2023ء بہت سی تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہو گیا۔ گزرے برس میں مادرِ وطن پر دہشت گردی، مہنگائی، بے یقینی اور سیاسی انتشار کے کالے سائے چھائے رہے۔ 25 دسمبر کو بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا 147واں یومِ ولادت انتہائی عقیدت و احترام سے منایا گیا مگر اس موقع پر بھی دل بو جھل رہا کہ ہم نے قائد کو آزاد وطن کے بدلے میں کیا دیا؟ اگر کوئی مسلمان ایک انسان کو غلامی سے نجات دلائے تو بدلے میں اسے اللہ تعالیٰ جنت عطا فرماتا ہے‘ قائداعظم نے تو دس کروڑ سے زائد مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا۔ قائد سے کسی نے پوچھا کہ آپ پاکستان کس کے لیے بنا رہے ہیں؟ قائداعظم نے جواب دیا کہ میں غریبوں کے لیے یہ ملک بنا رہا ہوں، ان شاء اللہ یہاں امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں ہو گا، سب برابر ہوں گے۔ آج ہم شرمندہ ہیں کہ قائد کی روح کو کیا جواب دیں گے؟ پاکستان کے ساتھ ہم نے کیا کیا۔ دراصل بابائے قوم کا یومِ پیدائش ہمارے لیے تجدیدِ عہد کا دن ہے کہ ہم نے قائد کے نظریے کی پیروی کرنی ہے یا اس دن کو اجلاسوں اور کانفرنسوں تک ہی محدود رکھنا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کا نقشہ بدل دیا اور تاریخ کا وہ معجزہ رونما ہوا جس کا نام پاکستان ہے۔ قائداعظم کی عظمت اور طاقت کا اندازہ ان الفاظ سے لگائیے کہ مسز سروجنی نائیڈو نے کہا تھا: ''اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی‘ ایک سو نہرو اور ایک سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ آتا‘‘۔ قائداعظم وہ عظیم شخص تھے جن کو نہ خریدا جا سکتا تھا اور نہ ہی جھکایا جا سکتا تھا۔ جب نہرو اور گاندھی پاکستان بننے کی مخالفت کر رہے تھے، بڑی شدت سے کوشش کی جا رہی تھی کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو اور پاکستان نہ بن سکے تو قائداعظم سیاسی و سماجی ہر دو سطح پر قیامِ پاکستان کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ ہٹاتے جا رہے تھے۔ آپ ایک پکے اور سچے مسلمان تھے اور آپ کا نصب العین ایک ایسی آزاد مسلم ریاست کا قیام تھا جس میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہو، جہاں وہ اپنے مذہب کے احکامات کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں، اسلامی معیشت اور سماجی دستور کے مطابق اسلامی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھایا جا سکے، علاقائی قومیتوں اور کسی غیر اسلامی نظریے کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے جو کہا‘ وہ کر دکھایا۔ یہی ان کے کردار کا وہ عظیم پہلو ہے جس نے پاکستان کی تشکیل کے نظریے کو عملی صورت بخشی۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ قائد کا وژن‘ 76 برس گزر گئے‘ ہم سمجھ ہی نہ سکے یا جان بوجھ کر اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ قائد سے پوچھا گیا کہ آپ جس پاکستان کو بنانے کی باتیں کرتے ہیں‘ اس کا نظام کیا ہو گا؟ قائد نے قرآن ہاتھ میں اٹھا کر فرمایا ''میں کون ہوتا ہوں نظام دینے والا‘ وہ تو ساڑھے تیرہ سو سال قبل آ گیا تھا‘‘۔ انہوں نے فرمایا ''اسلام صرف چند رسوم و روایات کا نام نہیں بلکہ مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی و سماجی مسائل کی رہبری کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے‘‘۔
درحقیقت قائد نے ریاستِ پاکستان کو ریاستِ مدینہ طیبہ کا پرتو بنانا تھا۔ بدقسمتی سے آج بھی ملک میں مغربی طرزِ حکومت کی وکالت میں دلیلیں دی جاتیں اور اس کو بہتر گنوایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مغربی جمہوریت ہی لانا تھی، توایسٹ انڈیا کمپنی کا نظام موجود تھا‘ اینگلو سیکسن لا بھی تھا۔ ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہم دوقومی نظریے کے اصل وارث ہیں اور آج پوری دنیا میں قائد کے نظریے کا عملی اطلاق ہو گیا ہے۔ ایک دنیا دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ایک دنیا مظلوموں کے ساتھ۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ رومال برابر بھی پاکستان دے دو‘ اس کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے، یہ نہیں کہا تھاکہ اس کو مغربی جمہوریت کی تجربہ گاہ بنانا ہے۔ اپنی آخری عوامی تقریر‘ جو قائداعظم نے یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کی تھی‘میں فرمایا ''جھوٹ بولتے ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں پاکستان میں اسلامی نظام نہیں آئے گا‘‘۔ جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان بننے کے بعد‘ قائداعظم سے کہا کہ آپ کے پاس ہندوستان کے بادشاہ اکبر کا رول ماڈل موجود ہے تو اس پر قائداعظم غصے میں آ گئے اور فرمایا: ''ہمارا ماڈل اکبر نہیں بلکہ ہم اسلام کے اصولوں کو اپنائیں گے، جو ہمیں ریاستِ مدینہ میں بتا دیے گئے ہیں‘‘۔
قائداعظم محمد علی جناح خودی کے اس مقام پر تھے کہ بقول اقبالؔ جہاں تقدیر کے فیصلے بھی بندۂ مومن کے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ افسوس ہر ادارے‘ عدلیہ سے لے کر انتظامیہ و مقننہ تک میں ان کے وژن کا فقدان پایا جاتا ہے۔ نوزائیدہ مملکت کا جب پہلا بجٹ بنا تھا تو وہ ایک کروڑ کا خسارہ پیش کرر ہا تھا جس پر وزیرِ خزانہ نے نئے ٹیکسز لگانے کی تجویز پیش کی جس پر قائد نے فرمایا کہ کیا ہم لوگوں کو پاکستان بننے کی سزا دیں؟ آج کیا ہو رہا ہے؟ بجٹ کا خسارہ غریبوں کا خون چوس چوس کر پورا کیا جا رہا ہے، اس ملک کو محض اشرافیہ کا ملک بنا دیا گیا ہے، یہ عام آدمی کا ملک ہرگز نہیں رہا۔ کسی نے قائد سے پوچھا تھا کہ گاندھی تھرڈ کلاس ریلوے میں سفر کرتے ہیں اور آپ فرسٹ کلاس میں‘ تو آپ کا کہنا تھا کہ وہ سرکار کے پیسوں پر سفر کرتے ہیں اور میں اپنے پیسوں پر۔ یہ ہوتے ہیں لیڈر! یہ ہوتا ہے اعلیٰ کردار۔ قائد کی دیانت و صداقت کے غیر مسلم بھی معترف تھے۔ خوش لباسی کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ افراد میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ قائداعظم نے پاکستان کے لیے لگ بھگ 80 کروڑ کی جائیداد چھوڑی‘ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بننے کے بعد بھی آپ اپنے ذاتی اخراجات اپنی جیب سے پورے کرتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے آپ سے استفسار کیا تو فرمایا: میں پاکستان کا خادم ہوں‘ مجھے زیادہ کی ضرورت نہیں۔ یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان! افتخار عارف نے ''قائد کے حضور!‘‘ میں لکھا تھا:
بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد
کیا کہیں‘ دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد
تُو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی ترے کوچے کی فضا تیرے بعد
قائد نے اتحاد‘ ایمان اور تنظیم کے تین سنہری اصول دیے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی من حیث القوم ان زریں اصولوں کو اپنایا گیا‘ پوری قوم سر خرو ہوئی۔ 2005ء کا زلزلہ اس کی بہترین مثال ہے۔ ایٹمی دھماکا کرتے وقت بھی یہی اصول مدنظر رکھے گئے تھے کہ پوری قوم یکجا تھی اور ہم نے یہود و ہنود کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاکستان کو عالم اسلام کی بڑی ایٹمی قوت بنا ڈالا۔ اس کے علاوہ کشمیر سے لے کر غزہ تک ہم کھڑے ہیں اور اپنے موقف سے ایک انچ بھی پچھے نہیں ہٹے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اتحاد‘ ایمان اور تنظیم کو انفرادی و اجتماعی طور پر مسلسل لاگو نہ کر سکے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ پاکستان کو ایسی محب وطن قیادت میسر ہی نہ ہو سکی جو بانیٔ پاکستان کا پاکستان بنانے میں مخلصانہ کردار ادا کرتی۔ آج کی قیادت کا جائزہ لیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ایک وہ وہ لیڈر تھے جواپنی اگلی نسلوں کے لیے فکر مند تھے اور مستقبل پر ان کی گہری نظر تھی‘ ایک موجودہ سیاسی قیادت ہے جس نے قومی و ملکی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ افسوس آج پھر ہم افتراق و انتشار کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے اور میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ میرے پاک وطن کے نوجوان کا ایمان و یقین متزلزل کیوں ہے؟ ہماری اشرافیہ کے بچے باہر‘ ان کے اثاثے باہر‘ انہوں نے ہی میرے ملک کے جوانوں کو مایوسی کے دلدل میں دھکیلا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے اپنے ملک کے نوجوانوں پر فخر ہے کہ وہ نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود اپنے زور بازو پر ملکی و قومی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان بنانے کے لیے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کرنا ہو گا، معاشی چیلنجز اور عام انتخابات کے پیش نظر مکمل شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved