تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     06-01-2024

پتھر یلے پھول

آپ نے کھلتے ہوئے پھول کی تصویر دیکھی ہو گی۔ ایک ایسے چاندی کے پھول کا تصور کریں جس کی 27تر و تازہ پتّیاں ہوں جو تین تین کے جھرمٹوں میں مل کر نو پہلوؤں والا پھول بناتی ہوں۔ پھول بھی سنگ و خشت کا۔ لیکن ایسا شاداب دکھائی دینے والا کہ شاید کوئی اور مثال ذہن میں نہ آئے۔ لوٹس ٹیمپل‘ دہلی ایک ایسی عمارت ہے جسے ایک بار دیکھ لو تو اس کی تصویر ذہن سے مٹنی آسان نہیں اور میں نے تو اسے کم ازکم دو بار دیکھا۔ اس لیے میری یادوں میں یہ نقرئی پنکھڑیوں والی عمارت اس طرح محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ 2001ء کے سروے کے مطابق یہ دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی عمارت ہے۔ لوٹس ٹیمپل بہائی مذہب کی عبادت گاہ ہے۔ عبادت گاہوں کے ساتھ تقدس کا پہلو جڑا رہتا ہے۔ لیکن معاف کیجیے گا‘ دور سے دیکھنے‘ محسوس کرنے‘ داخل ہونے اور لمس کا ذائقہ حاصل کرنے کے بعدکم کم ہی عبادت گاہیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک کیفیت غلاف کی طرح آپ کو ڈھانپ لے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ اس مذہب یا اس مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ کتنے ہی واقعات ہیں جن میں کسی غیرمسلم کے دل پر اذان کی آواز اور الفاظ نے اس طرح اثر کیا کہ بے اختیار اس کے آنسو نکل آئے جبکہ وہ نہ ان کے معنی جانتا تھا‘ نہ وہ لفظ سمجھ میں آتے تھے۔
کم کم عمارتیں ایسی ہوتی ہیں جو دور سے اپنی طرف کھینچتی ہوں اور قریب جاکر ان کے دل میں اُتریں تو وہ آپ کے دل میں اُتر جائیں۔ اینٹ پتھر کا یہ پھول ایسی ہی عمارت ہے۔ کسی حد تک ڈیزائن میں اس کی مماثلت سڈنی‘ آسٹریلیاکے مشہور زمانہ اوپرا ہاؤس سے ہے۔ مجھے اوپرا ہاؤس بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ کھُلے بادبان والی کشتیوں جیسی یہ عمارت اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن سبک پن اور نزاکت میں لوٹس ٹیمپل مبہوت کن ہے۔ کنول کا پھول بھی پانی میں اتنی خوبصورتی سے نہیں کھلتا ہوگا جیسے نوتالابوں کے درمیان یہ عمارت کھل اٹھی ہے۔ اور پھر خاموشی کی وہ کیفیت۔ دل میں کیا کوئی گفتگو اترتی ہو گی جیسے یہ سناٹا اُترتا ہے۔
بہا پور‘ اوکھلا‘ نئی دہلی میں واقع بہائی مذہب کی یہ عبادت گاہ چھبیس ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ لوٹس ٹیمپل کیلئے آپ گاڑی پارکنگ کے حصے سے ایک بڑے‘ حسین‘ سبزہ زار میں داخل ہوتے ہیں جس میں کافی دور سبزہ زار کے آخری سرے پر ایک بلند چبوترے پر یہ کنول کا پھول نصب ہے۔ دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتی اس کی پنکھڑیاں توجہ کسی اور طرف جانے نہیں دیتیں۔ جیسے جیسے آپ اس کے قریب ہوتے ہیں یہ آپ کو اسیر کرتی جاتی ہے۔ آپ سبزہ زار سے ایک بڑے تالاب کے پل سے اس چبوترے پر پہنچتے ہیں جہاں پہنچنے کے بعد آپ ان عظیم پنکھڑیوں کے سائے میں آجاتے ہیں جو اپنی بلندی اور بڑائی کے باوجود نزاکت میں کمی کا احساس نہیں ہونے دیتیں۔ میرے دوست اور اعلیٰ غزل گو اکبر معصوم مرحوم نے کہا تھا:
کر رہا ہوں میں ایک پھول پہ کام
روز اک پنکھڑی بناتا ہوں
بس وہ شعر یہاںصادق ہے۔ ایرانی معمار فری بورز صاحبا سے 1976ء میں اس عبادت گاہ کا ڈیزائن بنانے کیلئے رابطہ کیا گیا۔ اس نے یہ منفرد ڈیزائن تخلیق کیا اور جب ان پنکھڑیوں پر مسلسل کام کرنے کے بعد دسمبر 1986ء میں یہ عمارت عام لوگوں کیلئے کھولی گئی تو یہ ایک ایسے تعمیری شاہکار کی صورت تھی جسے مسلسل بہت سے بین الاقوامی ایوارڈز ملے۔ نو پہلو والے اس پھول کے چالیس فٹ بلند مرکزی ہال میں آپ داخل ہوتے ہیں تو چُپ سی لگ جاتی ہے۔ اس میں تیرہ سو لوگوں کے بیٹھنے اور پچیس سو افراد کے سمانے کی وسعت ہے۔ داخلے کے نو دروازے ہیں۔ نو کے عدد کو بہائی مذہب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان 9دروازوں کے باہر 9تالاب موجود ہیں جن میں اس پھول کا عکس جھلملاتا ہے۔
بہائی تعلیمات کے مطابق تمام مذاہب کے افراد یہاں اجتماع اور عبادت کر سکتے ہیں۔ مذہب‘ جنس اور دیگر تحفظات کے بغیر کوئی بھی فرد لوٹس ٹیمپل میں آسکتا ہے۔ بلکہ بہائی مذہب کی کسی بھی عبادت گاہ میں۔ مزید منفرد بات یہ کہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی زبان کی الہامی تحریریں یہاں پڑھی جا سکتی ہیں۔ لیکن خطبات اور لیکچرز کی اجازت نہیں۔ فنڈ ریزنگ اجتماعات اور موسیقی کے آلات کی بھی اجازت نہیں۔ لوٹس ٹیمپل کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اسکی ضرورت کے 500کلو واٹ میں سے 120کلو واٹ شمسی توانائی سے حاصل ہوتے ہیں چنانچہ دہلی کی یہ پہلی عمارت تھی جس نے شمسی توانائی سے اپنی بجلی حاصل کی۔ہم ایک سکوت کیساتھ اس ہال میں داخل ہوئے اور جب تک یہاں موجود رہے‘ خامشی نے اپنا کلام جاری رکھا۔ یہاں آکر سکوت کی طاقت پتہ چلتی ہے۔ سیاح خود بھی خاموشی کے اس باریک حریری پردے کا احترام کرتے ہیں۔ ایک بھری پری عمارت میں سینکڑوں سیاح موجود ہوں اور خامشی نہیں مکمل خامشی کے ساتھ موجود ہوں‘ یہ کم کم ہوتا ہے۔ لوٹس ٹیمپل سے نکلا تو ابھی رات کے کھانے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے ایک نظر کالکا جی کا قدیم مندر دیکھا جو قریب ہی واقع تھا۔ پھر کناٹ پلیس کے پُر رونق علاقے میں بازار دیکھا۔ گہما گہمی‘ رونق‘ روشنیاں اور دکانیں۔ زیادہ دکانیں سکھوں کی دکھائی دیں‘ ویسے بھی میرا تاثر یہ ہے کہ دہلی سمیت ہندوستان کے کافی بڑے شہروں میں سکھ برادری کاروبار پر پوری طرح چھائی ہوئی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس میں سکھ برادری کے اخلاق اور دیانت کا بھی بڑا دخل ہے جو ان کی کاروباری ساکھ بنائے رکھتا ہے۔ میں نے مغلیہ تاریخ پر ایک دو کتابیں خریدیں۔ لاہور میں اپنے گھرانے کیلئے چند تحائف لیے۔ لیکن ایک چپ‘ ایک خاموشی‘ ایک اداسی میرے اندر صحرا کی طرح ریت کے ٹیلے ادھر سے اُدھر کیے جا رہی تھی۔ یہ لوٹس ٹیمپل کا اثر تھا یا اکیلا پن۔ کچھ پتہ نہیں۔ پتہ ہے تو یہ کہ مجھ میں کچھ ٹوٹ کر بکھرا ہوا تھا:
لیکن مری کیفیت عجب ہے
اک درد ہے اور بے سبب ہے
جی درد سے بھر گیا ہو جیسے
شیشہ سا بکھر گیا ہو جیسے
یہ بات پرانی یعنی 1998ء کی ہے۔ لیکن بہت عجیب بات ہے کہ سال 2022ء میں یعنی چوبیس سال کے بعد‘ یہی کیفیت ایک بار پھر مجھ پر طاری ہوئی۔ اس بار بھی میں ایک بہائی معبد میں تھا۔ میں ان دنوں امریکہ میں اپنے میزبانوں کے ساتھ تھا اور وہ روز کہیں نہ کہیں کا پروگرام بنا لیا کرتے تھے۔ یہ معبد شکاگو کے قریب ولمٹ نامی ایک خاموش علاقے میں تھا۔ شکاگو کے معروف شاعر اور پیارے دوست نظر نقوی مجھے یہ دکھانے لے گئے تھے۔ یہ' بہائی ہاؤس آف ورشپ آف نارتھ امریکہ‘ کہلاتا ہے۔ دیگر بہائی معبدوں کی طرح یہاں بھی نو دروازے‘ نو فوارے‘ نو ستون اور نو باغیچے اس معبد کا حسن بڑھاتے ہیں۔ ایک تو یہ ساری فضا خاموش بلکہ دہلی والے معبد سے بدرجہا خاموش‘ پھر عمارت اور سڑک کے بیچ اچھا خاصا فاصلہ اور پھر عمارت کی زمین سے بلندی۔ یہ سب مل کر اس مقدس سکوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس عمارت کی کرسی غیر معمولی بلند ہے۔ کئی سطحوں کے زینے چڑھتے ہوئے آپ اس بڑے دروازے تک پہنچتے ہیں جو مرکزی ہال میں لے جاتا ہے۔ یہ ہال گنبد نما یعنی گول ہے۔ ہال میں داخل ہوتے ہی عنابی رنگ کی کرسیوں کی قطاریں آپ کے سامنے آتی ہیں۔ اگر کبھی کبھی کوئی آواز سنائی دیتی ہے تو وہ محتاط سیاحوں کے قدموں کی ہے۔ یہ پتھر سے تراشا ہوا حسن ہے اور کسی پھول سے بھی نازک تر لگتا ہے۔ میں اس ہال میں تھا کہ وہ خاموشی دل پر نزول کرنے لگی جو کلام سے زیادہ بولتی ہے۔ کبھی خاموش رہ کر اپنی بات سنی ہے؟ یہ پتھر کے پھول یہی موقع تو فراہم کرنے کیلئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved