سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بینچ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔جمعرات کے روز ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ '' توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے‘ تاحیات نااہلی کا فیصلہ اعمال نہیں انسان کو برا کہہ رہا ہے‘ تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے‘‘۔ اسلام یا دینی تعلیمات کی تشریح کے لیے علمائے دین سے رہنمائی لی جانی چاہیے۔ایسے حساس ترین معاملات کو علمائے دین کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ملکِ عزیز میں شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے فورم بھی موجود ہیں‘ ان فورموں سے بھی اس حوالے سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ماضی کے اہم فیصلوں کو چشم کشا حقائق کے ساتھ منظر عام پر لایا گیا ہے‘1954ء سے لے کر 2018ء تک کے فیصلوں کو جس طرح متنازع قرار دیا جا رہا ہے‘ اس سے عوام میں سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں پر عدم اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔اگر ماضی کے غیر جمہوری سربراہانِ مملکت کے حوالے سے سوالات اُٹھ رہے ہیں تو ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کے کرداروں پر بھی بات ہونی چاہیے تاکہ عوام کو دونوں اطراف سے شناسائی ہو جائے۔ جن افراد کو پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر تعینات کیا تھا‘ ان کی تقرری پر بھی آئین و قانون کی روشنی میں اظہارِ خیال کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح 27جولائی 2017ء کا فیصلہ کرنے والوں کے کردار پر بھی اظہارِ خیال ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر آج ماضی کے فیصلوں پر بات ہو رہی ہے‘ ثاقب نثار‘آصف سعید کھوسہ‘ گلزار احمد‘عمر عطا بندیال اور دیگر سابق چیف جسٹس صاحبان کے فیصلوں پر عوام میں عدم اعتماد پیدا ہو رہا ہے تو موجودہ دور کے فیصلوں پر بھی سوالات اُٹھ سکتے ہیں۔ موجودہ دور کے فیصلے مستقبل میں اُسی نظر سے دیکھیے جائیں گے جیسے اب ماضی کے فیصلوں کو دیکھا جا رہا ہے۔
ایک طرف ماضی کے حکمرانوں کو آئینہ دکھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی توہینِ الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کے لیے اڈیالہ جیل میں آنے والے الیکشن کمیشن کے اراکین کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ شنید ہے کہ توہین الیکشن کمیشن کیس میں بانی پی ٹی آئی فردِ جرم عائد کیے جانے کے دوران غصے میں آگئے ۔ایک طرف ایبڈو (Elected Bodies Disqualification Order 1959)کے تحت ہونے والی برطرفیوں پر برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ایبڈو جیسے قوانین کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ملک میں جمہوریت کو پھانسی پر لٹکانے کی بنیاد قانون ساز اسمبلی نے جنوری 1949 ء میں رکھ دی تھی جب پروڈا (Public and Representative Office Disqualification Act) نافذ کیا گیا۔ پروڈا کا یہ قانون پانچ سال تک نافذ رہا۔ سندھ‘ پنجاب اور مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کے خلاف کل پانچ ریفرنس اس قانون کے تحت دائر ہوئے جن کے تحت ایوب کھوڑو‘ قاضی فضل اللہ‘ آغا غلام نبی پٹھان اور حمید الحق چودھری نا اہل قرار دیے گئے۔سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو کو محض 30ہزار روپے کی مبینہ کرپشن کے الزام میں پروڈا کے تحت وزارتِ اعلیٰ سے محروم کر دیا گیا تھا۔
اُدھر تحریک انصاف کے لیے بلّے کے انتخابی نشان کا چھن جانا ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے بلّے کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر 26دسمبر کا حکم امتناع واپس لینے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ہے اور انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیے جانے کے بعد پی ٹی آئی اپنی پارٹی رجسٹریشن سے بھی محروم ہو چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہو چکی ہے۔پارٹی اپنے چیئرمین سے بھی محروم ہو چکی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے 12جنوری تک امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کرنے ہیں اور 13جنوری تک امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرنی ہے۔ اگر اس سے پہلے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کی بحالی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آ جاتا تو پی ٹی آئی کے امیدوار بّلے کے انتخابی نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکیں گے ‘ اس صورت میں وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے انٹرا پارٹی الیکشن کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا جس کے قانونی نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔ انتخابی نشان واپس لیے جانے سے تحریک انصاف کا ووٹ بینک متاثر ہو سکتا ہے۔
ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی سیاسی جماعت سے اُس کا انتخابی نشان واپس لیا گیا ہو‘ ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی سے تلوار‘ پاکستان مسلم لیگ سے سائیکل اور دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی اُن کا انتخابی نشان واپس لیا جا چکا ہے۔ لیکن ان جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لیے جانے کا پس منظر مختلف ہے۔ ان سیاسی جماعتوں سے اُن وجوہات کی بنا پر انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا جن وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف سے واپس لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا انفرا سٹرکچر اور کارکردگی‘ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی طرح مربوط اور منظم نہیں۔
لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے بھی سماعت جاری ہے‘ایسا بھی ممکن ہے کہ 11جنوری تک تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے بارے میں اہم فیصلہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مشروط طور پر تسلیم کرکے اس کا انتخابی نشان واپس کر دیا جائے اور ساتھ ہی الیکشن کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشنز کا ریکارڈ طلب کرکے ان کا ازسر نو جائزہ لینے کا اہم فیصلہ بھی آ جائے۔اس ضمن میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی وضع کیا جا سکتا ہے جس سے آئندہ انٹرا پارٹی الیکشن متنازع نہ ہو سکیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے دفعات 202‘ 205‘ 207‘ 208اور 209کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن رولز میں تبدیلی کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبر کی انٹرا پارٹی الیکشن میں موجودگی لازمی قرار دی جائے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انتخابی نشان واپس نہ ملنے کی صورت میں تحریک انصاف 11جنوری کواپنے امیدوار کسی غیر معروف سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابی میدان میں اُتار دے۔ شنید ہے کہ چند غیر معروف سیاسی جماعتوں سے تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں کے مذاکرات آخری مراحل میں ہیں اور عمران خان کی منظوری کے بعد 11جنوری کو اس حوالے سے اہم اعلان کر دیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved