جس طرف بھی دیکھیے ایک دوڑ سی جاری ہے، بہت کچھ پانے کی دوڑ۔ بہت کچھ یعنی صرف مادّی سطح پر بہت کچھ۔ عام آدمی کی نظر میں ظاہر ہی سب کچھ ہے۔ باطن کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کرنے والے کم ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لے لے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایسی خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے۔ ہر معاملے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ ہم وہ سبب کیوں تلاش نہیں کرتے؟ معاملہ یہ ہے کہ جسے کچھ زیادہ نہیں پانا یعنی زیادہ کی خواہش ہے ہی نہیں‘ وہ بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی بہت کچھ پانے کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ خالص مادّہ پرست ذہنیت کے ہاتھوں ہمیں بہت کچھ کھونا پڑا ہے، بہت سی ایسی چیزوں سے محروم ہونا پڑا ہے جو زندگی کا حسن ہیں۔ انسان نے زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات کا حصول یقینی بنانے کی دُھن میں اپنے وجود کو تماشا بنا ڈالا ہے۔ دنیا بھر میں شہری زندگی ہی اب عمومی طرزِ زندگی بن کر رہ گئی ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگ بھی شہری علاقوں کے لوگوں کی طرح جینا چاہتے ہیں۔ بلند و بالا عمارتیں دیہی علاقوں کے لوگوں کو اپنی طرف بہت تیزی سے متوجہ کرتی ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ عمارتیں، یہ بھاگ دوڑ، یہ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنیاں ہی زندگی ہیں۔ یقینا یہ بھی زندگی ہیں مگر محض یہی زندگی نہیں۔ زندگی اور بھی بہت کچھ ہے، اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔
بہت کچھ پانے کے لیے سرگرداں رہنے سے یوں تو اچھا خاصا نقصان ہوا ہے؛ تاہم سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کا تعلق فطرت سے بہت حد تک منقطع ہوگیا ہے۔ ہم فطرت کے نظام کا حصہ ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی فطری ماحول سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ فطری ماحول ہماری توجہ چاہتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے بہت کچھ کچھ ہوتا ہے۔ ہمیں فطری ماحول سے بہت کچھ ملتا ہے۔ اس کے جواب میں ہمیں بھی اس ماحول کو پائیدار بنائے رکھنے اور زیادہ بارآور بنانے کے لیے بہت کچھ دینا اور کرنا ہوتا ہے۔ کیا ہم فطرت کے حوالے سے اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ فطرت ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے۔ ہم اُس سے بہت کچھ لیتے تو ہیں مگر اُس کے حُسن اور افادیت میں اضافے کی خاطر کچھ خاص نہیں کرتے۔ اب یہ معاملہ ون وے ٹریفک جیسا ہے۔ فطرت تو ہمیں تھوڑا بہت کچھ دے رہی ہے مگر ہم اُسے کچھ خاص دینے کو تیار نہیں۔ شہری زندگی نے انسان کو فطرت کے بارے میں سوچنے سے بہت دور کردیا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہمیں کچھ نیا کرنے، زندگی کو ندرت سے مزیّن کرنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ شہری ماحول میں عام آدمی تمام معاملات کو تصنع کی نذر کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے زیادہ سے زیادہ کمانے کی تگ و دَو کی نذر ہوں۔ اس تگ و دَو نے انسان کو کہیں کا نہیں رکھا۔
کیا ہم بھول گئے ہیں کہ سال کے چار موسم کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہیں، کیا ہمیں یاد نہیں کہ ہر موسم کا ایک الگ، عجیب لطف ہوتا ہے؟ ہر موسم ہماری توجہ چاہتا ہے۔ اگر ہم متوجہ نہ ہوں تو موسم کا حقیقی لطف ہمارے حصے میں نہیں آتا۔ شہروں کے عمومی فطری ماحول میں موسم سے لطف اندوز ہونے کی گنجائش زیادہ نہیں رہی۔ ایک طرف تو لوگ ہر وقت زیادہ کمانے کی فکر میں گم رہتے ہیں اور دوسری طرف اُن کے گھروں سے فطری نظام غائب ہوچکا ہے۔ بڑے شہروں میں اب آنگن والے گھر کم رہ گئے ہیں۔ زمین کی بڑھتی ہوئی قیمت ہر انسان کو یہی سکھارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور مزید چند کمرے تعمیر کرو اور کرائے پر چڑھادو۔ جب گھروں میں آنگن ہوتے تھے تو اُن میں درخت بھی ہوتے تھے، کیاریاں بھی بنائی جاتی تھیں۔ گھر کی حدود میں لگے ہوئے درخت کے پھل کچھ زیادہ ذائقہ دار لگتے تھے۔ کیاریوں میں اگنے والے پھول گھر کو مہکتا ہوا رکھتے تھے۔ آنگنوں میں تھوڑی سی گنجائش نکال کر مرغیاں، بکریاں بھی پالی جاتی تھیں۔ ذرا سے بڑے آنگن میں زیادہ مرغیاں ہوتی تھیں اور گھر والوں کو انڈے خریدنا نہیں پڑتے تھے۔ اِسی طور پرندے بھی پالے جاتے تھے۔ پرندوں کی دل نشیں چہکار علی الصباح ماحول کو زندگی سے آراستہ کردیتی تھی۔ آنگن، کیاریاں، درخت، پرندے، مویشی‘ اب یہ سب کچھ خواب و خیال کا حصہ ہے۔ خالص مادّہ پرست ذہنیت نے سبھی کچھ اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ مجموعی کیفیت ہی کچھ ایسی ہے کہ لوگ فطرت کی طرف متوجہ ہونے کو تیار نہیں۔ معیارِ زندگی بلند کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی دُھن میں وہ زندگی کے چند ایسے پہلوؤں کو نظر انداز کر رہے ہیں جو عدم توجہ کے باعث زندگی کے پورے ڈھانچے کو عدم توازن سے دوچار کر رہے ہیں۔
دور کیوں جائیے، ذائقے ہی کا معاملہ لیجیے۔ ہم موسم کے پھلوں سے محروم رہتے ہیں۔ کھانے پینے کے معاملات اِتنے الجھ گئے ہیں کہ بہت کوشش کرنے پر بھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کھویا ہوا ذائقہ کہاں سے لائیں۔ شہری ماحول میں فاسٹ فوڈ کی چاہت نے بیشتر کو یوں جکڑ رکھا ہے کہ اب روایتی انداز سے تیار کی جانے والی اشیائے خور و نوش کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نہیں رہی۔ ہم اگر زندگی کا بھرپور لطف چاہتے ہیں تو ناگزیر طور پر فطرت سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہی پڑے گا۔ فطرت ہماری توجہ چاہتی ہے اور ہم سے بھرپور ذوقِ عمل کی بھی طالب ہے۔ آتے جاتے موسموں میں رکھے جانے والے تغیر میں زندگی کا حسن پوشیدہ ہے۔ زندگی ہمیشہ حسین رہی ہے، اب بھی حسین ہے مگر ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں رہیں جو زندگی کے حسن کو دیکھ سکیں۔ وہ آنکھیں ہم نے خود ہی بند کر رکھی ہیں۔ تصنع اور دکھاوے کو پسند کرنے والی آنکھیں ہم نے خوب کھول رکھی ہیں۔
موسم آتے اور جاتے رہتے ہیں مگر ہم اپنے معمولات کو بدلتے ہوئے موسموں سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر بدلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ سردیوں کی صبحیں بہت سرد ہوتی ہیں مگر یہ سردی بھی قدرت کے طے کردہ مقاصد کے تحت ہے۔ سخت سردی میں بھی صبح کی سیر انسان کو ایسی تازہ ہوا دیتی ہے جو دن بھر جسم کو تر و تازہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ صبح کی سیر عمومی طور پر پر موسم میں بہت اچھی رہتی ہے مگر سردی میں اِس کا لطف زیادہ ہے۔ اِس لطف کو کشید کرنے کے لیے تھوڑی سی ہمت درکار ہوتی ہے۔ بہت سی بیماریاں محض اس لیے پروان چڑھتی ہیں کہ ہم موسم کی مناسبت سے اپنے معمولات نہیں بدلتے۔ موسم کا پھل اور موسم کی سبزی بھرپور دلچسپی اور تواتر سے کھائی جائے تو انسان بہت سے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ موسمِ سرما چل رہا ہے۔ ایسے میں دستر خوان پر تبدیلی دکھائی دینی چاہیے۔ محض مرغن کھانوں سے دستر خوان کو سمجھانے کے بجائے موسم سے مطابقت رکھنے والی اشیا سادگی کے ساتھ سجائی جانی چاہئیں۔ گوشت خوری کو کچھ دن کے لیے موقوف رکھ کر اِس موسم میں ساگ اور دیگر موسمی سبزیاں اپنائی جائیں تو اچھا۔ فاسٹ فوڈ کی طرز پر تیار کی جانے والی اشیا کے بجائے گھر میں سُوپ تیار کرکے پیجئے۔ جسم تو تبدیلی محسوس کرے گا ہی‘ آپ کا ذہن بھی اس تبدیلی کو محسوس کرنے اور محظوظ ہونے کے معاملے میں پیچھے نہیں رہے گا۔
شہری ماحول میں جینا انسان کی معاشی مجبوری ہے مگر اس مجبوری کی چوکھٹ پر فطرت سے اپنے تعلق کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ ہم معاشی امکانات کا افق وسیع تر کرنے کے چکر میں فطرت سے اپنے تعلق کی دنیا محدود کرتے جارہے ہیں۔ قدم قدم پر احساس تو ہوتا ہے کہ ہم سے کچھ غلط ہو رہا ہے مگر اِس طرف زیادہ متوجہ ہونے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ فطرت کو اپنائیے، قدرت کے بخشے ہوئے ماحول کو گلے لگائیے تو اندازہ ہوگا کہ زندگی میں کہاں کہاں کمی رہ گئی ہے اور ہم کسی بھی کمی کو کیونکر دور کرسکتے ہیں۔ زندگی گلدستہ ہے اور گلدستہ کسی ایک پھول کا نہیں ہوتا، اِس میں طرح طرح کے پھول ہوتے ہیں۔ ہر موسم ایک خاص کیفیت لاتا ہے۔ اُس کیفیت کو محسوس کیجیے گا تو اندازہ ہوگا کہ زندگی اور ماحول دونوں کتنی بڑی نعمت ہیں اور اِن سے مستفید نہ ہونا کتنی بڑی نادانی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved