ہماری زرعی زمین کم ہو رہی ہے‘ پانی کی مقدار میں بھی کمی آ رہی ہے‘ آبادی کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ نوجوان روزگار نہ ملنے کے باعث ناامید ہو رہے ہیں‘ ہمارا ماحول تباہ ہو رہا ہے‘ یہ سب ایسے مسائل ہیں جن کی طرف نہ حکومتیں سنجیدگی سے توجہ دیتی ہیں نہ ہی ذرائع ابلاغ انہیں اس طرح اہمیت دیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ہم وہی دکھاتے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ آپ کسی بھی شخص سے بات کر لیں‘ وہ سیاست پر گھنٹوں بلا توقف بولتا چلا جائے گا‘ مخالف حکمران کی سو خامیاں گنوائے گا اور اپنے پسندیدہ سیاستدان کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دے گا لیکن حقیقی مسائل کے بارے میں نہ اسے علم ہو گا‘ نہ ہی وہ ان پر زیادہ بات کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان بھی عوام کی ان کمزوریوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ عوام کو وقتی فوائد گنواتے ہیں‘ انہی سے اُن کا دل لبھاتے ہیں اور ان سے ووٹ لے کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ ایسے ایسے بلند بانگ اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کوئی ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرتا ہے‘ کوئی کہتا ہے ملک کو ایسا بنا دیں گے کہ بیرونِ ملک سے لوگ نوکریاں کرنے پاکستان آئیں گے‘ پھر یہ کہ بغیر کسی دلیل اور منصوبہ بندی کے ایسے اعلانات بھی کیے جاتے ہیں جو عوام کی دکھتی رگ اور ان کی بنیادی ضروریات کے گرد گھومتے ہیں جیسا کہ پچاس لاکھ گھر بنانا یا ایک کروڑ نوکریاں دینا۔ پچاس لاکھ گھر بنانے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی‘ یہ کسی نے بتایا نہ عوام کو کوئی ایسا فورم مہیا کیا گیا جہاں وہ یہ پوچھ سکیں کہ یہ منصوبہ آخر بنایا تو بنایا کیسے۔ اگر یہ پچاس لاکھ گھر پانچ مرلے پر مشتمل ہوں تو پانچ مرلے کا پلاٹ اوسطاً یا کم از کم چالیس سے پچاس لاکھ روپے کا آتا ہے۔ اوپر پچاس لاکھ لگائیں تو انتہائی سادگی میں گھر بنے گا اور ہو سکتا ہے کہ لکڑی کا کام نہ ہو اور فرش کی ٹائلیں وغیرہ نہ لگیں لیکن ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایک کروڑ میں ایک گھر مکمل ہوتا ہے تو پچاس لاکھ کو ایک کروڑ سے ضرب دیں تو یہ رقم پانچ ہزار ٹریلین پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ ڈالرز میں یہ رقم دو سو چھہتر روپے فی ڈالر کے حساب سے ساڑھے اٹھارہ ٹریلین امریکی ڈالر بنتی ہے۔
یہ کتنی بڑی رقم ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ امریکہ دنیا کی طاقت ور اور جدید ترین فوج کا حامل ہے‘ یہ دنیا کی سپر پاور بھی کہلاتا ہے اور دنیا بھر کی کرنسیاں ڈالر کو دیکھ کر اپنا قبلہ سیدھا کرتی ہیں‘ اس امریکہ کی فوج کا سالانہ بجٹ بھی سوا آٹھ سو ارب ڈالر کے قریب ہوتا ہے اور یہ رقم ایک ٹریلین ڈالر سے بھی کم بنتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے سابق حکمران یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہم پانچ سال میں پانچ لاکھ گھر بنا لیں گے لیکن انہوں نے یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ اس کے لیے اٹھارہ ٹریلین ڈالر یا پانچ ہزار ٹریلین پاکستانی روپے کہاں سے آئیں گے۔ یعنی مذاق کی انتہا دیکھیے کہ جو ملک محض بیس ارب ڈالر کے زرِمبادلہ رکھتا ہو اور ہر سال پانچ سات ارب ڈالر کے لیے کبھی کسی دوست ملک کی طرف دیکھتا ہو‘ کبھی آئی ایم ایف کی منتیں کرتا ہو کہ ہمیں نیا قرضہ دے دو اور اسی میں سے پرانے قرضوں کی قسط کاٹ لو تو اس ملک کے حکمرانوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ ماتم ان سیاستدانوں کی اندھی تقلید کرنے والوں پر کیا جا سکتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی کہ جب گاڑیاں بغیر ڈرائیور کے چل رہی ہیں‘ انسان چاند سے اگلے سیاروں کا رُخ کر رہا ہے اور یہ ہیں کہ اپنے محبوب لیڈروں کی عقیدت میں اندھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ وہ سوال بھی نہیں کر رہے کہ بھائی ایسا کرو گے کیسے۔ کوئی ثبوت‘ کوئی پریزنٹیشن ہی دے دو۔ چلو اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ یہ پانچ مرلے کا پورا گھر ایک خاندان کو نہیں دینا چاہتے تھے اور فلیٹ بنا کر دے رہے تھے تب بھی اس رقم کا ایک چوتھائی حصہ بھی چھ ٹریلین ڈالر بنتا ہے جو بلی کے خواب میں چھیچھڑوں کے مترادف ہے۔
پاکستان جیسے ممالک ایک عرصہ سے بنیادی مسائل کی چکی میں پِس رہے ہیں اور اگر اوپر کی سطح پر تبدیلی نہ آئی تو یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جس طرح کی سموگ ہم آج برداشت کر رہے ہیں یا جس میں ہم گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں‘ ایسی سموگ کبھی چین کی فضا کو بھی یرغمال بنا چکی تھی۔ وہاں بھی یہی حال ہو چکا تھا جیسا ہمارا اور بھارت کا ہے۔ سموگ اتنی بڑھ چکی تھی کہ دس فٹ کے فاصلے پر کھڑا بندہ دکھائی نہیں دیتا تھا‘ چینی لوگ کئی کئی مہینے سورج کا منہ دیکھنے کو ترس گئے تھے لیکن یہ ملک بہرحال چین تھا جو ایک مرتبہ ٹھان لے تو پھر کرکے دکھاتا ہے۔ اس وقت بھی چین کے کچھ علاقوں میں سموگ ہے لیکن گزشتہ دس برس کے مقابلے میں یہ 42فیصد کم ہو گئی ہے۔ چینی حکومت نے نجی شعبے کے ساتھ مل کر اس کے مختلف توڑ نکالے ہیں حتیٰ کہ کھلے علاقوں میں دنیا کے سب سے بڑے ایئر پیوریفائر تعمیر کیے گئے جن کی وجہ سے کھلے علاقوں میں بھی ہوا کو صاف اور فلٹر کیا جاتا ہے۔ آپ یوٹیوب یا گوگل پر جا کر کچھ کی ورڈز لکھیں جیسا کہ سموگ اِن چائنا تو آپ کو سات آٹھ سال اور اس سے پرانی وڈیوز ملیں گی کیونکہ اس وقت وہاں یہ وبا عروج پر تھی۔ چین ہمارا دوست ہمسایہ ملک ہے اور یہ زیادہ دُور بھی نہیں۔ چین کے ساتھ ہم ویسے بھی درجنوں یا سینکڑوں عوامی اور تعمیری منصوبے پہلے ہی کر رہے ہیں تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ سموگ سے نمٹنے کیلئے ہم چین کی مدد کیوں نہیں لے رہے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے یو اے ای کے تعاون سے مصنوعی بارش کا اہتمام کیا لیکن یہ عارضی اقدام ہے اور یہ بھی تب ممکن ہے جب فضا میں مناسب مقدار میں بادل موجود ہوں کیونکہ جو راکٹ جہاز سے فائر کیے جاتے ہیں وہ ان بادلوں کو بارش میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری مصنوعی بارش کیلئے بادلوں کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ جب تک اس مسئلے کو جڑ سے ختم نہیں کیا جائے گا تب تک ایسے اقدامات کا خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بھارتی پنجاب کے کسان ہر سال ستمبر‘ اکتوبر میں فصلوں کو جلاتے ہیں جس کی وجہ سے دہلی سمیت بھارت کے دیگر علاقے سموگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور جب ہوا کی سمت اِدھر ہو تو لاہور اور دیگر شہر بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ مسئلہ بھارتی حکومت کے ساتھ بھی سنجیدگی سے اٹھایا جانا چاہیے۔ اسی طرح ملکی سطح پر بھی جن وجوہات کی بنا پر سموگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے‘ ان وجوہ کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔ پہلے سموگ ایک آدھ مہینے کیلئے آتی تھی لیکن اب یہ اکتوبر نومبر سے شروع ہو کر جنوری فروری تک پھیل گئی ہے۔ یہی حال رہا تو یہ عفریت پورا سال ہمارے گلے دبوچنے پر آ جائے گی اور ابھی تو یہ ایک شخص کی اوسط عمر سترہ سال کم کر رہی ہے تب سوچیں کہ زندگی کتنے سال باقی رہ جائے گی‘ جب سارا سال ہی اس گھٹن میں سانس لینا پڑے گا۔ ابھی ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی کیفیت ہے اور روزانہ سانس کے ہزاروں مریض داخل ہو رہے تو تب کیا کیفیت ہو گی جب اس کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔ ٹھیک ہے آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ گھروں‘ ہوٹلوں اور دفاتر میں ایئر پیوری فائر لگا لیں گے لیکن گھر سے باہر کیا کریں گے؟ سیاسی جماعتیں بھی ہوش کے ناخن لیں اور غیرحقیقی منصوبوں سے عوام کا دل لبھانے کے بجائے اصل مسائل کو حل کریں۔ ویسے بھی یہ سموگ کسی ایک حکومت‘ کسی ایک علاقے یا کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ جس فضا میں سب نے سانس لینا ہے‘ وہ تو سب کیلئے ایک ہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved