تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     03-01-2024

معصوم پاکستانی سپورٹرز

پاکستان جس مشکل میں پھنس گیا ہے اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جانا چاہیے؟ جس کو ٹھہرائیں گے اُس کا فین کلب آپ کو پڑ جائے گا اور اُسے فرشتہ ثابت کر دے گا اور اُس کے مخالفین کو سب کچھ کا ذمہ دار سمجھے گا۔ اس پر کئی دفعہ بات ہوچکی ہے کہ اس چوبیس کروڑ کے ہجوم کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جنہوں نے اپنی اپنی مرضی کے لٹیرے چُن رکھے ہیں۔ صرف ان کا لٹیرا نیک اور ایماندار اور اچھا ہے‘ باقی سب شیطان اور ملک دشمن ہیں۔ اگرچہ انسان ایک طرح نہیں سوچتے اور انہیں سوچنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ diversity ہی اس دنیا کی خوبصورتی ہے۔ اگر پوری دنیا ایک جیسا سوچنا شروع کر دے تو پھر اس زندگی اور کائنات کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ اس لیے لوگوں کا مختلف لیڈروں یا سیاسی نظریات کو فالو کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ انسانی مزاج ہے کہ ہم خیال لوگ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ محفل جمانا یا اپنے نظریات کو شیئر کرنااچھا سمجھتے ہیں۔ یہ بھی انسانی نفسیات ہے کہ ہر نظریے کے فالوورز خود کو سچا اور دوسرے نظریے کے لوگوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور یوں نظریات اور انسانی سوچ کا ٹکرائو چلتا رہتا ہے اور انسانی ارتقا جاری رہتا ہے۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی نظریاتی بنیادوں پر سیاست کی جاتی ہے لیکن مہذب معاشرے اپنے لیڈروں کی اندھا دھند تقلید نہیں کرتے۔ اگر ان لیڈروں بارے کوئی انکشافات سامنے آ جائیں تو وہ فوری طور پر اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ پبلک لائف سے الگ ہو جائیں۔ عہدے چھوڑ دیں‘ پارٹی چھوڑ دیں بلکہ گم ہو جائیں۔ اگر انکشافات کی نوعیت مجرمانہ ہے تو پھر پولیس اور عدالت کا سامنا کرے گا اور سزا بھگتے گا۔ وہاں جتنا بڑا لیڈر یا حکمران ہے اسے زیادہ سزا دی جاتی ہے۔ وہ معاشرے اپنے جیسے انسانوں کی پرستش سے آگے نکل گئے ہیں۔ ان کے نزدیک انفرادی لوگ اہم نہیں ہیں۔ ابھی ٹرمپ کو دیکھ لیں کہ وہ امریکہ کا پاپولر لیڈر ہے لیکن عدالتیں اسے بھی سزائیں سنا رہی ہیں۔ اس کے بھی بڑی تعداد میں حامی موجود ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ اگر اسے الیکشن لڑنے دیا جائے تو وہ آرام سے دوبارہ جیت جائے گا‘ لیکن ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ لوگ اپنے پسندیدہ بندے بارے کوئی بات نہیں سننا چاہتے اور اس کا فائدہ اُن لیڈروں نے اٹھایا ہے جو خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے۔ وہ خود کو ہر قانون اور قاعدے سے اوپر سمجھتے ہیں اور یہ بات اُن کے فالوورز کو بڑی اچھی لگتی ہے کیونکہ وہ فالوورز یہی خواب اپنے لیے دیکھتے ہیں کہ ان کو کوئی ٹچ نہ کرسکے۔ وہ 'اپن ہی بھگوان ہے‘ بن کر زندگی گزاریں۔ دھوم دھڑکے سے‘ لش پش سے‘ ڈان بن کر گاڑیوں سے اُتریں‘ ساتھ میں محافظوں کی فوج ہو جو لوگوں کو دھکے دے کر راستہ بنائے اورہ وہ کالے گلاسز لگائے چل رہے ہوں۔ یہ رعب دبدہ ہم سب چاہتے ہیں اس لیے ہمیں وہی بڑے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ آج بھی دیہات میں الیکشن جیتنے کا یہی فارمولا چلتا ہے کہ ایک بڑی گاڑی لیں‘ اس میں چار پانچ کلاشنکوف اٹھائے گارڈز ہوں جو گاڑی رکنے سے پہلے ہی جمپ لگا کر نیچے اتریں اور صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھول دیں۔ گاڑی کے پیچھے ایک اور ڈالہ ہو جس میں مزید لوگ ہونے چاہئیں۔ الیکشن کے دنوں میں یہ لطیفہ زیادہ عام ہوتا ہے کہ پانچ دس کروڑ کی لگژری گاڑی سے بندہ اتر کر ایک جھونپڑی کے سامنے کھڑے غریب بندے کے سامنے ہاتھ باندھ کر کہتا ہے سائیں میں تہاڈا غلام۔ اور وہ بے چارا غلام اسی خوشی سے بے حال ہوجاتا ہے کہ آج بھگوان اس کے دروازے پر چل کر آیا ہے۔ اس بے چارے کو گھر میں جگہ نہیں مل رہی ہوتی کہ اُسے کہاں بٹھائے۔ وہ کبھی اپنی جھونپڑی تو کبھی گاڑی اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑے حکمران کو دیکھتا ہے جو اس کے ایک ووٹ کا محتاج ہے اور اس کا ایک ووٹ اس کو حکمران بنا سکتا ہے۔ وہ ووٹ چھوڑیں اپنی جان دینے کو تُل جاتا ہے۔ اس نفسیات کا ہمارے سیاستدانوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک دفعہ ایک وزیر سے پوچھا کہ جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو اکثر یہ گلہ سامنے آتا ہے کہ وہ اپنے ووٹرز سے کٹ جاتے ہیں‘ فون سننا بند کر دیتے ہیں یا فون نمبر ہی بدل دیتے ہیں۔ پھر دوبارہ ووٹ مانگنے کیسے جاتے ہیں؟ انہوں نے حیران کن جواب دیا۔ کہنے لگے: اپنے ایسے سپورٹرز کو راضی کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ اُن سب کو تھوڑی توجہ اور اہمیت چاہیے ہوتی ہے تاکہ وہ لوگوں کو بتا سکیں کہ وہ فلاں وزیر یا ایم این اے کے کتنے قریبی ہیں۔ ان سب سپورٹرز کی سب سے اہم ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ ان کے گھر وزٹ کر کے پولیس سکارٹ کیساتھ کھانا کھائیں جہاں اُس نے علاقے کے چند معززین اکٹھے کر رکھے ہوتے ہیں‘ رشتہ دار بھی موجود ہوتے ہیں۔ وہ بولا: الیکشن قریب آتے ہی وہ اسلام آباد سے نکلتے ہی کسی ایک ایسے سپورٹر کو فون کر دے گا کہ کل تمہارے گھر آرہا ہوں۔ دیسی مرغی کھائے عرصہ ہوگیا ہے۔ بس اس ایک کال پر اُس کی خوشی دیکھنے کے لائق ہوتی ہے اوراُسے جگہ نہیں ملتی جہاں وہ سما جائے۔ وہ فوراً لوگوں کو بتانا شروع کر دے گا کہ کل فلاں وزیر صاحب اس کے گھر تشریف لا رہے ہیں۔ بس اس کی اتنی فرمائش ہوتی ہے جو ہم پوری کر دیں۔ ہاں کبھی وہ ڈیرے پر آجائے کسی بندے کو لے کر تو اسے اُٹھ کر ملیں‘ اُس کا نام لے کر بلائیں۔ اس کے لیے کافی ہے کہ دیکھیں اتنے سارے لوگوں میں اُٹھ کر ملا اور نام تک یاد تھا۔
ایک قسم اور بھی سپورٹر کی ہوتی ہے جس نے اپنے گائوں میں اپنی پرانی دشمنیاں نبھانی ہوتی ہیں۔ کسی سے پرانا ادھار چل رہا ہے۔ برادریوں کی لڑائی ہے‘ رشتہ دار تک ایک دوسرے سے لڑے ہوئے ہیں۔ وہ الیکشن کے دنوں میں اپنی دشمنیاں نکالتے ہیں اور پولنگ ڈے پر ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں کہ الیکشن ان کے نزدیک زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اگر پولنگ ہار گئے تو پھر گائوں میں کیا منہ دکھائیں گے کہ چودھری ہار گئے۔ یوں اس کھیل میں فائدہ دونوں اطراف کے امیدواروں کو رہتا ہے جنہیں کسی سے ووٹ نہیں مانگنا پڑتا۔ وہاں پہلے سے دھڑے بنے ہوئے ہیں اور ایک دھڑا یقینا آپ کے ساتھ اللہ واسطے کھڑا ہوگا اور جان لڑا دے گا۔
پھر ایک اور دھڑا ہوتا ہے جو گائوں میں چودھراہٹ چاہتا ہے۔ مخالفین کی بہنوں بیٹیوں کے ٹرانسفر کرانے کا شوقین ہوتا ہے یا پھر اس گائوں کے وہ سب نوکری پیشہ لوگ جنہوں نے ووٹ نہیں ڈالا ہوتا‘ ان سب کی فہرستیں وہ تیار رکھتا ہے اور جونہی اس کا پسندیدہ بندہ ایم این اے اور ایم پی اے بنتا ہے‘ اگلے چند دنوں بعد دھڑا دھڑ تبادلے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ چند برسوں میں اس رجحان میں کمی آئی ہے اور تبادلوں کا سسٹم بہتر ہوا ہے تو اس کا کریڈٹ پنجاب میں تحریک انصاف کی عثمان بزدار کی صوبائی حکومت کو‘ تمام تردیگر خرابیوں کے باوجود دینا چاہیے۔
اب بتائیں ایسے ووٹرز اور سپورٹرز کہاں ملیں گے جو اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں ک لیے اپنی جانیں دے کر آپ کو اپنے سر کا تاج بناتے ہیں؟ اور اگر آپ لمبے لمبے ہاتھ مارتے ہوئے پکڑے جائیں تو وہ پورا سال گائوں‘ گلی محلے سے لے کر سوشل میڈیا تک جنگیں لڑتے ہیں اور آپ کے مخالفوں کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں اور آپ کو معصوم ثابت کر تے ہیں‘ چاہے آپ رنگے ہاتھوں ہی کیوں نہ پکڑے جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved