ہو سکتا ہے کہ اس عنوان کو کتابت کی غلطی سمجھتے ہوئے قارئین سوچیں کہ ''جناح کا پاکستان‘‘ کے بجائے غلطی سے پاکستان کا جناح لکھ دیا گیا ہے لیکن کالم کے شروع ہی میں اس غلط فہمی کو دور کر لینا ضروری ہے کہ یہ عنوان کسی غلطی کا شاخسانہ نہیں بلکہ اچھی طرح سوچ اور سمجھ کر رکھا گیا ہے، کیونکہ جیسا بھی ہے‘ جناح کا پاکستان تو ہمیں مل چکا ہے لیکن اس وقت سب جسے بیتابی سے ڈھونڈ رہے ہیں‘ جس کی تلاش کی جا رہی ہے‘ جس کا ہر کوئی شدت سے منتظر ہے‘ وہ پاکستان کا وہ ''جناح‘‘ ہے جو وطن کی اس نیّا کو پار لگا سکے، اس کے مسائل کو حل کر سکے اور اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور قائداعظم محمد علی جناح کی کاوشوں سے ''لا الہ الا اللہ‘‘ کے نام پر حاصل کیا جانے والا وطن تو ہمیں مل گیا اور اس کی پیشانی پر لکھے ہوئے ''ایمان‘ اتحاد اور تنظیم‘‘ کے الفاظ بھی ازبر ہو گئے جبکہ تنظیم اور ایمان کی تعریف کرتے ہوئے بیسیوں اشعار بھی درسی اور غیر نصابی کتابوں میں بھی درج ہو چکے ہیں‘ ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے سرکاری و نجی دفتر میں قائد کی تصویریں بھی سجا دی گئی ہیں‘ ہر گھر‘ ہر دفتر میں قائد کی صورت (کرنسی نوٹ) سے محبت کرنے والے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں‘ ہمارے ہر لباس اور یونیفارم پر بھی پاکستان کے جھنڈے کی شکل میں ہماری پہچان کنندہ کر دی گئی ہے لیکن ہم آج تک صحیح معنوں میں پاکستانی نہیں بن سکے ہیں۔ کراچی میں 28 دسمبر 1947ء کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا تھا ''مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے‘‘۔ جس نے ہمیں اتحاد کا سبق دینا تھا‘ جس نے یقینِ محکم اور تنظیم کو عملی قالب میں ڈھالنا تھا‘ جس نے ہمیں ایمان کا مفہوم سمجھانا تھا‘ وہ ''جناح‘‘ ہمیں کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے قائداعظم کی تعلیمات اور ان کے فرمودات کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ ہم قائداعظم محمد علی جناح کو بابائے قوم کہتے ہیں‘ ہر سال 25 دسمبر کو قائداعظم ڈے مناتے ہیں‘ ان کے وژن کو عملی تعبیر دینے کے وعدے کرتے ہیں، ان کے اقوالِ زریں کو زندگی کے رہنما اصول بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ کیسی قوم ہے کہ اپنے بابائے قوم کی تعلیمات ہی کو آئے روز اپنے پائوں تلے روندتی رہتی ہے۔
وہ لوگ جن کی مائیں‘ بہنیں‘ بیٹیاں مشرقی پنجاب میں تلواروں‘ برچھیوں‘ نیزوں اور بندوقوں کے زور پر چھین لی گئیں‘ وہ عفت مآب خواتین‘ جنہوں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر کنووں میں چھلانگیں لگا دیں‘ ان کے اہلِ خانہ تو یہاں تک کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ بابائے قوم ان کو خواب میں اس طرح دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جگہ خون رِستا نظر آتا ہے۔ ان سے جب بھی رونے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ شکوہ کرتے ہیں کہ لاکھوں عزتوں اور جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیے گئے وطن کو آئین اور قانون کے نام پر چیتھڑوں میں لپٹا دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بابائے قوم شکوہ کرتے ہیں کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ وطن جناح کی کوششوں اور ان کے فہم و فراست کی وجہ سے حاصل کیا گیا تھا یا جب کوئی کہتا ہے کہ جناح نے اپنی تمام جائیداد اور روپیہ‘ پیسہ پاکستان کے نام کر دیا تھا‘ جب وہ کہتے ہیں کہ محمد علی جناح کو پتا تھا کہ انہیں تپ دق جیسا موذی اور جان لیوا مرض لاحق ہو چکا ہے‘ ان کے پھیپھڑے ختم ہو چکے تھے لیکن انہوں نے پاکستان کی خاطر اپنا علاج اس لیے نہ کرایا کہ ا س کی ہلکی سی بھنک پڑنے سے بھی شاطر دشمن نے تقسیم ہند کے فارمولے کو التوا میں ڈال دینا تھا‘ تو وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تپ دق جیسے مرض کی وجہ سے چپکے چپکے خون تھوک کر اپنا مرض چھپائے رکھا کہ قوم کو ان کا آزاد اور قانون کا پاسبان ملک دے کر جائوں‘ ان کیلئے علیحدہ آزاد وطن ہو جہاں وہ عزت اور شان سے جی سکیں لیکن اب عالم ارواح سے پاکستان پر جو کچھ بیت رہا ہے‘ یہ مناظر دیکھ کر گاہے خیال آتا ہے کہ یہ ملک کیوں بنایا گیا؟ اگر پاکستان کو ایسا ہی بنانا تھا اور انہی لوگوں نے اس آزاد ملک میں حاکم بننا تھا‘ جو اس سے قبل انگریز کی غلامی میں بھی بخوشی جی رہے تھے تو اس ملک کے قیام کا کیا فائدہ؟ کیا فائدہ اگر یہاں کے رہنے والوں کو 76 برس بعد بھی اسی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ جیسا ان کے ساتھ انگریز کے دورِ غلامی میں ہوتا تھا۔
11 اگست 1947ء کو ملک کی قانون ساز اسمبلی کے اولیں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا تھا ''انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں‘‘۔ کیا ہمارے معاشرے میں انصاف اور مساوات کے اصول رائج ہیں؟ کیا ہمارے اربابِ بست و کشاد نہیں جانتے کہ ان دو اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہی کوئی معاشرہ ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے؟ یقینا سب کو علم ہے کہ جس معاشرے میں انصاف اور مساوات جیسے بنیادی اصولوں کی جتنی پذیرائی‘ ان کی فراہمی جس آسان ہو گی‘ وہ معاشرہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے گا۔ مگر اس کے باوجود ہم نے بابائے قوم کے فرمودات کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔
قائداعظم کے فرمودات، ان کی تعلیمات پر غور و فکر کرتے اور آئین و قانون کے روشن الفاظ اور ان کے عملی نفاذ کی تطبیق کرتے جانے اس کی کس پہر آنکھ لگی کہ آدھی رات کو اچانک کسی کے گریہ کرنے کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی، دیکھا تو کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا محسوس ہوا تو سوچا کہ ہوا کی وجہ سے کھل گیا ہو۔ دروازہ بند کر کے واپس بستر پر آکر لیٹا ہی تھا کہ محسوس ہوا کہ بغلی کرسی پر کوئی بیٹھا ہے، ایک لمحے کو پورے جسم میں سنسنی دوڑتی محسوس ہوئی مگر جیسے جیسے اس ہیولے کے خدوخال نمایاں ہوئے‘ سارا خوف جاتا رہا۔ بانیٔ پاکستان افسوس اور غصے کی سی حالت میں اس شخص کی جانب دیکھ رہے تھے۔ اچانک کہنے لگے: میری تصویر تو ہر افسر نے اپنے دفتر میں‘ اپنی پشت کی جانب لٹکا رکھی ہے لیکن میرے تصویر کے سامنے‘ اسی کمرے میں بیٹھ کر ''سودا‘‘ کرتے ہوئے ذرا سی بھی شرم سے کام نہیں لیتے۔ میں نے انہیں کب کہا تھا کہ قانون کو یوں پامال کرنا؟ بلکہ میں نے تو 30 اکتوبر 1947ء کو لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ '' یہ یاد رکھیے کہ انتقام اور قانون کی خلاف ورزیاں ہمیں کہیں کا نہ رکھیں گی اور بالآخر اس عمارت کی بنیادیں کمزور کر دیں گی جسے تعمیر کرنے کی حسرت برسوں سے آپ کے دل میں پل رہی تھی‘‘۔ مگر لگتا ہے کہ میرے کہے کا بھی ان پر کچھ اثر نہیں ہوا اور انہوں نے ہر وہ کام کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے جس کے خلاف میں نے اور میرے ساتھ ہندوستان کے دس کروڑ سے زیادہ مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی۔ میں نے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ کے ایک جلسے میں سب پر واضح کیا تھا کہ ''حکومت کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے‘ عوام کی بے لوث خدمت‘ ان کی فلاح و بہبود کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا‘ اس کے سوا برسر اقتدار حکومت کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘۔
آج انسانی حقوق، اخلاقی اقدار اور معاشرتی نظم و ضبط خطرناک حد تک گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ آزادی کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ اِس قائد نے تمہیں زمین کا ٹکڑا تو لے دیا مگر اس ملک کو ''پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ‘‘ تو تم نے بنانا تھا‘ افسوس تم اس ملک کو جناح کا پاکستان بنانے کے بجائے اس جناح کی تلاش میں رہے جو تمہارے اس ملک کو واقعی پاکستان بنا دے۔ یہ کہتے ہوئے بانیٔ پاکستان پھر سے غمگین ہو گئے اور خواب دیکھنا والا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ پسینے میں شرابور ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے وہ محمد علی جناح کے کمزور و نا تواں جسم کو ڈھونڈنے لگے لیکن وہاں سوائے ایک سبز کتاب‘ جس کے سرورق پر ''آئین پاکستان‘‘ درج تھا‘ کچھ نہیں تھا۔ اس نے اس کتاب کے کھلے اوراق پر دیکھا تو وہاں خون کی چند بوندیں تازہ گری ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved