تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     14-10-2013

علم الاقتصاد… شیخ محمد اقبال

حکمت و دانائی کے خزانوں میں سب سے بڑا خزانہ اللہ کی آخری کتاب قرآنِ حکیم ہے۔ سید الانبیاءﷺ کے کارِ رسالت کو اللہ نے اسی قرآن میں تین اہم ترین ذمہ داریوں سے واضح کیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی آیات تلاوت کرتے (سناتے) ہیں‘ دوسری یہ کہ وہ افراد کا تزکیہ یعنی ان کے باطن کو پاک اور صاف کرتے ہیں اور تیسری ذمہ داری یہ کہ وہ قرآن اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں اللہ نے کتاب اور حکمت کو علیحدہ لیکن ساتھ ساتھ بیان کیا ہے۔ اسی کتاب قرآن حکیم میں اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’اور جسے حکمت عطا کی گئی اسے وافر مقدار میں بھلائی مل گئی‘‘۔ (البقرہ: 269) اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمت اس قرآن حکیم کے خزانوں کا وہ علم ہے جو اللہ اس کی طلب میں سرگرداں لوگوں کو خاص طور پر عطا کرتا ہے۔ سیدالانبیاءﷺ نے اسے واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’دانائی کی بنیاد اللہ کا خوف ہے‘‘۔ (المسلم) آپؐ کی ان ذمہ داریوں کو اللہ نے قرآن پاک میں چار جگہ ارشاد فرمایا۔ دو دفعہ سورہ البقرہ میں‘ ایک دفعہ سورہ آل عمران میں اور ایک دفعہ سورہ جمعہ میں۔ لیکن اس آیت کے آخر میں اللہ نے یہ فرمایا کہ ’’اس سے پہلے تم کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔ کھلی گمراہی بنیادی طور پر جہالت کی بنیاد پر مبنی وہ علم ہوتا ہے جسے انسان حقیقت سمجھ کر اس پر کاربند ہو جاتا ہے اور پھر اس پر فخر کرنے لگتا ہے۔ حکمت و دانائی اور جہالت کا فرق میرے آقاؐ نے اس طرح واضح کیا کہ عمرو بن ہشام مکہ کے سرداروں میں ایک ایسا سردار تھا جس کی دانائی اور حکمت کی وجہ سے تمام اہلِ مکہ اسے ابوالحِکَم یعنی دانائی کا باپ کہتے تھے‘ لیکن آپؐ نے فرمایا یہ ابوالحِکَم نہیں ابوجہل ہے یعنی جہالت کا باپ ہے‘ جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ دنیا کا جو علم تم نے حاصل کیا ہے اور اس کائنات کے بارے میں جو تم جانتے ہو‘ کاروبار اور معیشت میں کامیابی کے جو تمہارے نظریات ہیں‘ اصولِ حکمرانی اور معاشرت کے جن اصولوں کو تم زندگی کی فلاح اور ترقی کی بنیاد سمجھتے ہو‘ یہ سب کے سب کھلی گمراہی ہیں کہ تمہارا یہ تمام علم ناقص اور تمہارے حواسِ خمسہ اور مشاہدہ تک محدود ہے‘ جبکہ اللہ کا دیا ہوا علم اور ان تمام معاملات میں رہنمائی اس کائنات کے خالق کا علم ہے۔ جہالت کا ایک اور طرۂ امتیاز یہ ہے کہ آدمی نے جو کچھ دیکھا ہوتا ہے‘ سنا ہوتا ہے‘ جو چیز اس کے مشاہدے میں آئی ہوتی ہے وہ اسے ہی مکمل علم تصور کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ علم کی کل کائنات ہی یہی ہے۔ اس سلسلے میں کنویں کے مینڈک کی مثال انتہائی شاندار ہے کہ اس مینڈک کے نزدیک کائنات کی وسعت وہ دیواریں ہیں جو کنویں کے ارگرد تعمیر ہیں۔ اس زمین پر بسنے والے انسانوں کو بھی اس کائنات کی وہی وسعت نظر آتی ہے جہاں تک ان کی نظر جاسکتی ہے یا ان کے خلائی جہاز پرواز کر سکتے ہیں‘ ان کے ٹیلی سکوپ مشاہدہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا سمندر اور زمین کی تہوں تک پہنچنے والے آلات اندر کی خبر لا سکتے ہیں۔ یہ ہے اس کنویں کے مینڈک‘ حضرتِ انسان کے علم کی آخری حد جو اسے حاصل کرنے کے بعد کائنات کے خالق کو چیلنج کرتا ہے… اس خالق کو جس کا دعویٰ ہے کہ ہم نے سات آسمان اور سات زمینیں تخلیق کیں۔ پھر وہ فرماتا ہے: ’’تم خدائے رحمن کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں پائو گے۔ پھر سے نظر دوڑا کر دیکھو‘ کیا تمہیں کوئی جھول نظر آتا ہے‘ پھر بار بار نظر دوڑائو‘ نتیجہ یہی ہوگا اور تمہاری نظر تھک ہار کر ناکام و نامراد لوٹے گی‘‘۔ (الملک :4) یہ ہے اس انسان کی کُل حیثیت جو اپنے علم‘ تجربے‘ مشاہدے اور ا س سے حاصل کی گئی دانائی کی بنیاد پر یہ سمجھتا ہے کہ میں نے دنیا کو خوبصورت بنا لیا ہے‘ اسے رہنے کے قابل اور دیدہ زیب کر دیا ہے۔ میں نے معاشرت‘ حکومت اور معیشت کے ایسے اصول وضع کر لیے ہیں جو انسانی فلاح پر مبنی ہیں۔ ان تمام معاشرتی‘ حکومتی‘ اخلاقی اور جمہوری اصولوں کی بنیاد وہ علم الاقتصاد یعنی معاشیات ہے جو سود‘ بینکاری‘ سرمایہ داری اور معاشی برتری و فلاح کے مضامین پر بحث کرتا ہے۔ اسی کی کوکھ سے کمیونزم جنم لیتا ہے اور اسی کی گود میں پل کر مغربی جمہوریت کا پودا توانا درخت بنتا ہے۔ یہ سارا نظام جس زمانے میں اس دنیا کو اپنے شکنجے میں لینے کے لیے ایک سیکولر ریاست کو تخلیق کر رہا تھا‘ جس دور میں مذہب کو حکومتی کاروبار سے دھکے دے کر باہر نکالا جا رہا تھا‘ نسل‘ رنگ اور زبان کی بنیاد پر قومی ریاستیں تخلیق ہو رہی تھیں‘ اسی زمانے میں یونیورسٹیوں اور درسگاہوں میں معاشیات ایک عظیم ترین مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جا رہا تھا اور دنیا کو یہ درس دیا جا رہا تھا کہ یہ معیشت ہی ہے جو اخلاق‘ عزت‘ غیرت‘ طرزِ زندگی‘ انصاف اور سیاسی نظام وضع کرتی ہے۔ یہ 1850ء کے بعد کا زمانہ تھا اور 1900ء کے شروع کی دہائی میں یہ پورا نظام اس دنیا پر پنجے گاڑ چکا تھا‘ قرآنِ حکیم کی اس آیت کے مصداق ’’اور ہم نے اس بستی کو ہلاک کیا اور ان کا واپس لوٹنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے نازل ہوتے نظر آئیں گے‘‘۔ (الانبیاء :96,95) اسرائیل کے علاقے میں یورپ سے یہودیوں کی آمد کا سلسلہ 1900ء کی پہلی دہائی میں شروع ہوا تھا اور اسی دہائی میں یاجوج ماجوج نے اس دجالی نظام کا نقشہ مکمل کر کے دنیا کو اس کے شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔ کتنے ایسے تھے جو اس خطرے سے با خبر تھے۔ انہیں اندازہ تک نہ تھا کہ ریلوے ٹرین جب کانٹا بدلتی ہے تو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ لاہور سے کراچی جاتے جاتے اچانک غیر محسوس طریقے سے مڑے گی اور پھر فیصل آباد جا پہنچے گی۔ لیکن وہ جنہیں اللہ نے قرآن کے ارشاد کے مصداق حکمت عطا کی ہوتی ہے‘ انہیں اس سارے واقعہ اور اس کی کھلی گمراہی کا ادراک اور علم ہو جاتا ہے۔ مسلم دنیا میں اس زمانے میں اللہ نے ایک فرزندِ عظیم کو حکمت سے مالا مال کیا اور وہ پکار اٹھا ’’کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام‘‘… علامہ محمد اقبال… جسے اللہ نے فراست‘ علم اور حکمت سے نوازا تھا‘ انہیں علم ہو گیا تھا کہ اس پورے جال اور خوبصورت نظر آنے والے آہنی شکنجے کے پیچھے وہ سودی بینکاری کا نظام ہے اور اس کو پُرپیچ بنانے کے لیے اقتصاد یعنی معاشیات کا علم تخلیق کیا گیا ہے۔ اقبال ایم اے کرنے کے بعد 12 مئی 1899ء کو اورینٹل کالج لاہور میں عریبک ریڈر کے طور پر ملازم ہوئے اور وہاں وہ مئی 1903ء تک کام کرتے رہے۔ 1903ء کی اورینٹل کالج کی رپورٹ بتاتی ہے کہ وہ ایک کتاب تحریر کر رہے تھے جس کا نام علم الاقتصاد تھا۔ یہ کتاب 1904ء میں شائع ہوئی۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس کتاب کو اس زمانے کے کسی ناشر نے شائع نہیں کیا بلکہ اقبال نے اسے خود شائع کیا اور پھر دوسرے ایڈیشن کی نوبت نہ آئی کیونکہ 1905ء میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ یہ کتاب اگرچہ اس نظام کے آغاز میں لکھی گئی ہے لیکن آپ حیران ہوں گے کہ 185 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کوئی ایک موضوع بھی ایسا نہیں جو آنے والی پوری صدی کے دوران معاشیات میں زیر بحث آیا ہو اور اس پر اقبال نے روشنی نہ ڈالی ہو۔ کارل مارکس کے کمیونزم سے لے کر مالتھس کے نظریۂ آبادی اور پھر بینکوں کے مکروہ نظام کے ذریعے مصنوعی دولت کی پیداوار تک اقبال نے ہر معاملے پر بحث کی ہے۔ انہوں نے اقتصادیات کے علم میں مروجہ اصطلاحات کو نئے معنی دیے ہیں۔ وہ لوگ جو اقبال کو اشتراکی یا مغربی جمہوری فکر کا حامی ثابت کرتے ہیں‘ اس کتاب میں اقبال نے اپنی جوانی کے آغاز میں ہی اس کا رَد کردیا ہے۔ اقبال نے لکھا: ’’بالشویک نظریات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے۔ میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن مجید نے تجویز کیا ہے‘‘۔ اقبال امت سے گلہ بھی کرتے نظر آتے ہیں: ’’مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے‘‘۔ یہاں مجھے بھی اقبال سے ایک گلہ کرنا ہے کہ کتاب ذرا سی مشکل ہے اور عام قاری شاید توجہ کھو دے۔ میری خواہش ہے کہ اقبال کی اس کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ کو کوئی صاحب ذرا کھول کر شرح کے ساتھ تحریر کردیں۔ میرے لیے تنگیٔ وقت نہ ہوتی تو خود یہ نیک کام سرانجام دیتا کہ آج کے دور میں اس امت کی رہنمائی کے لیے یہ بہت اہم کتاب ہے۔ یہ کتاب چونکہ اقبال نے خود شائع کی ہے اس لیے مصنف کے نام کے ساتھ نہ ڈاکٹر لکھا ہے اور نہ ہی علامہ بلکہ شیخ محمد اقبال لکھا ہوا ہے۔ مجھے یہاں سنگ میل پبلیکیشنز لاہور کا شکریہ بھی ادا کرنا ہے کہ جس کتاب کو اقبال کی زندگی میں کسی ناشر نے شائع نہ کیا‘ اسے اس امت اور اس قوم کی رہنمائی کے لیے انہوں نے وقت کی گرد سے نکال کر 2011ء میں دوبارہ شائع کردیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved