موسم بہار ہو ‘ موسم گرما یا پھر آتی خزاں‘ برطانیہ کے قصبات کا حسن دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ ہلکی پھلکی بارش ہو‘ ابر آلود موسم یا دھوپ چھاؤں کی اٹکھیلیاں‘ انگلینڈ کی دیہی خوبصورتی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ کھلا نظارہ ‘ مددر ڈھلا نیں‘ سنہرے‘ زرد اور بھورے رنگ کے آڑے ترچھے ‘ کٹے پھٹے قطعات ‘فصلوں اور کھلیانوں کی صورت میں ہرے رنگوں کے گھرانے میں شامل ہو کر منظر میں مزید حسن پیدا کر دیتے ہیں۔ چرا گا ہیں‘ بھیڑوں کے گلے ‘ ترشے ہوئے میدان ‘ خنک دھوپ اور ترچھی بارش صحت ہو‘ فارغ وقت ہو اور بے فکری ہو تو جی چاہتا ہے کہ اس منظر کا ایک حصہ بن کر منجمد ہو جائیں۔ 30 مئی 2016 کو جب ہم بریڈ فورڈ سے ہاور تھ (Haworth) کیلئے نکلے تو ہمراہیوں کے ساتھ یہ منظر بھی ہمراہ تھے۔ میں یو کے میں مقیم عمدہ اردو شاعرہ گلناز کوثر اور ان کے شریک ِکار جو ہن کی پُر خلوص دعوت پر مشہورِ زمانہ بیرونٹی سسٹرز (Brontë Sisters) کے قصبے ہاورتھ کو یکھنے نکلا تھا جومغربی یارک شائر کے پینائن ہلز (Pennine Hills) پر بسا ہوا ایک پہاڑی قصبہ ہے۔ راستے میں ہر کچھ دیر کے بعد ایسے مقامات آتے تھے جہاں دل چاہتا تھا کہ گاڑی روک کر کچھ دیر کیلئے اس شاداب فضا میں سانس لیا جائے۔ ایسے ہی ایک مقام پر وقت کی کمی کے باوجود رہا نہیں گیا۔ اونچی نیچی ہری بھری ڈھلا نیں‘ دور پس منظر میں سرخ اینٹوں کا بنا ہوا ریلوے پُل اور غیر آباد سبزہ زارکھلکھلاتے رنگوں کیساتھ ہمارے منتظر تھے۔ یہ منظر آنکھوں اور کیمروں میں کھینچنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ کوئی ایسا منظر تو شاید صرف دل میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ کسی اور آئینے میں یہ دل کہاں کہ اس کے ایک حصے کو بھی بیان کر سکے۔ شارلٹ برونٹی (Charlotte Brontë)ایملی برونٹی (Emily Brontë)اور اینی برونی (Anne Brontë)کے نام لیں تو Jane Eyre‘ Wuthering Heights اور Agnes Grey جیسے شہرہ آفاق انگلش ناولوں کے نام ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔ ادب میں مکاتب فکرہوتے ہیں‘ جن میں مرکزی تخلیق کاروں سے اوپر اور نیچے کی جانب کئی لکھنے والے ہوا کرتے ہیں لیکن یہ برونٹی بہنیں خود ایک مکتب ِفکر تھیں۔ یہ عجیب حرف کار تھیں۔ نہ ان کے پیشرو‘ نہ ان کے پیرو۔ ان کا مکتبِ حرف انہی سے شروع اور انہی پر ختم۔ایک دور دراز پہاڑی قصبے کی دیہی لڑکیاں جو ابتدا میں اپنی شناخت چھپا کر مردانہ ناموں سے لکھتی رہیں۔ شارلٹ برونٹیCurrer کے نام سے ‘ ایملی برونٹیEllis کے نام سے اور اینی برونٹی Acton Bell کے نام سے لکھتی تھی۔ تین ناول نگار اور شاعرات جو اپنی دنیاؤں میں رہنا پسند کرتی تھیں اور جن کو عمر نے یہ مہلت نہ دی کہ وہ اپنے ناموں کو انگریزی ادب پر سایہ فگن ہوتے دیکھ سکیں۔ تپ دق اور جواں مرگی اس خاندان کا مقدر ہو کر رہ گئی ‘ شارلٹ 39 سال‘ ایملی 29 سال اور اینی 32 سال کی عمر میں دنیا سے چلی گئیں۔ وہ آج کا انگلینڈنہیں تھا‘ اور ہاور تھ قصبے کے لیے روز ایک جنازہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔
ہاور تھ سے پہلے ایک کھڑی چڑھائی ہمارے سامنے تھی اور اس چوٹی کے آگے مزید چوٹیاں تھیں۔ ہاور تھ ایک اونچی پہاڑی کی چوٹی اور ملحقہ ڈھلوانوں پر بسا ہوا ایک قدیم قصبہ ہے۔ کچھ اور چلنے کے بعد اینٹوں کی ایک اور نیم عمودی سڑک پہاڑی پر چڑھنے لگی یہی ہاور تھ قصبے کا مرکزی بازار تھا جس کے دو طرف مکانات اور دکانیں زیادہ تر قدیم اور روایتی انداز میں بنے ہوئے تھے۔ جہاں پارکنگ کی جگہ ملی وہاں سے برونٹی سسٹر ز کا گھر دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی کے فاصلے پر تھا۔ سنسان پہاڑی راستہ ایک قدیم قبرستان تک ‘ قبرستان ایک پگڈنڈی تک اور پگڈنڈی ایک اینٹوں سے بنے راستے پر لے آئی جو گھوم کر برونٹی پارسونج تک پہنچتا تھا۔ پارسونج (Parsonage) اس رہائش گاہ کو کہا جاتا ہے جوچرچ سے ملحق اور اس کی ملکیتی ہو اور چرچ کے کسی اعلیٰ عہدے دار کور ہائش کے لیے دی گئی ہو۔ اس پہاڑی کے اوپر ایک گرجا اور برونٹی پارسونج یعنی برونٹی گھرانے کا گھر آمنے سامنے ہے۔ دونوں کے درمیان قدیم وحشت ناک قبرستان ہے۔ برونٹی بہنوں کے گھر کا مرکزی دروازہ سڑک کی طرف تھا۔ یہی سڑک بل کھاتی نیچے اترتی اس سکول کے سامنے سے بھی گزرتی ہے جہاں برونٹی بہنوں نے کچھ عرصہ پڑھایا۔ پھر یہ راہ مزید ڈھلوان ہو کر قصبے کے اس مرکزی بازار سے جاملتی ہے جہاں سے ہم اوپر آئے تھے۔ گھر اب ایک عجائب گھر ہے جہاں ایک حصے میں سیاحوں کے لیے ٹکٹ ‘ یادگاری اشیا اور متعلقہ معلومات کا انتظام ہے۔ گھر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو ایک خوش اخلاق خاتون نے خیر مقدم کیا جو پیشہ ور گائیڈ نہیں لگی تھیں۔ انہوں نے ہمیں ڈائننگ ہال دکھایا جہاں برونٹی سسٹرز بیٹھ کر لکھا کرتی تھیں۔ گھر کا ایک ایک کمرہ اسی حالت میں ہے۔ برونٹی سسٹرز کی تحریر ہیں ‘ لباس ‘ جرا بیں ‘ جو تے قلمدان سب شیشے کے پیچھے محفوظ ہیں۔تحریروں میں لکھائی اتنی باریک کہ حیرت ہوتی ہے کیسے لکھی گئی ہوں گی۔ زمانے کا رواج یا کاغذ کی کمیابی؟ کہہ نہیں سکتے۔ لیکن بس وہ انگلیاں ختم ہو جاتی ہیں جو کاغذ پر لفظ کشیدہ کرتی ہیں جبکہ کشیدہ لفظ انسان سے زیادہ پائیدار ثابت ہوتے ہیں۔ برونٹی سسٹرز 1846 ء میں جب اپنا یہ کام کر رہی تھیں تو ٹھیک انہی مہ و سال میں ہزاروں میل دور برطانوی نو آبادی برصغیر پاک و ہند میں غالب ‘ مومن اور ذوق کی انگلیاں بھی زرد کاغذوں پر اپنا دل لکھ رہی تھیں۔ رہے نام اللہ کا۔
گھر اچھا خاصا وسیع ہے اور عقبی باغیچے سمیت یہ شاید ہاور تھ کا سب سے بڑا گھر رہا ہو۔ گھر دکھانے والی خاتون نے ہمیں بتایا کہ آج کل برونٹی سسٹرز کی زندگی پر بی بی سی کی ایک فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے جس کی ہاور تھ کے علاوہ قریبی پہاڑی پر عکس بندی کی جارہی ہے۔ہم گھوم پھر کر پھر قصبے کے مرکزی بازار کی طرف آنکلے۔ ایک چوک نما قدرے کشادہ جگہ پر بائیں ہاتھ ایک دکان نے مجھے متوجہ کر لیا۔ مالک کے نام کے ساتھ جلی حروف میں لکھا تھا'' اپو تھی کیری‘‘(Apothecary)‘ خدایا ! انگلش شاعر Geoffrey Chaucer کی The Nun's Priest's Tale میں پروفیسر نیاز احمد صاحب مرحوم نے یہ نامانوس لفظ ہمیں کس طرح پڑھایا تھا۔ یہ لفظ جس کے مفہوم میں عطار‘ ادویہ اور جڑی بوٹیوں کی دکان شامل ہے‘ اب اتنی مدت کے بعد یہ لفظ ہاور تھ میں اس طرح نظر آیا جیسے کسی نامانوس مقام پر جانی پہچانی شکل نظر آجائے۔ میں نے دکان میں قدم رکھا اور یک لخت میں انیسویں صدی میں تھا۔ قدیم وکٹورین عہد کی اُس دکان میں کوئی چیز بھی جانی پہچانی نہ تھی۔ نیم روشن تاریکی‘ سرخ بھاری فرنیچر‘ کاؤنٹر اور شوکیس‘ شیشے کے بڑے بڑے مرتبان۔ مرتبانوں میں آمیزے اور مرکب ‘ ڈاٹ والی جہازی منہ بند بوتلیں ‘ بوتلوں میں مختلف قسم کے محلول ‘ چینی کے ظروف ‘ ادویہ سازی کے آلات۔ وکٹورین عہد کے صابن اور خوشبودار ٹکیاں۔ مہا گنی لکڑی کی بڑی بڑی دراز یں۔ ایک دراز کھول کر دیکھی تو اس میں بیج بھرے ہوئے تھے۔ دوسری میں کوئی سفوف۔ تیسری دراز سے ایک تیز دھانس اٹھی اور ایک مرچیلا ذائقہ حلق تک چڑھتا چلا گیا۔ دراز فوراً بند کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ انیسویں صدی میں سانس لینا اتنا آسان کام بھی نہیں ہے سومزید در ازیں ٹولنے کا تجسس ختم ہو گیا۔ اسی چوک میں ڈھلان کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوں تو بازار کی دو طرفہ عمارتوں کے آخر میں پہاڑی سے نیچے کا منظر فریم میں جڑی ہوئی سر سبز تصویر جیسا ہے۔ میں وہاں کھڑا تھا کہ ہوا کے ایک جھونکے نے شارلٹ برونٹی کا جملہ اچانک دہرا دیا: Beauty is in the eye of the gazer۔ (خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہے )۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved