تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     13-10-2013

خرد کا نام جنوں رکھ دیا ،جنوں کا خرد

بالآخر نوبل امن انعام کا فیصلہ ہو گیا اور اس بار انعام اس بین الاقوامی تنظیم کے حصے میں آیا ہے جو شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ اس کا سرکاری نام Organization for the prohibition of chemical weapons ہے جس کا مخفف OPCW ہے۔ نوبل امن ایوارڈ کے لیے ملالہ یوسف زئی کو ہارٹ فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پورا مغرب ملالہ کے لیے دیوانہ ہو رہا تھا مگر پاکستان میں اس کے حوالے سے تحفظات تھے۔ تعلیم کے حصول کی جدوجہد میں ملالہ یوسف زئی کا جذبہ اور بلند عزم اپنی جگہ قابل تعریف سہی‘ اس کے باوجود 16 سال کی بچی نوبل پرائز جیسے اہم اور بڑے اعزاز کی ابھی مستحق نہیں ہو سکتی۔ ابھی تو اس کے سامنے فتح کرنے کو بہت سی دنیائیں باقی ہیں۔ عشق کے امتحاں ابھی باقی ہیں۔ ملالہ جیسی بلند عزم اور خوش بخت لڑکی یقینا دنیا میں کوئی اہم کام سرانجام دے گی۔ اُس کے حق میں اچھا ہوا کہ ابھی اسے یہ اعزاز نہیں ملا۔ سائنس کے میدان میں دیکھیں تو نوبل پرائز ان عظیم سائنس دانوں کو دیا جاتا ہے جو اپنی ساری زندگیاں کسی ایک گتھی کو سلجھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ اس بار فزکس کا ایوارڈ دو سائنس دانوں کے حصے میں آیا۔ ان میں ایک کی عمر اسّی برس ہے۔ یہ عظیم انسان وہ ہیں جو صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر کائنات پر غورو فکر کرتے ہیں اور صحیح معنوں میں قرآن پاک کی اس دعوت فکر کا جواب دیتے ہیں جس میں کہا گیا کہ کائنات پر غورو فکر کرو۔ نوبل پرائز کے حصول کے بعد بھی انہیں وہ شہرت نہیں ملی جو ملالہ یوسف زئی کی قسمت میں آئی؛ حالانکہ یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی‘ ادھیڑ عمری اور بڑھاپا کائنات کے کسی ایک راز سے پردہ اٹھانے میں صرف کردی۔ یہ عظیم لوگ وہ ہیں جن کی تحقیقات‘ خواہ وہ طب میں ہوں‘ کیمسٹری‘ حیاتیات یا طبیعات میں ہوں‘ اس سے آنے والی نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔ ایسے صاحبانِ علم کو نوبل پرائز ملتا ہے تو اس کی اہمیت‘ عظمت اور وقار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ امن کا نوبل پرائز بعض دفعہ ایسے افراد کو بھی دیا گیا جنہوں نے عالمی امن کو فروغ دینے کے بجائے دنیا میں بدامنی اور جنگ کے شعلوں کو ہوا دی اور انہی جنگوں کی کوکھ سے تڑپتی ہوئی انسانیت‘ بھوک اور غربت نے جنم لیا۔ 2009ء میں امن کا نوبل انعام امریکی صدر بارک اوباما کو دیا گیا‘ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سیاسی تنظیموں نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جس جیوری نے بارک اوباما کو امن کے اعلیٰ ترین اعزاز کے لیے نامزد کیا‘ ان کے پیش نظر اوباما کا کون سا کارنامہ تھا جس نے عالمی امن کو فروغ دیا۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر صدارتی الیکشن جیتنے والے سیاہ فام بارک اوباما نے اپنی ذات سے وابستہ امن کی اُن تمام امیدوں اور توقعات کو اُس وقت چکنا چور کر ڈالا جب اپنے پیش رو کی طرح انہوں نے بھی ’’عالمی امن کے فروغ‘‘ کے لیے افغانستان میں ’’جنگ‘‘ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور عالمی امن کی مضبوطی کے لیے ڈرون حملوں میں کمی کی بجائے تیزی کردی۔ یوں امن کے اس علمبردار نے افغان سرزمین پر جنگ کے شعلوں کو بجھانے کی بجائے مزید ہوا دی۔ عالمی امن ایوارڈ لینے والے بارک اوباما کے حکم سے بے گناہوں پر ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ اس جنگ کے شعلے اب پاکستان کے گلی کوچوں تک پہنچ چکے ہیں۔ بارک اوباما کو یہ انعام دے کر نوبل پرائز کی اہمیت کو کم کیا گیا! آنگ سان سوچی‘ میان مار (برما) کی اپوزیشن لیڈر ہیں جنہیں 1991ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ سوچی کی شخصیت کو جمہوریت اور امن کا استعارہ قرار دیا گیا اور اب امن کی یہی علمبردار اپنے ملک میں روہنگیا مسلم اقلیت پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ پوری دنیا میں برمی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں‘ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی عالمی تنظیمیں کہہ چکی ہیں کہ برما میں مظلوم مسلم اقلیت کا قتل عام جاری ہے۔ جو بدقسمت زندہ بچ گئے ہیں وہ اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق اور انسانی ضرورتوں کے تمام دروازے ان پر بند ہیں۔ اگر برمی رہنما امن اور انسانیت پر یقین رکھنے والی سچی رہنما ہوتیں تو وہ مظلوم انسانوں کے حق کے لیے کھل کر عالمی فورم اور اپنے ملک میں آواز اٹھاتیں‘ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ آنگ سان سوچی کی مجرمانہ خاموشی کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسی شخصیت کو نوبل امن انعام دینے سے اس پرائز کی اہمیت اور وقار میں کمی آئی ہے۔ دراصل سوچی 2015ء میں ہونے والے صدارتی الیکشن کی مضبوط امیدوار ہیں اور مسلمان اقلیت کی حمایت کر کے وہ برما کی اکثریت کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتیں۔ 2013ء کا نوبل امن انعام اقوام متحدہ کی جس ذیلی تنظیم کو دیا گیا ہے‘ وہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے۔ لیکن یہی تنظیم امریکہ اور روس کے پاس موجود کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے پر خاموش ہے۔ امریکہ بہادر اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مہلک کیمیائی ہتھیار رکھتا ہے بلکہ 2007ء میں امریکہ نے ان ہتھیاروں کا اپ گریڈ پروگرام شروع کیا اور مزید ہتھیار بنائے۔ امریکہ اور روس کو اپریل 2012ء کی ڈیڈ لائن دی گئی کہ وہ اپنے نیوکلیئر اور کیمیکل ہتھیاروں کو تلف کردیں۔ اس ڈیڈ لائن کو آج تک پورا نہیں کیا جا سکا۔ امریکہ کی پاکٹ تنظیم اپنے مربی کو وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیار تلف کرنے کا حکم جاری کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ امریکہ گائوں کے ظالم وڈیرے کی طرح چاہے تو غریب کسانوں کی کھڑی فصلیں اجاڑ دے لیکن کوئی اس کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ نوبل پرائز کی جیوری کو چاہیے کہ اگر وہ اس ایوارڈ کے وقار اور شان کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں عالمی دبائو سے نکل کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ تیروتفنگ بانٹنے والوں کو امن کے انعام دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ایسے عجیب فیصلوں پر یہی کہا جا سکتا ہے ؎ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved