چند ماہ سے حالات و واقعات کو دیکھنے‘ سننے اور سہنے کے بعد دل نے اسی میں عافیت جانی کہ اپنے کوچے‘ اپنے شہر کو چھوڑ کر کسی الگ تھلگ جنگل بسیرا کیا جائے۔ جنگلوں کا ایک ہی اصول رہتا ہے کہ یہاں طاقت کا راج ہوتا ہے، لہٰذا خود کو اس جنگل کے ماحول سے آشنا اور اس کی عادات و اطوار کا عادی بنانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود رات کی تاریکیوں میں اٹھنے والے شور اور خوفناک قسم کی گرجدار دھاڑیں بے آرام تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے‘ پورے وجود کو کپکپا کر رکھ دیتی ہیں۔ لگ بھگ اب یہ معمول بن چکا ہے کہ رات میں کئی کئی بار ہڑبڑا کر اٹھنا پڑتا ہے، اس لیے کئی بار یہ خیال ستایا کہ اس گوشہ نشینی کو ترک کر کے کسی ایسی جگہ ڈیرے لگا لیتے ہیں جہاں کم ا زکم اس عمر میں چند گھنٹوں کی نیند ہی پوری کی جا سکے لیکن کم مائیگی اس خواہش کی راہ میں آن کھڑی ہوتی ہے۔ شہروں کے حالات سے تنگ آ کر دل میں کیا کیا خواب سجا کر اس جنگل کی جانب بڑھے تھے اور یہاں بھی شہروں کی چنگھاڑ کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے‘ لہٰذا ہر رات کو نیند کے ٹوٹنے پر ارادہ باندھتے ہیں اور صبح کو جنگل کی دلفریب رُت دیکھ کر دوبارہ چپ چاپ کسی کونے میں دبکے پڑے رہتے ہیں۔
ویسے بھی اب شہروں سے ادب اور اخلاق نام کی چیزوں کا وجود مٹتا جا رہا ہے تو وہاں جا کر بھی کیا کرنا ہے۔ ہر شریف اور آزاد منش انسان اپنے گھر‘ دفتر یا تعلیمی ادارے کے علاوہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے جاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں راستے میں یا گھر کے اندر آ کر ہی کوئی اسے دبوچ نہ لے۔ لوگ شام ڈھلے کام کاج سے واپسی پر اپنے گھر وں کے دروازے صحیح سلامت دیکھ کر رب کریم کا شکر بجا لاتے ہیں کہ ابھی تک کسی آفت کے اچانک رونما ہونے سے بچے ہوئے ہیں۔ سنا ہے کہ شہروں کے حالات دیکھ کر اب اس جنگل کے جانوروں نے بھی اپنے بچوں کو سمجھانا شروع کر دیا ہے کہ آنکھیں نیچی کر کے چلنا‘ شیر کی کچھار تو دور کی بات‘ اس کے ہم نشینوں سے بھی بچ کر رہنا‘ ان کی ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں سے دور رہنا‘ جو وہ سوچیں‘ وہی سوچنا اور جس طرف چلنے کو کہیں‘ اسی طرف چلتے چلے جانا۔ اور یہ جو تم جنگل میں تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہو‘ ان خوابوں کو اپنے ہاتھوں پہلے ہی کچل دو وگرنہ بعد ہی یہی خواب آنکھوں میں کرچیاں بن کر چبھیں گے اور ایک مستقل آزار بن جائیں گے۔ بھلا کمزور بھی طاقتوروں کے برابر ہو سکتے ہیں؟ خیر یہ بھی سب کچھ پروازِ تخیل کی باتیں ہیں وگرنہ جانور جب کھسر پھسر کر رہے ہوتے ہیں تو مجھ جیسے انسان کو دیکھ کر ہی سہم جاتے ہیں اور اپنی آواز کو مزید دھیما کر لیتے ہیں کہ کہیں میں ان کی پلاننگ کو دیگر جانوروں کے سامنے آشکار نہ کر دوں۔
بات ہو رہی تھی نیند کی‘ کہ وہ کب کی ہم سے روٹھ چکی ہے۔ ایک دن جنگل میں کسی درخت کی اونچی شاخ پہ بیٹھے الو سے پوچھ بیٹھے کہ اس کا کیا حل نکالا جائے۔ سنا ہے کہ جنگل میں الو کو دانشور سمجھا جاتا ہے اور سبھی جانور اسی سے اپنی پریشانیوں کا حل پوچھتے ہیں‘ سرِ شام ہی مختلف قسم کے جانور الوئوں کے درختوں کے قریب یوں منڈلانا شروع کر دیتے ہیں جیسے ان سے اپنے اپنے مسائل کا حل پوچھ رہے ہوں۔ الو خوب غور سے جانوروں کی باتیں سنتے ہیں اور پھر کندھے اچکا کر یوں بے پروا ہو جاتے ہیں جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ ہر شام جنگل میں الوئوں کے درختوں کے نیچے جانوروں کا میلہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔ چونکہ سارا دن سوئے رہنے کے بعد الو رات کو جاگتے ہیں اس لیے جانور بھی شام ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ ہماری آنکھیں بھی نیند سے کوسوں دور رہتی ہیں اس لیے یہ منظر دیکھتے رہتے ہیں۔ جیسے جیسے رات گہری ہوتی جاتی ہے‘ جانور کم ہوتے جاتے ہیں اور پھر گہرا سناٹا طاری ہو جاتا ہے جس میں کبھی کبھی الوئوں اور چمگادڑوں کی آوازیں ہی رخنہ اندوزی کرتی ہیں۔ ایک رات نیند نہ آنے سے پریشان ہو کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو سامنے ایک درخت پر ایک سن رسیدہ الو نظر آیا جس سے اپنی پریشانی کا ذکر کر تے ہوئے عرض کی: جناب! آپ سے تو کچھ بھی پوشیدہ نہیں‘ جس قسم کے زندگی کے پیچ و تاب کا ہم سامنا کر رہے ہیں اس نے سوائے آپ جیسے دانشوروں اور شیروں کے غول اور ان کے ہم نشینوں کے‘ باقی سب کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں‘ کبھی دل چاہتا ہے کہ اٹھ کر ان کا مقابلہ کروں لیکن پھر یہ سوچتے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں کہ اگر ان سے مقابلہ شروع کر دیا تو چیتے‘ زیبرے اور گھوڑے جو جنگل کی حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجانا چاہتے ہیں‘ کہیں وہ ہی اٹھ کھڑے نہ ہوں اور جنگل کا رہا سہا سکون بھی تباہ و برباد نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ان کی یلغار کا مقابلہ کون کرے گا۔ لیکن آپ ہی بتائیے کہ بھلا اس شخص کا کیا جینا‘ جس کی آنکھوں سے نیند ہی اڑ جائے‘ وہ خاک اس زندگی کا لطف لے گا جو ایک مستقل آزار کا شکار ہو۔
یہ سوال سن کر الو کافی دیر تک سوچنے کے بعد بولا: ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ دوبارہ عرض کی کہ جناب! اگر کسی کو نیند نہ آئے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ اس پر الو نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ جنگلوں میں کمزوروں کو تو نیند آتی ہی نہیں اور جو سو جاتے ہیں ان کا تو اگلی صبح پتا ہی نہیں چلتا۔ جنگل میں جو جتنا طاقتور ہوتا ہے‘ وہ باقیوں سے اتنا ہی بے پروا ہوتا ہے۔ اگر تم واقعی نیند نہ آنے سے پریشان ہو چکے ہو تو میرا مشورہ ہے کہ اگر تمہیں اس جنگل میں نیند نہیں آتی تو بہتر ہے کہ اسے چھوڑکر کہیں دور نکل جائو کیونکہ یہ مشورہ تو اب بڑے بڑے بھی دینے لگے ہیں۔ الو سے اپنی کم مائیگی کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگا: پھر تمہارے جیسے لوگوں کے لیے یہی بہتر ہو گا کہ رات کو بستر پر لیٹو تو کوئی بور سی کتاب پڑھ لیا کرو کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے‘ بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو نیند اڑا دیتی ہیں اور زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جو خواب آور دوا کا کام کرتی ہیں‘ ان کی چند سطریں پڑھتے ہی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں، ابھی تم نے پیچ و تاب کا ذکر کیا‘ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پیچ و تاب کے نام سے بھی ایک کتاب جنگل کی لائبریری میں کہیں موجود ہے‘ وہ پڑھ لو ہو سکتا ہے چند منٹ میں تمہیں نیند آ دبوچے!
جنگل کے سب سے بزرگ الو کے بتائے گئے نسخے پر عمل کرتے ہوئے جنگل کی لائبریری میں جا کر ڈھونڈنا شروع کی تو ''پیچ و تابِ زندگی‘‘ کے عنوان سے بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا کی ایک کتاب ملی۔ فوری طور پر یہ کتاب نکالی اور بستر پر لیٹنے کے بعد اپنے سامنے اسے رکھتے ہوئے سوچا کہ اس کے پانچ سات صفحات پڑھنے کے بعد خود بخود نیند آ جائے گی لیکن جوں جوں کتاب پڑھتا گیا‘ نیند نے تو کیا آنا تھا‘ میرے ہوش و حواس اُڑکر رہ گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ ادیبوں کی شہرت کا انحصار ان کی تخلیقات کی تعداد پر ہوتا تھا‘ ادبی دنیا میں اس بات کی بہت اہمیت ہوتی تھی کہ کس نے کتنا لکھا ہے۔ چند دہائیوں پہلے تک مصنفین کو اسی معیار پر پرکھا جاتا تھا کہ کس نے کتنا لکھا ہے لیکن پھر بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ یہ ہونے لگا کہ کیسا لکھا ہے اور اب بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کیا لکھا ہے۔ سچ پوچھئے تو مجھے بریگیڈیئر صاحب کی دیگر کتابیں پڑھنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی آج تک ان سے براہِ راست ملنے یا فون پر بات کرنے کا شرف مل سکا ہے، لیکن ان کی ''انتسابی تحریر‘‘ نے مجھے ان کی کتاب کے اوراق کھنگالنے پر مجبور کر دیا اور ان کی کتاب میں میری دلچسپی مزید بڑھا دی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ اعتراف نہ کرنا بددیانتی ہو گی کہ ''کیا خوب لکھا ہے‘‘۔ ملک میں جمہوریت اور جنگل کی بے رحم کٹائی سے لے کر اوپر سے نیچے تک کی تمام کرسیوں پر کی جانے والی پُرفریب کشیدہ کاری کا تجزیہ اور اس پر اپنی مزاح سے بھرپور تحریر کا سہارا لیتے ہوئے انہوں نے اپنے حالاتِ زندگی اور اپنے سروس کے شب و روز سے متعلق جو استعارے استعمال کیے ہیں‘ وہ صنفِ ادب میں ایک طرح سے نیا اضافہ ہیں اور بہت کچھ بتانے کیلئے کافی ہیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ الفاظ پر ان کی گرفت کس قدر مضبوط اور مربوط ہے۔ الو کے مشورے پر میں نے را ت بھر میں پوری کتاب ختم کر ڈالی مگر نیند کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved