تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     31-12-2023

پی ٹی آئی کا قبلہ

ہمارے ملک کی سیاست کے ان دنوں عالمی میڈیا میں بھی چرچے ہیں۔انتخابات کو لے کر عالمی ادارے اورمیڈیا کافی متحرک نظر آتا ہے۔عالمی میڈیا کی خبریں کبھی کسی جماعت کے حق میں جاتی ہیں تو کبھی کسی جماعت کے حق میں۔ جس جماعت کے خلاف بات کی جاتی ہے تو دوسری جماعتیں اس کو کیش کرواتی ہیں جیسا کہ پچھلے دنوں ایک برطانوی اخبار نے نواز شریف کی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے پری پول دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے نواز شریف کو فائدے پہنچائے ۔ برطانوی اخبار کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں تاخیر کی تا کہ نواز شریف برطانیہ سے واپس آ کرالیکشن مہم کی تیاری کر سکیں۔ اس کے علاوہ انتخابی حلقہ بندیوں پر بھی اعتراضات کئے گئے ‘ حلقہ بندی میں تبدیلی کسی خاص فرد یا پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی جا رہی تھی۔ترجمان الیکشن کمیشن کا عالمی میڈیا کے ان الزامات پر کہنا تھا کہ حلقہ بندی قانون کے مطابق ہوئی جبکہ نواز شریف کے خلاف میرٹ پر کیسز ختم ہوئے۔انہیں انصاف مل رہا ہے تو تحریک انصاف کی طرح برطانوی اخبار نے بھی اس کو مشکوک نظروں سے دیکھاجس کے بعد تحریک انصاف نے خوشی سے چھلانگیں مارنا شروع کردیں‘لیکن اب برطانوی اور امریکی میڈیانے نواز شریف کی انتخابات میں ممکنہ جیت اور اس کی وجوہات بتائی ہیں جس کے بعد (ن) لیگ کافی خوش ہو رہی ہے۔برطانوی ادارے اکانومسٹ انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق2024ء کے اوائل میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گاجس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) جیت جائے گی اور پاکستان تحریک انصاف ہار جائے گی۔ مظاہروں میں شدت آئے گی لیکن فوج کی طرف سے تیزی سے روکا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ( ن) لیگ حکومت میں کس بنیاد پر آئے گی اور اس میں پی ڈی ایم کی کارکردگی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔برطانوی ادارے کے مطابق پاکستان نے جون 2023ء میں آئی ایم ایف سے نو ماہ کا قرض پیکیج حاصل کیا۔ جولائی میں طویل انتظار کے بعد آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی معاہدے پر بالآخردستخط کر دیے گئے جس نے پاکستان کی مشکلات میں گھری معیشت کے لیے امید کی کرن پیدا کی۔ ٹیکس چوری جیسی غیر قانونی سرگرمیوں پر کریک ڈاؤن تیز رفتاری سے جاری رہا جس کے نتیجے میں نمایاں بہتری آئی۔یہ اُس برطانوی ادارے کا مؤقف ہے اوراس کی جانب سے مختلف وجوہات بتائی گئی ہیں کہ( ن) لیگ کے اقتدارمیں آنے کے امکانات کیوں ہیں۔ اب دوسری کہانی امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی ہے ۔اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف اقتدار کے لائق کیوں نہیں اور اس کو دیوار کے ساتھ لگایاجارہا ہے تو اس کی ذمہ دار وہ خود ہے۔وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی قائدانہ صلاحیتوں پر تنقیدکرتے ہوئے ان کو ناکام آئیڈیاز کا حامل اور قیادت کیلئے ناموزوں قرار دیا۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پی ٹی آئی مشکلات کا شکار ہے لیکن بانی پی ٹی آئی اگر کسی طرح دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو وہ پاکستان کے تیز ترین زوال کا باعث بنیں گے۔اخبار نے لکھا کہ پاکستان بڑھتی ہوئی دہشت گردی، کم ہوتی فی کس آمدنی اور 30 فیصد افراطِ زر کا شکار ہے، ایسے میں پاکستان کو ناکام آئیڈیاز کے حامل لیڈر کے بجائے سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے ‘یعنی اگر تحریک انصاف اقتدار میں آتی ہے تو امریکی اخبار کے مطابق یہ پاکستان کی معیشت اورامن و امان کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔دیکھا جائے تو یہ بات درست ہی ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت پی ٹی آئی کے دور میں تنزل کا شکار ہوئی جس کے بعد ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا جس کوپی ڈی ایم کی حکومت نے ٹالااور اس کا کریڈٹ سابق وزیر اعظم شہباز شریف کو جاتا ہے۔اگر (ن) لیگ مداخلت نہ کرتی تو ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہوتا۔بانی پی ٹی آئی نے معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کے خارجی تعلقات کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی اورامریکی اخبار اس کا ذکر بھی کر رہا ہے۔امریکی اخبار کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے پاس امریکا کی مخالفت اور بائیں بازو کے پرانے معاشی خیالات کے سوا کچھ نہیں۔امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف کا قرض چاہیے اور امریکا آئی ایم ایف کا اہم رکن ہے، مگر بانی پی ٹی آئی اقتدار میں آگئے تو وہ امریکا سے پاکستان کے تعلقات خراب کر دیں گے۔امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کو غربت سے نکالنا ہے تو اس کے لیے بانی پی ٹی آئی موزوں نہیں‘ لیکن ان کے الیکشن لڑنے کے امکانات کم ہیں۔
دیکھا جائے تو پی ٹی آئی وہی کاٹ رہی جو اس نے بویا تھا۔بانی پی ٹی آئی نے انتقام کی سیاست کی لیکن وہ خود بھی اس انتقام کی آگ سے نہیں بچ سکے۔ عالمی میڈیا بھی اس پر بات کر رہا ہے۔یہ تو بتایا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی لیکن اس بات کا اقرار نہیں کیا جارہا کہ جو کچھ نو مئی کو ہوا وہ سراسر بغاوت تھی۔یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جماعت کے لوگوں کوصرف اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ انہوں نے الیکشن لڑنا ہے۔اس بات کی کیا ضمانت کہ وہ پھر سے ان غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے‘اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تحریک انصاف نے اپنے دورِ حکومت میں چار وزیر خزانہ بدلے لیکن معیشت کے حالات خراب ہی رہے۔ اگرتحریک انصاف کو پھر اقتدار ملتا ہے تو وہ معاشی چیلنج سے کیسے نمٹے گی؟ کیونکہ اس کے پاس نہ پہلے کوئی روڈ میپ تھا نہ اب ہے‘لیکن بانی پی ٹی آئی کی اب بھی یہ خواہش ہے کہ کسی طرح اقتدار میں آجائیں۔دیکھا جائے تو اب بھی کئی طرح سے تحریک انصاف کو ریلیف مل رہا ہے ۔ ایسا ریلیف نوازشریف کو اس وقت نہیں ملا جب وہ مقدمات بھگت رہے تھے لیکن بانی پی ٹی آئی کو سائفر میں ریلیف ‘ملا جس کے بعد قانونی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ شاید اس کیس میں انہیں کوئی ریلیف مل جائے۔اسی طرح پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کے حوالے سے بھی ہائیکورٹ نے بڑا ریلیف دیا۔ہمارے خیال میں ایک بات تو طے ہے کہ تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات میں بہت سے جھول پائے گئے۔پی ٹی آئی کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے سوالات اٹھائے کہ کسی اور کو چیئرمین پی ٹی آئی کاانتخابات لڑنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔جمہوری جماعت میں چلن بھی جمہوری ہونا چاہیے لیکن لگ ایسا رہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلے سے طے کرلیا تھا کہ یہ عہدہ وہ بیرسٹر گوہر کو دیں گے۔اب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق بلے کے انتخابی نشان کے معاملے پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کریں گے اور اگر ہائی کورٹ میں فیصلہ برقرار رہا تو الیکشن کمیشن شاید سپریم کورٹ بھی جائے۔کہنے کامقصد یہ ہے کہ ایک طرف آپ پارٹی آئین تو ڑیں اورجب آپ سے پوچھا جائے تو مظلوم بن کر کہیں کہ راستہ نہیں دیاجارہا ‘یہ وتیرہ قطعی طور پردرست نہیں۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ اپنی اداؤں پر غورکرے‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے اور آگے بڑھے‘ پھر جاکر اس کیلئے گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔بہرحال عالمی میڈیا تحریک انصاف کو اس کے اعمال پر قصوروار گردانتا ہے اور نواز شریف کو الیکشن جیتتا ہوا دیکھتا ہے۔اگر بانی پی ٹی آئی اپنی روش بدل لیں تو ممکن ہے ان کے بارے میں بھی رائے بدل جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved