ہائے بے صبری! تُو نے تو انسان کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ کوئی کتنے ہی جتن کر دیکھے‘ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ جو کچھ دل ٹھان لیتا ہے وہ کرنے پر تُل جاتا ہے۔ ایسے میں انجام کے بارے میں سوچنے کی زحمت کون گوارا کرتا ہے؟ کوئی کتنا ہی یاد دلائے کہ بھائی! جو کچھ کر رہے ہو اُس کے انجام کے بارے میں بھی تو کچھ سوچو مگر کان دھرنے والے اُنگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
یہ بے صبری آخر ہے کیا اور ہوتی کیوں ہے؟ کیا یہ انسان کا مقدر کردی گئی ہے؟ کیا بے صبری انسان کی سرشت میں لکھی ہوئی ہے؟ ہم بیشتر معاملات میں ایسے بے صبرے کیوں واقع ہوئے ہیں کہ تیز رفتار نتائج یقینی بنانے کے لیے بنی بنائی بات بگاڑ بیٹھتے ہیں، اپنی ہی بساط اُلٹ دیتے ہیں؟ سوالوں کا ایک گھنا جنگل ہے جس میں سے ہم گزرتے ہی رہتے ہیں اور یہ جنگل ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، اِس کا کوئی سرا دکھائی نہیں دیتا۔ اُدھر سوالوں کا جنگل ختم ہونے میں نہیں آتا اور اِدھر ہم ہیں کہ کسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے سنجیدہ ہی نہیں ہوتے۔ کیوں؟ پھر ایک سوال! انسان طے کیے بیٹھا ہے کہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تلاش کرے گا اور مزید سوالوں کی گنجائش بھی پیدا کرتا چلا جائے گا۔ کسی بھی معاملے میں ہمارا عمومی رویہ کم و بیش بے صبری ہی پر مشتمل کیوں ہوتا ہے؟ ہم کسی بھی اور کیفیت کے مقابلے میں صرف بے صبری ہی کو نمایاں حد تک حرزِ جاں کیوں بنائے رہتے ہیں؟ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں گھما پھراکر بے صبری کی چوکھٹ پر چھوڑ کر چل دیتے ہیں؟
انسانی مزاج کو پیچیدگیوں سے دوچار کرنے والے عوامل دو چار نہیں‘ بے شمار ہیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے جو انسان کو بے صبرا بنانے پر تُلا رہتا ہے۔ کبھی اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے اور اُس کے مجموعی مزاج کے بارے میں سوچئے تو اندازہ ہوگا کہ ہر طرف ایسا بہت کچھ واقع ہو رہا ہوتا ہے جو قدم قدم پر انسان کو یاد دلاتا ہے کہ سنجیدگی اور استقامت کا دامن چھوڑ کر عدمِ تحمل اور بے صبری کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہنا ہی دانش کا تقاضا ہے! ماحول انسان کو بے صبرا بنانے پر تُلا رہتا ہے۔ خالص عمومی سطح کی زندگی بسر کرنے والے اگر کسی بات سے تحریک پاکر اپنی اصلاح کا عزم کرتے بھی ہیں تو بس ذرا سی دیر کے لیے۔ یہ عزم خالص وقتی معاملہ اور چند لمحات کا قصہ ہوتا ہے۔ جوش پیدا تو ہوتا ہے مگر دودھ کے جھاگ کی طرح بیٹھ بھی جاتا ہے۔ کھوکھلا یا وقتی جوش ہمارے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ یہ جوش ہر انسان میں پایا جاتا ہے مگر اِس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ انسان اپنے جوش و خروش کو اُسی وقت بارآور بناسکتا ہے جب وہ کچھ دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ یہ دنیا 'کچھ دو اور کچھ لو‘ کے اصول کی بنیاد ہی پر کام کرتی آئی ہے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لینا تو بہت کچھ چاہتا ہے مگر دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایسے میں زندگی کیونکر بارآور بنائی جاسکتی ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ بے صبری بلکہ شدید بے صبری کے ہاتھوں رونما ہونے والی الجھنیں اور پیچیدگیاں کسی کے مشاہدے میں نہ ہوں۔ ہم قدم قدم پر بے صبری کے منطقی نتائج کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے اُس کا جائزہ لینا، تجزیہ کرنا، نتیجہ اخذ کرنا‘ سبھی کچھ تو ہمارے اختیار کا معاملہ ہے۔ پورا ماحول کھلی کتاب کے مانند ہے۔ یہ ہمیں ہر معاملے میں بہت کچھ سکھانے پر آمادہ رہتا ہے مگر ہم ہی کچھ سیکھنے کے لیے خود کو تیار نہیں کرتے۔ لاکھوں میں چند ہیں جو کامیاب زندگی کے لیے بے داغ منصوبہ سازی کرسکتے ہیں۔ عمومی سطح کا معاملہ تو یہ ہے کہ انسان قدم قدم پر ذہن کو منتشر پاتا ہے۔ یہ دنیا اُن کے لیے ہے جو ہر معاملے میں سوچ سمجھ کر کوئی طرزِ عمل اپناتے ہیں۔ سوچے اور سمجھے بغیر کیے جانے والے فیصلے انسان کو لے ڈوبتے ہیں۔ معاملہ معاشی ہو یا معاشرتی‘ لازم ہے کہ منصوبہ ساز ذہنیت کو بروئے کار لایا جائے۔ اِس لیے لازم ہے کہ پہلے اِس ذہنیت کو پروان چڑھایا جائے۔
منصوبہ سازی انسان سے تحمل چاہتی ہے۔ اگر کوئی تحمل کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کرے تو منصوبہ سازی سے تحمل کی توسیع ممکن ہو پاتی ہے۔ منصوبہ سازی یعنی ہر کام کو منطقی انداز اور منطقی رفتار سے انجام تک پہنچانا۔ یہ وصف ہم قدرت کے عطا کردہ نظام یعنی کائنات سے سیکھ سکتے ہیں۔ کائنات کی تفہیم سے تحمل سیکھنا اس لیے ممکن ہے کہ ہم بھی اِسی کائنات کا حصہ ہیں۔ اگر کائنات سے ہم آہنگ رہنا ہے تو اُنہی اصولوں کو اپنے وجود کی بنیادوں میں شامل کرنا پڑے گا جو اس کائنات کو تھامے ہوئے ہیں اور چلا رہے ہیں۔ اگر کائنات سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ڈھنگ سے جیا جاسکتا تو پھر کوئی جھگڑا ہی کہاں ہوتا؟ سارا جھگڑا اِسی بات کا تو ہے کہ ہم کائنات کو دل کی گہرائی سے اپناتے نہیں اور قدم قدم پر دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم تو کائنات کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل رہے ہیں۔ یہ کائنات توازن کے دم سے قائم ہے۔ توازن یعنی استحکام اور تحمل! خالص علمی نقطۂ نظر سے سوچئے گا تو پائیے گا کہ تحمل صرف اِس بات کا نام ہے کہ جو کام جس طور اور جتنی دیر میں ہونا چاہیے وہ کام اُسی طور اور اُتنی ہی دیر میں ہونا چاہیے۔ ذرا سی عجلت بھی انسان کو لے ڈوبتی ہے اور ذرا سی تاخیر بھی بگاڑ پیدا کرتی ہے۔
آج ہر انسان بے صبری کے ہاتھوں خود کو برباد کرنے پر تُلا ہوا دکھائی دیتا ہے تو اِس کا سبب یہ ہے کہ اُس نے زندگی کو دانش کے دائرے میں رہتے ہوئے برتنے اور گزارنے کا ہنر سیکھا ہی نہیں۔ یہ پورا معاملہ تربیت کا ہے۔ انسان بہت سے اوصاف لے کر دنیا میں آتا ہے مگر اِس دنیا میں ڈھنگ سے جینے کے لیے سرشت یا جبلت کافی نہیں ہوتی۔ بہت کچھ سیکھنا اور اپنانا پڑتا ہے۔ سیکھنے اور اپنانے کے مرحلے سے کامیاب گزرنا لازم ہے۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ اِس دم بہ دم بدلتی ہوئی دنیا سے ہم آہنگ رہنا اُنہی کے لیے ممکن ہو پاتا ہے جو دانش کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ عمومی عقل تو حیوانوں کو بھی عطا کی گئی ہے اور یہ ہر انسان میں بھی پائی جاتی ہے۔ خام شکل میں واقع ہونے والی عقل کو بھرپور تربیت اور مشق کے ذریعے دانش میں تبدیل کرنا ہی انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی واقع یا رونما ہو رہا ہے اُس سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیوں سے ہم کنار رہنا ہی ہر انسان کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہاں سے آگے جانا ہے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ بہت کچھ پڑھا جائے، سوچا جائے، نتائج اخذ کیے جائیں، عقل کو بروئے کار لانے کا ہنر سیکھا جائے۔ اس معاملے میں تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ مشاہدہ بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہ بھی ہمیں بہت کچھ سکھا رہا ہوتا ہے۔ ماحول سے اچھی باتیں قبول کرنی چاہئیں اور بُری باتوں سے بچنا چاہیے۔ کہنے کو یہ بہت سادہ سی بات ہے اور لگتا ہے کہ بچوں کو بھی بتانے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان قدم قدم پر لڑھک جاتا ہے۔
انسان بہت کچھ پانا چاہتا ہے۔ یہ خواہش بُری نہیں لیکن اگر اپنے آپ کو پروان نہ چڑھایا جائے تو یہی خواہش قدم قدم پر سوہانِ روح بھی بنتی جاتی ہے۔ بہت کچھ پانے کی دُھن میں انسان سبھی کچھ پانے کی خواہش بھی کرنے لگتا ہے۔ یہ ہے سارے بگاڑ کا اصل سبب۔ یہی خواہش ہر معاملے میں شدید بے صبری کو پنپنے کا موقع دیتی ہے۔ کچھ پانے کے لیے بہت کچھ سیکھنا اور کرنا پڑتا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ جب ہم منطقی حدود سے نکل کر کچھ کرتے ہیں تو خود کو بے صبری کے رحم و کرم پر پاتے ہیں۔ کسی بھی معاملے کو اُس کی منطقی رفتار سے زیادہ تیزی کے ساتھ نمٹانا بے صبری پیدا کرتا ہے۔ اس رجحان پر قابو پائیے، کامیابی آپ کا مقدر بنے بغیر نہیں رہے گی۔ آزمائش شرط ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved