ یہی طریقہ کار اب اختیار کیا جا رہا ہے۔ ایک جیسے بیانات... پہلے ایک جماعت کا لیڈر آ کر الزام تراشی کرتا ہے، پھر دوسری جماعت کا لیڈر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتا ہے، پھر کسی تیسری جماعت کا لیڈر پریس کانفرنس کرنے لگتا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کا ایک عبوری فیصلہ کیا آیا‘ سب کی توپوں کا رخ اس طرف ہو گیا حالانکہ محض چار روز قبل یہ سبھی جماعتیں اپنی مشترکہ مخالف جماعت پر عدلیہ مخالف کمپین کا الزام لگا رہی تھیں۔ ایک نوزائیدہ پارٹی کے لیڈران تو اس بات پر شرطیں لگا رہے ہیں کہ ان کی مخالف جماعت بغیر انتخابی نشان کے میدان میں اترے گی اور مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہے گی۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کسی باکسر کے ہاتھ باندھ کر اسے رِنگ میں اتارا جائے۔ کچھ افراد دعویٰ کر رہے ہیں کہ جنوری کے آخر تک ایسا رَندا پھرے گا کہ مقابلے میں کوئی امیدوار ہی نہیں ہو گا۔ شنید ہے کہ کچھ پرانے کھلاڑیوں کی سفارش پر وہ طریقہ کار تبدیل کرنے کی بھی کوشش ہو رہی ہے جس میں کسی بھی پولنگ سٹیشن یا پولنگ بو تھ کا کوئی رزلٹ اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس انتخابی رزلٹ پر دستخط کر کے اس کی تصدیق نہیں کر دیتے۔ مثبت نتائج کے لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ طریقہ کار تبدیل کر کے وہی پرانا طریقہ اختیار کیا جائے جس میں محض پریذائیڈنگ آفیسر کے دستخطوں سے جاری نتائج ہی کو شمار کیا جاتا تھا۔ اگر یہ طریقہ کار نافذ کر دیا گیا تو سمجھ لیجئے گا کہ شفاف انتخابات کے نام پر پھر سے 'مثبت نتائج‘ کا حصول یقینی بنایا جا رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved