2024ء میں‘ کیا میں وہ کچھ لکھ پاؤں گا جو 2023ء میں نہیں لکھ سکا؟
گزشتہ پچاس برس میں اس سرزمین پر فکر و نظر کا شاید ہی کوئی نیا چراغ روشن ہوا ہو۔ اگر کوئی دِیا جھلملایا تو اسے تیز ہواؤں نے آ لیا۔ یا پھر چراغِ بکف نے کہیں اور جا بسیرا کیا۔ یہاں لو دینے کی کوشش کرتا تو بجھا دیا جاتا۔ مذہب‘ سماجی علوم‘ ادب‘ کسی میدان میں فکر و فن کا کوئی بڑا مظہر سامنے نہیں جو اس ملک سے منسوب ہو۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سر زمین بانجھ ہو گئی ہے؟
یہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے۔ زمین کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ اگر ہوا آج بھی اُسی طرح چلتی ہے جیسے برسوں پہلے چلتی تھی۔ اگر بادِ صبا آج بھی چمن میں اٹکھیلیاں کرتی ہے‘ اگر بادِ نسیم آج بھی گل و سمن سے گلے ملتی ہے‘ اگر فطرت آج بھی لالے کی حنا بندی کرتی ہے تو فکر و نظر کے چراغ کیوں نہیں روشن ہو سکتے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ قدرت کی کرم فرمائی زمین کے ایک گوشے تک محدود ہو جائے؟ دن کو تو خورشید چمکے مگر رات ماہتاب سے محروم کر دی جائے۔
اس میں شبہ نہیں کہ یہ سب کچھ آج بھی میسر ہے۔ قدرت ہمیشہ کی طرح مہربان ہے۔ ہر کام مگر قدرت نہیں کرتی۔ کچھ انسانوں کو خود کرنا ہوتا ہے۔ سماج تو آدم و حوا کی اولاد نے بناناہے۔ فکر و نظر کی آبیاری معاشرے کو کرنی ہے۔ قدرت تو صلاحیتوں سے نواز دیتی ہے۔ یہ سماج ہے جو اسے پھلنے پھولنے کے لیے ماحول فراہم کرتا ہے۔ وہ اظہار کے مواقع دیتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جہاں گلاب اُگے‘ وہاں جھاڑ جھنکار بھی پیدا ہو جائیں۔ سماج میں لیکن تہذیب کا ایک عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے جو خود کار ہے۔ گلاب باقی رہتا ہے اور جھاڑ جھنکار ختم ہو جاتا ہے۔ فطرت کا درس یہ ہے کہ گلاب کی خوشبو کے لیے خار بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ اس عمل کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔
ہم ایسا نہیں کر سکے۔ ہم نے گلاب اور گھاس پھوس میں تمیز نہیں کی۔ تہذیب کے نام پر ہر اس پودے کو اُکھاڑ ڈالا جس کے رنگ و بو ہمیں پسند نہیں آئے۔ ہم نے اس بات کا ادراک نہیں کیا کہ چمن کا حسن تنوع سے ہے۔ گلدستہ اسی وقت بن سکتا ہے جب چمن میں ہر رنگ اور ہر طرح کی مہک رکھنے والے پھول میسر ہوں۔ ہم نے فساد کو اصلاح قرار دیا۔ اس کا نتیجہ ایک اُجڑے ہوئے گلستاں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
مذہب‘ سماجی علوم‘ سیاست‘ یہ سب میری دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ میں اُن پر بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر میں نہیں لکھ سکا۔ میرا تاثر ہے کہ ان کے بارے میں سماجی سطح پر صحیح علم کی شدید کمی ہے۔ ہمارے تصورات کو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مذہب اور سیاست کے باب میں پھیلی غلط فہمیوں نے جو ذہن تشکیل دیے ہیں‘ ان کو باقی رکھ کر اصلاح کی کوئی حکمتِ عملی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں اسی طرح کی تحریکوں کی ضرورت ہے جو یورپ میں تحریکِ نشاۃ الثانیہ اور تحریکِ اصلاحِ مذہب کی نام سے برپا ہوئیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے ان تحریکوں کے ایجنڈے سے اتفاق ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو اسی طرز کی فکری تحریکوں کی ضرورت ہے جو مذہب‘ سماج اور سیاست کے بارے میں قائم شدہ نظریات کو بدل ڈالیں۔ یہ روایت سے انحراف نہیں‘ اس کی تفہیمِ نو ہے۔ اسی کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے جس کے نقوش ہماری تاریخ کے ابتدائی صفحات پر ثبت ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں 2023ء میں ان موضوعات پر لکھ سکتا مگر میں ایسا نہ کر سکا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ وہ سماجی فضا ہے جس میں مجھے جینا پڑا۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ہم انتہا پسندی کی زد میں ہیں۔ یہاں اب وہ ماحول میسر نہیں ہے جس میں کوئی بات بے خوف و خطر کہی جا سکے۔ نہ ریاست اس کی اجازت دیتی ہے اور نہ سماج۔ مختلف یا نئی بات کے لیے یہ دونوں ادارے کبھی آمادہ نہیں رہے لیکن میرے دور میں اس کی سنگینی کئی گنا بڑھ گئی۔ ماضی میں ان قوتوں کو بات پسند نہ آتی تو وہ فتوے یا جوابی مضمون پر اکتفا کرتی یا جیل میں ڈال دیتی تھیں۔ اب وہ زندگی کے درپے ہوتی ہیں۔ آج ان قوتوں کے تصورات سے مختلف کوئی بات کہنا کم و بیش ناممکن ہو گیا ہے۔
مغرب میں ڈیکارٹ‘ ہیگل اور مارکس جیسے لوگ اگر پیدا ہوئے تو اسی وجہ سے کہ سماج نے ان کے لیے موقع پیدا کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ جبر کی قوتیں ان کے بھی خلاف تھیں۔ مارکس جیسے لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہا مگر انہیں جینے کا حق دیا گیا۔ اٹھارہویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یورپ میں جبر کی قوتیں کمزور ہو گئی تھیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس رہا۔ یہاں جبر کے مراکز پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے بلکہ ان کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ یورپ کی تاریخ کے برخلاف‘ ہمارے ہاں مذہب کبھی جبر کی علامت نہیں تھا۔ بلکہ اہلِ مذہب کو خود جبر کا سامنا رہا۔ پچھلی چار دہائیوں میں طاقت کی حرکیات میں تبدیلی آئی اور یہاں اہلِ مذہب کو کم و بیش وہی حیثیت حاصل ہو گئی جو پانچ صدیاں پہلے یورپ میں کلیسا کو حاصل تھی۔ وہ بادشاہ کے ساتھ سیاسی قوت میں شریک تھا اور عوام کے جان و مال کے فیصلے اس کی تائید سے ہوتے تھے۔ اب یہی کچھ ہمارے ہاں ہونے لگا ہے۔
بات نہ کہہ سکنے کی ایک دوسری وجہ بھی ہے اور وہ میری اپنی کمزوری ہے۔ میں نے اس جبر کو قبول کیا۔ میں نے جان و مال کی سلامتی کو ترجیح دی۔ میں اہلِ عزیمت میں سے نہ ہو سکا جو ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر اپنی بات کہتے ہیں۔ وہ حق گوئی کی ہر قیمت دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ جان و مال کے خوف کے پیشِ نظر میں نے بار ہا مصلحت اختیار کی۔ جو بات کھل کر کہنی چاہیے تھی‘ وہ اشاروں میں کہی۔ جسے رقم کرنا چاہیے تھا اسے بین السطور چھوڑ دیا۔ بعض موضوعات سے صرفِ نظر کیا‘ حالانکہ مجھے ان پر قلم اٹھانا چاہیے تھا۔
صرف میں نہیں‘ میری طرح کے اور بھی ہیں جن کے پاس معلوم نہیں کتنی گفتنی ہیں جو ناگفتہ رہ گئیں۔ جو لکھنا چاہتے ہوں گے مگر لکھ نہیں پائے۔ جو بولنا چاہتے تھے مگر بول نہ سکے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کا سبب ماحول کا جبر تھا‘ مصلحت تھی یا دونوں تھے۔ کئی کو تو میں جانتا ہوں۔ نجی محفلوں میں جو کچھ کہتے ہیں کسی عوامی فورم پر کبھی نوکِ زبان پر نہیں لاتے۔ میری طرح انہوں نے بھی جبر کو ایک طرزِ زندگی کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ اس کا نتیجہ نکل چکا۔ ہم ایک منافقانہ فضا میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ نفاق ہمارے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ اس فضا کو بنانے میں ہر شخص کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا اس کے پاس اختیار ہے۔
کیا 2024ء میں یہ فضا بدل جائے گی؟ کیا میں وہ کچھ لکھ سکوں گا جو میرے دل اور ذہن میں ہے؟ کیا ہم وہ ماحول دیکھیں گے جہاں اختلافِ رائے کو قدر کے طور پر قبول کیا جاتا ہے؟ کیا مجھ میں اتنی جرأت پیدا ہو جائے گی کہ میں مصلحت کی چادر اُتار پھینکوں گا؟ کیا میں جان و مال کے خوف سے آزاد ہو سکوں گا؟ مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس کسی سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ صرف ایک بات میرے بس میں ہے: میں اگر زندہ رہا تو 2024 ء کے آخری دن یہی کالم دوبارہ لکھوں گا‘ اس تبدیلی کے ساتھ کہ اس میں 2023ء کی جگہ 2024ء کا سال درج ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved