2013ء کے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے کچھ بھی کہنے کی اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ اُس وقت کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اُن انتخابات کو ریٹرننگ افسران کے انتخابات قرار دیا گیا تھا۔ اُن انتخابات کے وقت بحیثیت آئینی سربراہ آصف علی زرداری ملک کے معاملات میں مختارِ کل تھے۔ انہوں نے ایوانِ صدر میں اقتدار کی منتقلی کا تمام عمل اپنی آنکھوں سے مکمل ہوتے دیکھا۔ انہیں انتخابی کارگزاریوں کا بخوبی علم تھا لیکن وہ چپ رہے اور ہنس دیے‘ شاید کسی کا پردہ منظور تھا۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے ان کی خاموشی کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انہیں وفاق گنوانے اور انتخابات میں شکست کے باوجود سندھ کی حکومت مل چکی تھی۔
11 مئی 2013ء کو عام انتخابات ہوئے، اس کے ٹھیک دو دن بعد صدر زرداری لاہور تشریف لائے جہاں بلاول ہائوس میں انہوں نے سینئر صحافیوں اور ایڈیٹر حضرات سے ایک ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس محفل میں جب ان سے پیپلز پارٹی کی الیکشن میں شکست کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے برملا کہا کہ یہ ریٹرننگ افسران کا الیکشن تھا‘ ووٹرز کا نہیں۔ اس پر وہاں موجود میڈیا کے سینئر افراد کافی حیران ہوئے۔ کچھ افراد نے کوشش کی کہ صدرِ مملکت اپنے اس فقرے کی کھل کر وضاحت کریں لیکن انہوں نے صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لیے اس فقرے میں بہت سے معانی پوشیدہ ہیں۔ مزید کریدنے پر انہوں نے بس اتنا کہا کہ انتخابات کی پوری کہانی اس ایک جملے میں موجود ہے۔ اگلے دن سبھی لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ملک کی سب سے باخبر اور صاحبِ اختیار شخصیت کی نظر میں یہ انتخابات درست نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سابق صدرِ مملکت گاہے گاہے اس حوالے سے اپنے بیان کی تشریحات کرتے رہے اور آج بھی اپنی اس بات پر قائم ہیں اور وہ یہ کہتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں جھجکتے کہ ان کی کہی ہوئی بات سو فیصد درست تھی۔ گزشتہ دنوں بھی انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں 2013ء کے انتخابات میں آر اوز اور سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے کردار پر کھل کر بات کی۔ ایسی ہی کچھ کہانیاں بیرسٹر اعتزاز احسن بھی سناتے ہیں۔ اعتزاز احسن ججز بحالی تحریک کے فوری بعد ہی اس تحریک کے اپنے ظاہری مقاصد سے ہٹ جانے کی باتیں کرنا شروع ہو گئے تھے اور ان کا یہ جملہ خاصا مشہور ہوا کہ ججز بحالی تحریک نے ہمیں متکبر جج اور متشدد وکلا دیے۔ افتخار چودھری کی بحالی میں پیپلز پارٹی حکومت کی اڑچن شاید موصوف کو ایک آنکھ نہیں بھائی کیونکہ اس کے بعد بقول اعتزاز احسن اور بابر اعوان‘ پیپلز پارٹی پانچ سال تک افتخار چودھری کا دور ہی بھگتاتی رہی۔ واضح رہے کہ افتخار چودھری 2005ء میں چیف جسٹس بنے تھے اور دو بار تعطل آنے کے باوجود آٹھ سال تک اس عہدے پر براجمان رہے اور دسمبر 2013ء میں ریٹائر ہوئے۔
آج کل انتخابات کا مرحلہ انجانے راستوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور آر اوز کا کردار ایک بار پھر زیر بحث آ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے: آر او کون ہے‘ اس سے امیدوار کو کیا فرق پڑتا ہے؟ چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے معطل کیے گئے ایک آر او کو بحال کرتے ہوئے کہا کہ آر او کے معطل ہونے سے 19 لوگوں کی سکروٹنی رہ جائے گی۔ گزشتہ روز ہی یہ خبر بھی پڑھنے کو ملی کہ اسلام آباد میں الیکشن ٹربیونل کے ججز نے ریٹرننگ افسران پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ فاضل جج صاحبان نے آر اوز کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آتی آر اوز نے چھوٹی چھوٹی باتوں پر کاغذات کیوں مسترد کیے۔ کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلوں کی مصدقہ نقول فراہم نہ کرنے پر بھی ججز نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور یہاں تک کہا کہ ہر کوئی قانون اور آئین پر چلنے کے بجائے روڑے اٹکا رہا ہے، اگر آر او ہی غیر آئینی کام کرے گا تو کیا بنے گا؟ اب تک کی خبروں کے مطابق آر اوز کی جانب سے مسترد کیے گئے بیشتر کاغذاتِ نامزدگی الیکشن ٹربیونلز کی جانب سے منظور کر لیے گئے ہیں۔
آج ملک میں انصاف اور قانون کا جو حال ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ عالمی سطح پر ہمارا شعبہ عدل کہاں کھڑا ہے‘ یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج عدلیہ کی آزادی کے لیے کی جانے والے اعصاب شکن اور تکلیف دہ جدو جہد کی تعبیر آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ مارچ 2007ء میں جب پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کو برطرف کیا تو ایک تحریک چل پڑی۔ مشرف حکومت کو اس وقت پہلا جھٹکا لگا جب سپریم کورٹ نے افتخار چودھری کی برطرفی کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے انہیں عہدے پر بحال کر دیا۔ جولائی 2007ء میں افتخار چودھری بحال ہوئے۔ اسی دوران پانچ سالہ مدت پوری ہونے پر پرویز مشرف نے باوردی صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا، الیکشن ہوا اور پرویز مشرف فاتح رہے‘ متحدہ مجلس عمل کے اعلان کے باوجود صوبہ سرحد (کے پی) کی صوبائی اسمبلی بروقت کیوں نہ ٹوٹ سکی‘ یہ ایک الگ داستان ہے‘ البتہ اس سارے پراسیس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ نومبر کے پہلے عشرے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ سنانے سے قبل ہی پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے پی سی او جاری کر دیا اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز کو گھر بھیج دیا۔ ساٹھ کے قریب ججز معطل ہو گئے جس پر عدلیہ بحالی کے نام سے ایک تحریک شروع کی گئی۔ اسی تحریک کے دوران اعتزاز احسن کی مشہورِ زمانہ نظم سامنے آئی تھی جس کا ایک مصرع آج ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ''ریاست ہو گی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی‘‘۔ دوسری طرف ناقدین نے اس تحریک کو پلانٹڈ قرار دیا گیا جس کا مقصد پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی تھا؛ تاہم بہت سے لوگ آنکھوں میں حقیقی تبدیلی کے سپنے سجائے اس تحریک کا حصہ بنے اور بعد ازاں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتے رہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ سچ کبھی چھپ نہیں سکتا اور ہزار پردوں سے بھی با ہر آ جا تا ہے، اب کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ سچ کسی عام آدمی کے ذریعے نہیں بلکہ اُس شخصیت کے ذریعے سامنے آیا‘ جو پرویز مشرف کے خلاف صدارتی امیدوار تھی اور جسے نواز شریف نے 4 نومبر1997ء کو سندھ ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا۔ مشرف کے مارشل لا کے وقت اس شخصیت نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر کے باعزت طریقے سے رخصتی کو ترجیح دی تھی۔ بات ہو رہی ہے جسٹس (ر) وجیہ الدین کی‘ جنہوں نے 19 دسمبرکو راولپنڈی بار ایسویسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''سپریم کورٹ پرویز مشرف کو باوردی صدارتی انتخاب میں نااہل قرار دینے کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی تھی مگر پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے پی سی او نافذ کر دیا‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون تھا جس نے جسٹس (ر) وجیہ الدین کو وقت سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سپریم کورٹ کا متوقع فیصلہ کیا ہو گا۔
افتخار چودھری نے اپنا امیج ایک دبنگ جج سا بنانے کی کوشش کی مگر ہر وقت ان کی یہی کوشش ہوتی کہ مخالف وکلا اور سیاسی جماعت کے لیڈران کا عدالت میں بیٹھ کر جس قدر ہو سکے تمسخر اڑایا جائے۔ یہ اس لیے کیا جاتا تھا کہ ان لوگوں کا مورال کمزور ہو اور وہ عدالت میں آنے سے گھبرانے لگیں۔ کسی کے ادا کیے ہوئے الفاظ اور فقرے کی ادائیگی کو جانچنے کیلئے اس کے تناظر کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ یہ کس موقع پر ادا کیا گیا، کس حوالے سے ادا کیا گیا اور انداز بیاں سے ہی کسی مخاطب کے ذاتی خیالات، دلی محسوسات اور اندرونی کیفیات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جدید ترکیب میں اسے باڈی لینگویج کا نام دیا گیا ہے۔ افتخار چودھری کا دور آج کسی بھی حوالے سے قابلِ تقلید نہیں سمجھا جاتا؛ تاہم جب '' ریا ست ہو گی ماں کے جیسی‘‘ کے خوش کن اور دلفریب خواب کے تحت عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلائی جا رہی تھی‘ اس وقت میڈیا کے ایک طبقے سمیت مخصوص قسم کے لوگ اس کی پروجیکشن کر رہے تھے جو آج بھی اس کا کریڈٹ لینے سے پیچھے نہیں رہتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved