بس کردو! خدا کے بندو! بس کردو! خدا کیلئے بس کردو!
کب تک بیٹیوں کو مارتے رہو گے! کب تک ان کے گلے گھونٹتے رہو گے! تم تو مشرکینِ مکہ کو بھی مات کر رہے ہو! وہ پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے۔ تم پال پوس کر‘ جوان کر کے مارتے ہو! اپنی جوانی یورپ اور امریکہ میں اپنی مرضی سے گزارتے ہو! سارے کام کرتے ہو! عیاشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہو اور جی بھر کر ہوتے ہو! پاکستان یاد آتا ہے نہ اپنی تہذیب نہ روایت! غیرت بھی سوئی رہتی ہے اور شرم بھی! جوانی ڈھلنے لگتی ہے تو بیٹی جوان ہو جاتی ہے۔ اب تم 180ڈگری کے زاویے پر گھوم جاتے ہو! غیرت‘ جو کنڈلی مار کر سوئی ہوئی تھی‘ جاگ اٹھتی ہے اور پھنکارنے لگتی ہے۔ پاکستان یاد آنے لگتا ہے۔ اب یہ خیال سوہانِ روح بن جاتا ہے کہ تمہارا تو اپنا کلچر ہے۔ تمہاری روایت کی رُو سے بیٹی اپنی پسند کی شادی نہیں کر سکتی۔ کر لے گی تو خاندان کی ناک کٹ جائے گی! کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے! یہ سوچتے ہوئے تمہیں موت پڑتی ہے کہ کل خدا کو کیا جواب دو گے۔ اب بیٹی کا لباس بھی کَھلنے لگتا ہے۔ اس کی وہ آزادی بُری لگنے لگتی ہے جس میں ڈوب کر تم نے اپنی جوانی گزاری! اب تم پیچھے پاکستان میں ایک اَن پڑھ یا نیم خواندہ یا نیم تعلیم یافتہ بھانجے یا بھتیجے کو ڈھونڈتے ہو۔ پھر بیٹی کو کسی بہانے سے واپس وطن لاتے ہو۔ وطن‘ جو تمہارا وطن ہے‘ تمہاری بیٹی کا نہیں! یورپ میں پلی بڑھی‘ پڑھی لکھی بیٹی کو زبردستی اس بھانجے کے ساتھ باندھتے ہو۔ انکار پر اس کا گلا گھونٹ دیتے ہو! تم بیٹی کے بھی مجرم! خدا کے بھی مجرم! انسانیت کے بھی مجرم!
جب تم کشاں کشاں یورپ گئے تھے تو کیا تمہیں نہیں معلوم تھا کہ وہاں کا رواج‘ کلچر‘ طور طریقہ کیا ہے؟ کیا اس وقت تم اندھے تھے؟ اُس وقت تم پر امیگریشن لینے کی دھُن سوار تھی! تم باؤلے ہو رہے تھے! تمہیں معلوم تھا کہ بیٹی وہاں پیدا ہو گی‘ یا وہاں پلے بڑھے گی تو جینز بھی پہنے گی۔ اپنی پسند کی شادی بھی کرے گی! مگر اس وقت تمہاری آنکھوں پر گورے پاسپورٹ کی‘ پونڈوں اور ڈالروں کی پٹی بندھی تھی۔ اُس وقت تم برادری سے مبارکبادیں وصول کر رہے تھے اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
سارہ نامی دس سالہ لڑکی جو انگلستان میں ماری گئی‘ جس کا باپ‘ چچا اور سوتیلی ماں بھاگ کر پاکستان آگئے‘ آکر چھپ گئے اور اب جنہیں واپس منگوا کر برطانوی پولیس نے گرفتار کیا ہے‘ اُس سارہ کا کیا قصور تھا؟ اسے کیوں مارا گیا؟ اسے خاموشی سے گھر کے اندر کیوں دفن کیا گیا؟ جب تم سفید چمڑی والی عورتوں سے شادیاں رچاتے ہو‘ کیا اس وقت نہیں سوچتے کہ کل یہ بچوں کو چرچ بھیجیں گی؟ پھر جب بچے ہو جاتے ہیں اور بڑے بھی ہو جاتے ہیں تو تمہیں سفید فام بیوی بھی بُری لگنے لگتی ہے اور اس کا بچوں کو چرچ بھیجنا بھی! کبھی تم بچوں کو چوری چھپے پاکستان لے آتے ہو۔ کبھی ان کی ماں کو طلاق دیتے ہو‘ کبھی بیٹی کو قتل کر دیتے ہو! آخر تم کیا چیز ہو؟ تم کبھی کچھ ہو تو کبھی کچھ! ایک جگہ ٹھہرتے ہو نہ ایک مؤقف اپناتے ہو! تمہاری جہالت‘ منافقت اور سفاکی نہ صرف تمہیں رسوا کرتی ہے بلکہ پوری پاکستانی کمیونٹی کو بدنام کرتی ہے! تم پاکستان کو چھوڑ جاتے ہو پھر بریڈفورڈ یا گلاسگو یا مانچسٹر یا لندن میں اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا پاکستان بنانا چاہتے ہو! یعنی تمہیں برطانیہ کے مزے بھی ملیں اور پاکستان کے بھی! یہ کس طرح ممکن ہے؟ یورپ میں جوان ہونے والی کتنی ہی لڑکیاں پاکستان لائی گئیں۔ زبردستی کی شادی سے بچنے کے لیے انہوں نے یورپی ملک کے سفارت خانے کو مدد کے لیے پکارا۔ سفارت خانے نے انہیں اس شادی سے‘ یا شادی سے انکار کی صورت میں موت سے‘ بچا کر سفارت خانے میں پناہ دی اور پھر انہیں یورپ واپس بھیجا۔ ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا مگر تم ہو کہ اسی ڈگر پر ڈٹے ہوئے ہو!
مجھے اپنا وہ کلاس فیلو یاد آرہا ہے جو مرحوم ہو چکا! بچے بہت چھوٹے تھے جب اس نے ہجرت کی اور یورپ جا بسا! میں اُسے یورپ میں ملا بھی تھا۔ بہت خوش تھا کہ شہریت مل گئی۔ ایک اعلیٰ معیارِ زندگی سے وہ لطف اندوز ہو رہا تھا! بیٹی نے وہیں تعلیم حاصل کی۔ جوان ہوئی اور شادی کا وقت آیا تو مرحوم نے پاکستان میں اپنے ایک عزیز سے بیٹی کی شادی کردی اور بیٹی کو واپس بھیج دیا کہ پاکستان میں میاں کے ساتھ رہے! یہ نہ سوچا کہ ساری زندگی یورپ رہنے والی لڑکی پاکستان میں نہیں رہ سکے گی! کچھ عرصہ وہ رہی! ایک بچہ بھی ہو گیا۔ مگر کب تک! یہاں کے اجنبی اور مکمل طور پر مختلف ماحول سے وہ ہم آہنگ نہ ہو سکی اور واپس یورپ جانے کا مطالبہ کر دیا۔ باپ اور میاں نے کہا کہ یہیں رہنا ہو گا! باپ نے ایک اور حماقت کی۔ داماد کو کہا کہ اس کا پاسپورٹ قبضے میں لے لو! لڑکی نے جو میاں کی نسبت بہت زیادہ پڑھی لکھی تھی‘ الٹی میٹم دے دیا کہ پاسپورٹ دو ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ! پاسپورٹ مل گیا۔ لڑکی نے بچے کو لیا اور واپس ''اپنے گھر‘‘ یورپ چلی گئی! یہاں سے واقعات نے ایک اور موڑ لیا! ایک درد ناک موڑ! باپ کو ننھے بچے کی یاد ستانے لگی۔ بیوی نے کہا یورپ آجاؤ! یورپ کیسے جاتا! بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بیوہ بہن بھی گھر میں اسی کی دست نگر تھی۔ اُدھر بچہ یاد آتا‘ ادھر ماں اور بہن کو چھوڑنا مشکل تھا۔ آخر کار بچے کی محبت غالب آگئی! ملازمت‘ ماں‘ بہن‘ وطن‘ سب کچھ چھوڑ کر یورپ چلا گیا! وہاں جا کر احساسِ جرم گلے میں پھانس بن گیا کہ پیچھے ماں اور بہن کا کیا بنے گا! اس شدید ذہنی کشمکش کے نتیجے میں اور تو کچھ کر نہ سکا‘ بیوی ہی کو طلاق دے دی! اندازہ لگا لیجیے کتنے گھر برباد ہوئے‘ کتنے انسان اُجڑ گئے! بچہ الگ باپ کی شفقت سے محروم ہو گیا!! یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ اسے سو سے‘ بلکہ ہزار سے ضرب دیجیے۔ کوئی سبق سیکھتا ہے نہ عبرت پکڑتا ہے!
مغربی ملکوں کو ہجرت کرتے ہو تو جہاز پر سوار ہونے سے پہلے فوائد اور نقصانات‘ دونوں کا کیوں نہیں سوچتے؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہجرت ایک پیکیج ڈیل ہے جس میں منفی اور مثبت دونوں پہلو شامل ہیں! مغربی معیارِ زندگی ملے گا۔ مالی آسودگی حاصل ہو گی۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ بچے پاکستانی نہیں‘ مغربی اقدار کو اپنائیں گے! پیکیج کے منفی اور مثبت دونوں حصوں کو قبول کرنا ہو گا۔ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو نہیں چلے گا۔ اوکھلی میں سر دو گے تو سر پر موسل بھی پڑے گا۔ خدا کے لیے داماد امپورٹ کرنا بند کرو! دو رنگی چھوڑ دو! یک رنگ ہو جاؤ! سراسر موم ہو جاؤ یا سنگ! ایک کشتی میں پاؤں رکھو! بیٹیوں کا قتل بند کرو! خدا سے ڈرو! دنیا تو خراب کر ہی رہے ہو‘ عاقبت بھی برباد کر رہے ہو۔ غیرت کے نام پر قتل پاکستان کا خاصہ ہے۔ اسے پیری فقیری اور جادو ٹونے کی طرح برآمد کرنا ضروری نہیں۔ ساری زندگی مغرب میں گزار کر آخر میں کارو کاری‘ ونی یا سوارہ ہی کرنا ہے تو افسوس ہے تم پر!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved