2023ء بہت سی خوشگوار اور تلخ یادوں کے ساتھ اب قصۂ ماضی بن چکا ہے۔ اگرچہ سیاسی و سماجی حوالوں سے بھی یہ سال تادیر یاد رکھا جائے گا مگر معاشی حوالے سے یہ سال اس وجہ سے قابلِ ذکر رہے گا کہ پورا سال معاشی بحران اور معاشی دیوالیہ پن کے خدشات ہمارے سروں پر منڈلاتے رہے۔ اس دوران پہلے پی ڈی ایم اور بعد ازاں نگران حکومت کی جانب سے اپنے تئیں کچھ اقدامات کیے گئے مگر عوامی سطح پر جس چیز کا مطالبہ سب سے زیادہ سننے میں آتا ہے‘ اس پر تاحال کان نہیں دھرے گئے۔ پاکستان قوم ہر اس شخص کے خلاف صاف اور شفاف تحقیقات شروع کرنے میں ایک دن کی تاخیر بھی جرم سمجھتی ہے جس نے اس ملک کی دولت لوٹی ہے‘ خواہ وہ کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو۔ ملک کی دولت لوٹ کر اسے پاکستان سے باہر منتقل کرنے والوں سے ایک ایک پائی کی وصولی ہی اس ملک کی معیشت میں مستقل ٹھہرائو اور بہتری یقینی بنا سکتی ہے۔ لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے سے ایک طرف ملک کے معاشی نظام میں سدھار آئے گا اور دوسری جانب بلاامتیاز احتساب سے لوگوں کو عبرت ہو جائے گی اور وہ وطن عزیز کی دولت کو مالِ مفت سمجھ کر اڑانے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ اگر عدالتی حکم پر ہمیش خان کو لندن سے اور منصور الحق کو امریکہ سے واپس لایا جا سکتا ہے تو پھر کسی کو بھی بااثر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔
دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس کا احتساب اور بے لاگ احتساب کا بیانیہ ہی ہے جو تمام پاکستانیوں کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ عوامی سطح پر بلاامتیاز اور شفاف احتساب کی جو گونج سنائی دے رہی ہے‘ اسے اب مزید نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے، یہ روش ملکی معیشت سے کھلواڑ اور ملک کے دفاع سے غفلت کے مترادف سمجھی جائے گی۔ پی ٹی آئی نے 2014ء میں جب بلاامتیاز احتساب کا نعرہ بلند کیا تھا تو اس وقت پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ''کیا وجہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں احتسابی اداروں کو مطلوب کسی بھی شخص کو ایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب میں انتظامیہ ملزمان کی گرفتاری کے بجائے انہیں سلیوٹ مارنے اور وی آئی پی پروٹوکول فراہم کرنے میں دن رات مصروف رہتی ہے؟‘‘۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز‘ ایک دوسرے کی سب سے بڑی مخالف جماعتیں متصور ہوتی تھیں۔ اسی دور میں پاکستان سے نجانے کتنی ڈالر گرلز لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے خلیجی ریاستوں میں منتقل کر رہی تھیں۔ ایان علی کیس تو ایک چھوٹی سی مثال ہے‘ ایسی کئی کہانیاں ہیں جو ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہیں۔ پانچ لاکھ ڈالر دبئی لے کر جانے کی کوشش میں مشہور ماڈل کو پکڑا گیا تھا مگر یہ بات کوئی نہیں بتایا کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے کئی ماہ پیشتر ایک خط کے ذریعے متعلقہ اداروں کو یہ اطلاع دی تھی کہ دبئی سمیت بعض خلیجی ممالک میں سینکڑوں پاکستانیوں نے اربوں روپے غیر قانونی طریقوں سے منتقل کیے ہیں۔ مراسلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی ٹیکس اتھارٹیز سے رابطہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اب تک ان کی معلومات کے مطابق کراچی سے 265، لاہور سے 182، راولپنڈی اور اسلام آباد سے 106، پشاورسے 15 اور مختلف دیگر شہروں سے 92 افراد پیسہ غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک منتقل کر چکے ہیں۔
چند سال قبل ابوظہبی میں پاکستانیوں کا ایک گروہ پکڑا گیا تھا جو مختلف کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ میں ملوث تھا‘ یہ افراد منشیا ت کی سمگلنگ سے حاصل ہونے والے پیسے کو چھپانے کے لیے مختلف اکائونٹس میں پیسے کو گھمانے کے بعد بیرونِ ملک منتقل کر دیتے تھے۔ متعلقہ اداروں نے چند دن کی تحقیقات سے نہ صرف مجرموں کو پکڑ لیا بلکہ 10 سال قید اور ایک کروڑ جرمانے کی سزا بھی سنائی جبکہ سزا مکمل ہونے کے بعد تمام افراد کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں ایسے جرائم اگر پکڑے بھی جائیں تو سالہاسال تک مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا، فالودہ والے، پاپڑ والے اور دیگر ایسے افراد کے اکائونٹس میں اربوں روپے آنا اور پھر بیرونِ ملک منتقل ہو جانا کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان پر کتنی ٹھوس تحقیقات ہوئیں اور آخر پر ان کیسز کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب تک سخت قوانین اور تحقیقات کا غیر جانبدانہ طریقۂ کار نہیں بنایا جاتا تب تک دانستہ‘ نادانستہ مجرموں کی سہولت کاری جاری رہے گی۔ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان سے یہ بلیک منی صرف خلیجی ممالک ہی میں بھیجی جا رہی تھی، اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے کیونکہ اوور سیز پاکستانی ہمیشہ سے یہ شکوہ کرتے آئے ہیں کہ ہمیں تو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کہا جاتا ہے جبکہ ہماری آنکھوں کے سامنے متحدہ عرب امارات، برطانیہ، سپین، سنگاپور، جنوبی افریقہ، مالٹا ، کینیا اور امریکہ و کینیڈا سمیت بہت سے ممالک میں پاکستان سے ناجائز طور پر اکٹھا کیا جانے والا پیسہ گردش کر رہا ہے۔ ان سب کی بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ دھڑلے سے دنیا کے ہر ملک میں مختلف ناموں سے مہنگی جائیدادوں کی خریداریاں کی جا رہی ہیں۔ اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ ایسی جائیدادوں کو خفیہ یا پوشیدہ بھی نہیں رکھا جاتا۔ چند سال قبل خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لیے کچھ متعلقہ افراد جب دبئی پہنچے تو ان سے یہی سوال کیا گیا تھا کہ آپ کے ملک کا سارا سرمایہ تو دبئی اور یورپ پہنچ رہا ہے اور آپ ہمیں خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔مسلم لیگ کے گزشتہ دورِ حکومت میں سینیٹر اسحاق ڈار نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر غیر ملکی بینکوں میں پڑے ہیں‘ بعد ازاں اس بات کو اس طرح مذاق میں اڑا دیا گیا کہ آج بھی یہ مبالغہ آمیز حقیقت ایک فسانہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کسی ماہر اقتصادیات کی ضرورت نہیں کہ اس وقت پاکستانیوں کی کتنی دولت بیرونی ممالک میں موجود ہے۔ یقینا سب اثاثے لوٹ مار کا نتیجہ نہیں ہے۔ بہت سے افراد نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بھی بیرونِ ملک جائیدادیں بنائی ہیں مگر بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں کے اثاثوں کا اگر دس فیصد بھی لوٹ مار کے مال سے بنایا گیا ہو تو یہ بھی اتنی خطیر رقم ہو گی کہ ملک کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق لندن میں مقامی گوروں سے زیادہ جائیدادیں بھارتیوں اور پاکستانیوں کی ہیں۔ بھارتی لندن میں سب سے زیادہ جائیدادوں کے مالک ہیں، دوسرے نمبر پر پاکستانی ہیں اور تیسرے نمبر پر برطانوی۔
ایک خلیجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دبئی میں جائیداد خریدنے میں روسیوں کے بعد پاکستانیوں کا نمبر آتا ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد سے روسی افراد کی جانب سے دبئی سمیت خلیجی ممالک میں جائیداد خریدنے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے جبکہ روسی ارب پتی دنیا بھر میں مشہور ہیں، پاکستان میں آج تک چند افراد ہی بلینئرز لسٹ میں شامل ہوئے ہیں‘ اس کے باوجود دنیا کے ہر ملک میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی کہانیاں عام ہیں۔ آئس لینڈ کی ایک بڑی گروسری سٹور چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں بیشتر حصص ایک سیاسی شخصیت کے ہیں اور یہ اس کے ایک جانے پہچانے فرنٹ مین نے خرید رکھے ہیں۔ ایک بڑے ہائپر سٹور کی چین خریدنے والے کا نام کھوجنا کوئی مشکل نہیں۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ پتا کرنا لازم ہو جاتا ہے کہ وہ کون صاحب ہیں اور ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔اسی طرح خلیجی ممالک کے کئی پلازوں سے متعلق بھی وہاں مقیم پاکستانی اس طرح کی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ ان چیزوں کی کھوج کے لیے نہ تو کثیر وسائل کی ضرورت ہے اور نہ ہی طویل وقت کی۔ سرکاری سطح پر چند درخواستوں کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس ملک میں پاکستانیوں کی کتنی جائیدادیں ہیں اور معمولی سی تحقیقات سے علم ہو سکتا ہے کہ ان جائیدادوں کے خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔ اگر آج ادویات تک کی خریداری کیلئے ڈالرز نہیں‘ تو یہی کام کر کے دیکھ لیں‘ چند ایک کیسز ہی سے بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved