ماحول ہے کہ قدم قدم پر ہمیں بہت کچھ سکھانے پر تُلا رہتا ہے اور اِدھر ہم ہیں کہ کچھ سیکھنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے راضی ہی نہیں۔ کیوں؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمیں آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا شوق لاحق رہتا ہے؟ ہم ماحول سے وہ سب کچھ کیوں نہیں سیکھتے جو ڈھنگ سے جینے کے لیے ناگزیر ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں کچھ بھی ایسا سیکھنے سے دور رکھتے ہیں جس کے ذریعے زندگی کا معیار اچھا خاصا بلند کیا جاسکتا ہے؟
ہم اپنے ماحول میں بہت سے عوامل کا اثر غیر محسوس طور پر قبول کرتے رہتے ہیں۔ ذہن کے معاملات بہت عجیب ہوتے ہیں۔ یہ اگر فعال نہ ہو تو دھوکا دیتا ہے اور اگر فعال ہو تو زیادہ دھوکا دیتا ہے۔ ہم ذہن کو بروئے کار لانے کے معاملے میں اکثر اس مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اب تو کوئی مشکل ہماری راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو ہی نہیں سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی سوچتے اور کرتے ہیں وہ ذہن کی بدولت یا اُس کے باعث تو ہوتا ہی ہے؛ تاہم کبھی کبھی ذہن ہمیں اِس طور دھوکا دیتا ہے کہ یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے ہی ذہن کے ہاتھوں اس خوش گمانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ذہن کو بروئے کار تو لایا ہی جارہا ہے، تو پھر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
کیا ہم یہ حقیقت ذہن نشین رکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہمارے ماحول میں پایا جارہا ہے وہ ہمارے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کا بھی حصہ بنتا جاتا ہے؟ ہمارا باطن ایک الگ دنیا ہے۔ اُس دنیا میں سبھی کچھ تو انوکھا ہے۔ یہ باطن ہی تو ہے جو ہمیں ظاہر کی ہر الجھن سے نپٹنے کا شعور اور حوصلہ بخشتا ہے۔ قدرت نے انسان کا باطن اس لیے رکھا ہے کہ جب ظاہر کے معاملات بے قابو ہونے لگیں تو انسان باطن کی دنیا میں تھوڑا گھومے پھرے اور اپنے لیے سکون و راحت کا سامان کرے۔ ظاہر کی دنیا ہمارے لیے جو چیلنجز کھڑے کرتی ہے وہ بالعموم باطن کی مدد سے بخوبی نمٹائے جاسکتے ہیں۔ خیر‘ ایسا صرف اُس وقت ممکن ہے جب انسان یہ طے کرے کہ اپنے باطن کو ظاہر کی خرابیوں سے آلودہ نہیں کرے گا اور جہاں تک ممکن ہوگا اپنے باطن کو پاکیزہ رکھے گا تاکہ اُس کی کارکردگی کا معیار نہ گرے۔
آج معاملہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے باطن کو بھی آلودہ کرلیا ہے۔ ہر دور کے انسان کو سب سے زیادہ نقصان ظاہر کی دنیا سے تعلق رکھنے والے صرف ایک وصف نے پہنچایا ہے اور وہ ہے خالص مادّہ پرست ذہنیت۔ مادّہ پرستی انسان کو خالص حیوانی سطح پر لے آتی ہے، بلکہ کبھی کبھی تو معاملہ اِس سے بھی نیچے آجاتا ہے۔ بھارت کے شہر پونا سے تعلق رکھنے والے آئی ٹی ایکسپرٹ اویناش کرشنن کُٹّی کا معاملہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان اگر اپنے دل و دماغ پر قابو نہ پائے، اپنے باطن کو ظاہر کی خرابیوں سے آلودہ ہونے دے تو خرابی کس قدر بڑھتی ہے اور کہاں تک برباد کر چھوڑتی ہے۔ اویناش کی عمر 40 سال ہے۔ اُس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی تربیت پائی اور اچھا خاصا کماتا آیا ہے۔ اُسے لوگ ایک اچھے آئی ٹی ایکسپرٹ کی حیثیت سے جانتے اور مانتے ہیں۔ اویناش کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی اُسے اِس طور ٹھگے گا کہ وہ خود بھی دیکھتا رہ جائے گا۔ مگر جناب ایسا ہوا اور اب اویناش صرف کفِ افسوس مل رہا ہے۔ دیکھنے والے حیران ہیں کہ اُس جیسا آئی ٹی ایکسپرٹ بھی یوں دھوکا کھاسکتا ہے۔
یہ کہانی مارچ 2023ء میں شروع ہوئی جب اویناش کوکسی نامعلوم نمبر سے ایک پیغام موصول ہوا۔ اس پیغام میں اُسے آن لائن کام کی پیشکش کی گئی تھی۔ چند چھوٹے موٹے کام کرنے کے عوض اُسے معقول معاوضے کی پیشکش کی گئی۔ اویناش آن لائن فراڈ کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا۔ اُسے اندازہ تھا کہ جو لوگ کسی کو آن لائن ٹھگتے ہیں وہ معمولی سے کام کے لیے خاصی پُرکشش ادائیگی کی پیشکش کرتے ہیں۔ انسان دھوکا کھا جاتا ہے اور پھنس جاتا ہے۔ اویناش نے دیکھا کہ جو آن لائن کام کرنے کو دیے گئے تھے اُن کا معاوضہ معمولی تھا۔ یہ معقول بات تھی۔ اُس نے وہ کام کردیے اور کچھ دن بعد اُسے معقول معاوضہ مل گیا۔
پہلے مرحلے سے گزرنے پر اُسے مزید آن لائن جابز دی گئیں۔ اویناش نے وہ بھی کردیں۔ اِن جابز کی ادائیگی بھی بخوبی کردی گئی۔ اویناش میں جوش و خروش بھی تھا اور اعتبار و اعتماد بھی۔ اویناش سے رابطے میں رہنے اور کام کرانے والوں نے اب ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ کرنے کا سوچا۔ انہوں نے اویناش سے کہا کہ اگر وہ زیادہ کام کمانا چاہتا ہے تو چھوٹے موٹے کاموں کی دلدل سے نکل کر کچھ کرنا ہوگا۔ اویناش اِس کے لیے تیار تھا۔ وہ جانتا تھا کہ چھوٹے موٹے سوشل میڈیا ٹاسک کرنے سے وہ ماہانہ پانچ دس ہزار تو کماسکتا ہے، اِس ہدف سے آگے نہیں جاسکتا۔ اُس نے زیادہ کمانے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا۔ جب اُس سے کہا گیا کہ غیر معمولی تناسب سے منافع کمانے کے لیے اُسے آجر کی سطح پر جانا پڑے گا یعنی سرمایہ لگاکر دوسروں سے کام لینا پڑے گا تو اُسے اِس میں کچھ بھی نامعقول نہ لگا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ دوسروں سے کام لینے میں زیادہ فائدہ ہے۔ اویناش سے رابطے میں رہنے والوں نے پہلے مرحلے میں ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کروائی اور اُس کا معقول معاوضہ دیا گیا۔ اب اویناش کا اُن لوگوں پر اعتماد بھی بڑھ گیا اور اعتبار بھی کم نہ تھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ معاوضے کی طرح اب منافع بھی باقاعدگی سے مل رہا ہے تو اُس نے اپنے آپ کو بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے لیے تیار پایا۔ چند ماہ میں اُس نے دس لاکھ روپے تک کی سرمایہ کاری کی اور منافع کماتا رہا۔ پھر اُس نے پورے جوش و خروش کے ساتھ بیس لاکھ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کردی۔
بس، یہی تو وہ موقع تھا جس کی آن لائن فراڈ کرنے والے اُس گینگ کو تلاش تھی۔ بیس لاکھ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری سمیٹ پر وہ گینگ غائب ہو گیا۔ اویناش کو یقین ہی نہیں آیا کہ کچھ لوگ اُسے ٹھگ کر بھاگ گئے ہیں۔ کچھ دن تک تو اُس پر سکتے کی کیفیت طاری رہی۔ وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ بتاتا کیا؟ وہ محض آئی ٹی ایکسپرٹ نہیں بلکہ لوگوں کو آن لائن فراڈ سے بچنے کے طریقے بھی بتاتا آیا ہے۔ نئی نسل اُس سے آئی ٹی کی مہارتوں کے ساتھ ساتھ آن لائن فراڈ سے بچنے کے بارے میں بھی تربیت حاصل کرتی رہی ہے۔ اگر اویناش اپنی کہانی کسی کے سامنے رکھتا تو لوگ تمسخر اڑاتے۔ مگر خیر‘ وہ محض تماشائی بنا بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اُس نے پولیس میں رپورٹ درج کرا دی۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو بتائے کہ دیکھو! اگر کوئی اُس جیسے آئی ٹی ایکسپرٹ کو ٹھگ سکتا ہے اور وہ بھی بیس لاکھ روپے سے زیادہ تو عام آدمی سے اُس کی محنت کی کمائی بٹورنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔
بات یہ ہے کہ انسان خالص مادّہ پرست ذہنیت کے ہاتھوں لالچ کا بھی شکار رہتا ہے۔ یہ لالچ ہی تو ہے جس نے ہر دور کے انسان سے حماقتوں کے ارتکاب کی راہ ہموار کی ہے۔ آج بھی معاملہ زیادہ مختلف نہیں۔ ظاہر کی دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے مگر باطن کی دنیا میں پائی جانے والی خرابیاں انسان کو تباہی کے دہانے تک پہنچاتی رہتی ہیں۔ انسان کتنی ہی مہارتیں حاصل کرلے، اگر وہ لالچ کے پَلّو سے بندھا رہے گا تو اپنے آپ کو کبھی بلند نہیں کرسکے گا۔ ظاہر کی دنیا ہمیں بہت کچھ دے سکتی ہے اور دیتی ہے جبکہ باطن کی دنیا ہمیں سکھاتی ہے کہ ظاہر کی دنیا نے جو کچھ بخشا ہے اُس سے کماحقہٗ استفادہ کس طور کیا جانا چاہیے۔ ماحول سے بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے تاہم باطن کو بالکل نظر انداز مت کیجیے۔ ظاہر کی دنیا بہت پُرکشش ہے مگر اِس میں خرابیاں بھی ہیں۔ باطن کی دنیا آپ کو ظاہر کی اِن خرابیوں سے لڑنا سکھائے گی۔ آپ کو یہی تو سیکھنا ہے۔ لالچ کے موڑ پر پھنسے نہ رہیے، اِس سے آگے بڑھ کر زندگی کا حق ادا کرنے کا بھی سوچئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved