اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزارنے والی‘ شادی شدہ بیٹی کو جب پتا چلا کہ اس کے بڑے بھائی نے سارا کاروبار اپنے نام کرانے کے بعد بوڑھے والدین کا خرچہ پانی تک بند کر دیا ہے اور اس کے والدین کے پاس جو کچھ تھا‘ اس سے انہوں نے دو‘ تین ماہ تک روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیا لیکن اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہا اور وہ فاقے کر نے پر مجبور ہیں اور اس پر مستزاد یہ کے بھابھی کے باپ نے‘ جو اس کا سگا ماموں بھی ہے‘ دوسری شادی کر لی ہے اور اپنا گھر بیچ کر پہلی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور اپنے بچوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ کر نئی نویلی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے شہر شفٹ ہو گیا ہے اور وہ بے چارے کرائے کی کسی جگہ پر رہنے کو مجبور ہیں‘اس کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ بھائی نے کھوج لگایا تو پتا چلا کہ اس کا سسر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ کراچی میں مقیم ہے، وہ اپنی بیوی اور تین ماہ کے بچے کو ساتھ لے کر اپنے سسر کے پاس کراچی گیا اور ان سے درخواست کی کہ ٹھیک ہے کہ آپ نے دوسری شادی کر لی ہے اور پہلی بیوی کو طلاق دے دی ہے لیکن اپنے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ذمہ داری اب بھی آپ ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام آپ کے سپرد ہے۔ کرائے پر ہی سہی‘ انہیں رہنے کے لیے ایک چھت لے کر دیں اور ہر ماہ کچھ رقم دے دیا کریں تاکہ وہ اپنا گزارہ کر سکیں۔ آپ ماشاء اللہ کروڑ پتی شخص ہیں‘ آپ کے بچے بھوکے مریں، بیٹیاں لوگوں کے گھروں میں کام کریں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اس پر وہ اپنی بیوی جو اس شخص کی بڑی بیٹی تھی‘ اور اپنے تین ماہ کے بچے کے ساتھ اپنے سسر کے پائوں میں سر رکھ منتیں کرتا رہا لیکن اپنی نئی نویلی بیوی کے کہنے پر اس نے ان سب کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا۔
بجائے یہ کہ اس مشکل وقت میں اُس مظلوم خاندان کا سہارا بنتا‘ اس نے اپنی اس بے عزتی کا الٹا اثر لیا اور اپنی بیوی کو یہ کہہ کر طلاق دے دی کہ اب تو بھی مزہ چکھ کہ کسی کو طلاق کیسے دیتے ہیں۔ بہو کی چیخ و پکار سن کر اس کے ساس‘ سسر یعنی لڑکے کے ماں باپ نے اپنے بیٹے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیاکہ اتنی اچھی بہو کا کیا قصور ہے‘ جب ماں باپ کے سمجھانے پر بھی وہ راضی نہ ہوا تو باپ نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے طلاق واپس نہ لی تو میں اپنے گھر سے تمہیں نکال باہر کروں گا لیکن اس ناخلف بیٹے نے یہ کہہ کر اپنے والدین کے ہوش اڑا دیے کہ یہ گھر تو اس کے نام پر ہے‘ لہٰذا اگر آپ لوگوں نے اپنی بہو اور اس کے خاندان کا ساتھ دینا ہے تو آج سے آپ کا خرچہ پانی بند۔
جس اکلوتے بیٹے کے پیدائش پر انہوں نے شہر بھر میں مٹھائی بانٹی تھی آج اس نے ہی انہیں دربدر کر دیا تھا اور جس بیٹی کی پیدائش پر رسمی خوش کا بھی اظہار نہیں کیا گیا‘ اس بیٹی کو جیسے ہی پتا چلا کہ اس کے والدین، بھابھی، تین ماہ کے بھتیجے اور پانچ سالہ بھتیجی نے کل سے کچھ نہیں کھایا تو وہ تڑپ کر رہ گئی۔ اسے ایک پل بھی چین نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ بھاگم بھاگ بابل کے گھر پہنچی اور جو کچھ اس کے پاس تھا‘ اس سے گھر کا راشن، بچوں کا دودھ خریدا اور کچھ نقد رقم دینے کے بعد ماں باپ کے گلے لگ کر ایسا روئی کہ آسمان بھی کانپ اٹھا ہو گا۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ بیٹی کے پاس زیورکی شکل میں کچھ چھوٹی چھوٹی اشیا تھیں‘ جو ماں نے کسی خوشی کے موقع پر یا بچوں کی پیدائش پر اس کو دی تھیں‘ وہ یہ سب کچھ بیچ کر اپنے ماں باپ‘ بھابھی اور بچوں کی خوراک کا بندوبست کرتی رہی لیکن ایک دن یہ راز اس کے سسرال پر افشا ہو ہی گیا۔ پھر وہ فساد برپا ہوا کہ خدا کی پناہ! اس سے بچے چھین کر گھر سے نکال دیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد خاندان کے کچھ بزرگ درمیان میں پڑے اور ان کا معاملہ حل کرا دیا لیکن اس شرط پر کہ لڑکی اب اپنے والدین کے گھر نہیں جائے گی اور جب بھی وہ جائے گی تو اس کا شوہر یا اس کی ساس اس کے ساتھ جائے گی۔
اُدھر اس کے ماں باپ کو بھی خبر ہو گئی کہ ان کی مدد کرنے کی وجہ سے بیٹی کو سسرال میں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب اس کے باپ کے سامنے پوری زندگی ایک فلم کی طرح چلنے لگی تھی۔ باپ نے ایک کاروباری گھر میں آنکھ کھولی تھی‘ اس کے خاندان میں بیٹوں کو ہی اہمیت دی جاتی تھی کہ انہوں نے بڑے ہو کر کاروبار کو سنبھالنا ہے، اپنے باپ کے کاروبار کو ترقی دے کر اس نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اسی دوران جب اس کی بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا اور اس کی ماں کا چہرہ اگر مرجھایا نہیں تو پوری طرح کھل بھی نہیں س سکا تھا۔ اس وقت ان کے قصبے نما شہر میں الٹرا سائونڈ جیسی سہولت کا کوئی وجود نہیں تھا، ورنہ اسے پہلے ہی خبر ہو جاتی کہ چند ماہ بعد اس کے گھر میں کھلنے والا پھول بیٹے کی شکل میں آ رہا ہے یا بیٹی کی صورت میں۔ البتہ یہ سچ ہے کہ اسے جو خوشی بیٹے کے پیدا ہونے پر ہوتی‘ وہ بیٹی کی پیدائش کا سننے کے بعد نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس کو اللہ نے جب بیٹا عطا کیا تو اس کی پیدائش پر خاندان بھر میں خوشیاں منائی گئیں، پورے شہر میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اپنے بیٹے کو دیکھ کر ہر وقت اسے یہی احساس ہوتا کہ خدا نے اس کے بازوئوں کی تعداد کو بڑھا دیا ہے، کل کو یہ بیٹا بڑا ہو کر کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے گا۔ وقت گزرتا رہا اور بیٹا بڑا ہوتا گیا۔ پھر وہ دن آ ہی گیا جب باپ نے اپنے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کر لیا۔ بیٹا بھی ذہین اور کاروباری معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ثابت ہوا، اس لیے جلد ہی اس کام میں مہارت حاصل کر لی۔ باپ بھی خوش اور مطمئن رہنے لگا کہ شکر ہے کہ رب کریم نے ایسا بیٹا عطا کیا کہ جس نے اس کا کاروبار اور دکان اچھے طریقے سے سنبھال لی ہے اور اب وہ فراغت کی زندگی گزارا کرے گا۔
بیٹے کا اپنے ہی خاندان میں رشتہ طے کرنے کے بعد چند سال بعد بڑی دھوم دھام سے اس کی شادی کر دی۔ بہو بھی نیک، خدمت گزار اور ہمدرد تھی۔ زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگی۔ باپ نے جب دیکھا کہ اب اس کی عمر ڈھلنے لگی ہے اور زندگی بھر سخت محنت مزدوری کرنے والے اس کے ہاتھ پائوں اب پہلے جیسا کام نہیں کرسکتے تو اس نے سارا کاروبار اور دکان اپنے بیٹے کے حوالے کر دی۔ فیملی بڑی ہونے سے جب آبائی گھر چھوٹا پڑنے لگا تو باپ کی جمع پونجی سے نئی آبادی میں بیٹے نے ایک پلاٹ خرید لیا تاکہ اس گھر کو بیچ کر پلاٹ پر ایک بڑا گھر بنا لیا جائے۔ یہ سارا کام چونکہ بیٹے نے ہی کیا تھا لہٰذا نیا پلاٹ کس کے نام پر خریدا جا رہا ہے‘ کسی نے اس پر دھیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ نہ ہی کسی نے اعتراض کیا کہ بیٹے نے پلاٹ اپنے نام پر کیوں خریدا ہے، بہرکیف‘ پرانے گھر کا سودا کر کے آدھی رقم ایڈوانس کے طور پر لے لی گئی اور پلاٹ پر گھر کی تعمیر شروع کر دی۔
چند ماہ بعد جب آبائی گھر خالی کرنے کا وقت آیا تب تک نئے گھر کا کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔ پوری فیملی پرانے سے نئے گھر میں شفٹ ہو گئی اور باقی کی رقم گھر کی باقی ماندہ تعمیر و آرائش پر لگا دی گئی۔ وقت گزرتا رہا۔ بیٹے نے گاڑی لی تو وہ بھی اپنے نام پر‘ گودام لیا تو وہ بھی اپنے نام پر۔ گھر کے کسی فرد کو چونکہ اس کی نیت پر کوئی شک نہ تھا لہٰذا کسی نے کبھی سوال بھی نہ کیا۔ ایک بات کا سب اعتراف کرتے ہیں کہ اس سب میں اس کی بیوی کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، اور نہ ہی اس نے کبھی ایسا کوئی مشورہ دیا۔ ماں‘ باپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے کہ ان کے بیٹے نے ان کیلئے نیا اور خوبصورت گھر بنا دیا ہے۔ رشتہ دار اور دوست احباب بھی بیٹے کو شاباش دیتے ہوئے ہر جگہ سراہتے تھے کہ کمال کا بیٹا ہے کہ اس نے کاروبار سنبھال کر ماں باپ کو سکھ دیا اور اب انہیں اچھی جگہ پر شفٹ بھی کر دیا۔
اب بڑھاپے‘ پے درپے مصائب اور بیٹے کے دھکوں کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر مختلف عوارض کے شکار ماں باپ اپنے پوتے‘ پوتی اور بہو کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ان کو نجانے کس گناہ کی سزا ملی ہے۔ یہ ناہنجار بیٹا اور اس کا سابق سسر‘ کبھی تو وہ جواب دہ ہوں گے کہ انہوں نے اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کیوں کر دیا۔ حالانکہ ایک لاکھوں تو دوسرا کروڑوں میں کھیلتا ہے۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں اور ایسے لوگ ہی اس معاشرے اور انسانیت کے ساتھ ساتھ اپنے خدا کے بھی مجرم ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved