یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان نہیں بنا تھا اور ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ لاہور متحدہ ہندوستان میں علمی‘ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہاں کے گلی کوچوں میں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ اور دوسری قومیتوں کے لوگ ایک ساتھ رہتے تھے۔ اُن دنوں لاہور کی سڑکوں پر تانگے چلتے تھے اور گاڑیاں کم کم نظر آتی تھیں۔ شہر کے اندر آمد و رفت کا بڑا ذریعہ بائیسکل ہوا کرتی تھی۔ تب لاہور کی مال روڈ پر لڑکیوں کا بائیسکل چلانا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ اکثر لڑکیاں لاہور کی سڑکوں پر بائیسکل چلاتے نظر آتی تھیں۔ انہی لڑکیوں میں ایک لڑکی اُوما بھی تھی۔ شوخ و شنگ اُوما۔ وہ پروفیسر شِو کمار کیشپ کی بیٹی تھی۔ پروفیسر شِو کمار گورنمنٹ کالج میں باٹنی کے مایہ ناز پروفیسر تھے جنہوں نے اپنی تحقیق سے پودوں کی کچھ نئی اقسام دریافت کی تھیں اور جن کی شہرت کا دائرہ ملکی اور غیرملکی سطح پر دور تک پھیلا ہوا تھا۔
پروفیسر صاحب کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ گھر میں لکھنے پڑھنے کا ماحول تھا۔ بچوں کو کھلی آزادی تھی کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق زندگی کا راستہ چنیں۔ پروفیسر صاحب اپنے بچوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ وہ زندگی کو خود دیکھیں‘ پرکھیں اور جانیں۔ زندگی کے بارے میں خود سوچیں اور اپنے اردگرد سوالات کے جوابات خود ڈھونڈیں۔ اُوما کی والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن ان کے پاس تجربے کی دانائی تھی۔ ان کے گھر میں طرح طرح کے پودے‘ پھول اور درخت لگے ہوئے تھے۔ اُوما کو حیرت ہوئی کہ اس کی والدہ‘ جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں‘ سب درختوں کے نام کیسے جانتی تھی۔ اُوما کا گھر وسیع اور کشادہ تھا جس کا ایک خوبصورت لان تھا۔ گھر کے گرد یوکلیپٹس کے اونچے لمبے درخت تھے۔ پھر کھٹے کی باڑ تھی۔ جن کے ساتھ بوگن ویلیا کے پھولوں سے لدی ڈالیاں تھی اور پھر رنگ رنگ کے پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ زندگی ان پر اپنی تمام تر خوبصورتیوں کے ساتھ مہربان تھی۔ اُوما اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ اپنے گھر کی جنت میں رہ رہی تھی۔ اسے یوں لگتا تھا کہ خواب جیسا زمانہ ہمیشہ یوں ہی رہے گا۔ لیکن ہر خواب ایک روز ختم ہو جاتا ہے۔ اُوما کی ہنستی مسکراتی زندگی کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ اُوماکی عمر سات برس تھی جب اس کے والد پروفیسر شِوکمار کیشپ کا انتقال ہو گیا۔ اُوما کو یوں لگا جیسے تپتی دوپہر میں اچانک اس کے سر سے سائبان چھن گیا ہے۔ تب اس کے بڑے بھائی نے آگے بڑھ کر اپنے بہن بھائیوں کو سہارا دیا۔ اس نے اُوماکی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور اسے زندگی کی شاہراہ پر دوبارہ چلنے کا حوصلہ دیا۔ اُوما کو اپنے بھائی کی شخصیت میں اپنے والد کا عکس نظر آیا۔ وہی محبت‘ وہی پیار اور وہی نصیحت کہ اپنی منزل خود ڈھونڈو‘ اپنا راستہ خود تراشو۔ بھائی کی حوصلہ افزائی نے اُوما کو ایک نیا جذبہ دیا‘ وہ ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آئی۔
اُوما کی سکول کی تعلیم مکمل ہوئی تو اس نے کنیئرڈ کالج میں بی اے آنرز انگلش میں داخلہ لے لیا۔ کنیئرڈ کالج متحدہ ہندوستان میں خواتین کا ایک ایسا تعلیمی ادارہ تھا جو اپنے معیار اور اپنے ماحول کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔ اُوما گھر سے کالج اپنی بائیسکل پر آتی تھی۔ اسے اپنے والد اور بھائی سے اعتماد کی دولت ملی تھی۔ وہ کالج میں ڈراموں میں حصہ لیتی‘ رقص کرتی‘ بیڈمنٹن کھیلتی اور سوئمنگ کرتی۔ اس نے گھر میں مختلف اقسام کے جانور پالے ہوئے تھے۔ کم عمری سے ہی وہ آکاش وانی ریڈیو سے ڈراموں میں حصہ لیتی تھی۔ ڈراموں میں اداکاری سے اسے خاص دلچسپی تھی۔ اس نے امتیاز علی تاج کے ڈرامے انار کلی میں کام کیا اور رفیع پیر کے ساتھ ڈراموں میں بھی اداکاری کی۔ یوں نوعمری میں ہی اس نے زندگی کے سارے رنگوں کا ذائقہ چکھ لیا تھا۔ ایک دفعہ معروف اداکار اشوک کمار کنیئرڈ کالج آیا۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ جاری تھی اور کالج کی لڑکیوں نے وار ریلیف کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے ایک شو کا اہتمام کیا اور اداکار اشوک کمار کو مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا۔ اُس روز اُوما اشوک کمار کی کرسی کے پیچھے کھڑی تھی۔ شرارت اس کے انگ انگ میں رچی بسی تھی‘ اُس نے کرسی پر بیٹھے اشوک کمار کے سر کے بال کھینچے۔ اشوک کمار نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب لڑکیاں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ اُوما کو کیا معلوم تھا کہ آنے والے دنوں میں اس کا سامنا ایک مختلف سیچوایشن میں اشوک کمار سے ہونے والا ہے۔ اُس روز اُوما نے شو میں بھرپور حصہ لیا تھا اور کالج کے سٹیج پر سولو ڈانس کیا تھا۔
اُوما کو انگریزی فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ اس کی پسندیدہ اداکارہ امریکہ کی شرلی ٹمپل (Shirley Temple) تھی جو کم عمری میں چائلڈ سٹار کے طور پر متعارف ہوئی تھی اور بعد میں اس نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔ شرلی ٹمپل ایک بہترین اداکارہ کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ گلوکارہ بھی تھی۔ بعد میں وہ گھانا اور چیکو سلواکیہ میں امریکہ کی سفیر بھی رہی۔ ایک روز اُوما نے بھائی سے کہا کہ وہ شرلی کی لکھی ہوئی کتاب پڑھنا چاہتی ہے۔ بھائی نے ہنس کر کہا: تم شرلی جیسی کیوں نہیں بن جاتی۔ بھائی کی بات اس کے دل میں اُتر گئی۔ تب بھائی نے کہا: ہم گھر میں ایک فلم بنائیں گے اور تم اس میں ہیروئن کا کردار ادا کرو گی۔ اُوما نے ہنستے ہوئے کہا: ٹھیک ہے میں اس میں اداکاری کروں گی۔ بھائی نے اس فلم کی کہانی لکھی‘ فلم کا نام تھاThe Tragedy ‘ لیکن یہ ٹریجڈی ہرگز نہیں تھی بلکہ اس کے برعکس ایک کامیڈی فلم تھی۔ اُوما کے بھائی نے اپنے کیمرے سے فلم کی شوٹنگ کی اور یوں انہوں نے اپنے گھر میں کھیل کھیل میں چھوٹی سی فلم بنا لی۔ اُوما کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک نئے سفر کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس زمانے میں چیتن آنند فلمی دنیا کا ایک اہم پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر اور سکرین رائٹر تھا۔ وہ معروف اداکار دیو آنند کا بڑا بھائی تھا۔ اس کی دوستی اُوما کے بھائی سے تھی‘ وہ اُوما کو بھی جانتا تھا اور اس کے اداکاری کے شوق سے بھی واقف تھا۔ ایک روز اس نے اُوما سے کہا کہ وہ ایک نئی فلم بنا رہا ہے اور چاہتا ہے اُوما اس میں مرکزی کردار ادا کرے۔ اُوما نے ہنس کر انکار کر دیا لیکن چیتن آنند نے ہمت نہ ہاری‘ اس نے اُوما کے بھائی سے بات کی اور بڑے بھائی نے اُوماکو فلم میں کام کرنے پر رضا مند کر لیا۔ اس وقت اس کی عمر اٹھارہ برس تھی اور وہ کنیئرڈ کالج میں بی اے انگلش آنرز کی طالبہ تھی۔ وہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا اور ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ لیکن زندگی کے کام رُکتے نہیں۔ چیتن آنند نے اپنی فلم ''نیچا نگر‘‘ پر کام کا آغازکر دیا۔ اُوما نے فلم میں کام کرنے کیلئے اپنے کالج سے چھٹی لے لی تھی۔ اداکاری اس کیلئے نئی بات نہیں تھی۔ وہ اپنے کالج میں شیکسپیئر کے لکھے ہوئے کئی ڈراموں میں کام کر چکی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ریڈیو آکاش وانی سے بھی کئی ڈرامے کیے تھے۔ صرف ایک مسئلہ تھا کہ اس فلم میں چیتن آنند کی بیوی بھی کام کر رہی تھی اور اس کا نام بھی اُوما تھا۔ طے ہوا کہ اس کا نام کامنی کوشل رکھا جائے۔ اُوما نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اس کا فلمی نام ''ک‘‘ سے شروع ہونا چاہیے کیونکہ اس کی بہن کی دو ننھی منی بیٹیوں کا نام کُم کُم اور کویتا تھا۔ یوں اُوما کا نام کامنی کوشل رکھ دیا گیا۔ یہ 1946ء کا سال تھا جب اس کی فلم ''نیچا نگر‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی جسے مونٹریال کے فلمی میلے میں ایوارڈ ملا۔ کنیئرڈ کالج کی بی اے کی طالبہ نے اپنی پہلی فلم میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ لیکن کہانی میں ابھی ایک اور موڑ آنا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved